سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا:
میں نے متعدد بار اپنے پچھلے مضامین میں تحریر کیا کہہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور انکے قائدین میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ پاکستان کو اس سمت میں لیکر جائیں اور وہ منزل حاصل کریں جس کا خواب بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے دیکھا تھا۔ جب جب پاکستان میں سیاسی یا نام نہاد جمہوری حکومت بر سرِاقتدار آئی ہے پاکستان میں فرقہ واریت، صوبائیت، لسانیت اور بدعنوانیوں میں اضافہ ہوا ہے اور دوسری جانب پاکستان کی نام نہاد اشرافیہ میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
پشاور میں ہولناک واقعہ کے بعد جس کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا جس طرح کا ردعمل اور سرگرمیاں پاکستان کے انُ سیاسی قائدین اور جماعتوں نے دکھایا ہے جو اسِ وقت اقتدار میں یا حزب اختلاف میں سرگرمِ عمل ہیں ، وہ پاکستانی قوم کے لئے شرم کا باعث ہے۔ انِ سیاسی مداریوں سے مزید توقع کی بھی کیا کی جا سکتی ہے۔
پشاور کی فوجی چھائونی میں واقعہ فوجیوں کے بچوں کے اسکول میں چھ خودکش دہشتگردوں کا گھس کر پہلے اپنی گاڑی کا آگ لگانا ، پھر چنُ چنُ کر بچوں کو گولیاں مارنا، اساتذہ پر گولیاں برسانا، کتابوں کو آگ لگانا اور پھر بھرپور انداز سے پاک فوج کے جوانوں سے مقابلہ کرنا پاکستانی فوج اور قوم کے لئے کیا پیغام تھا۔ یہ چھ دہشتگرد کسِ نے بھیجے تھے؟ کیا انِ دہشتگردوں کا مقصد صرف ِ ہولناک بربریت اور لوگوں کو قتل کرنا تھا؟ ہر گز نہیں؟
میری رائے میں وہ اسِ طرح کی درندگی اور ایک عبرتناک دہشتگردی کرکے پاکستانیوں اور فوج کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہہ دیکھو ہم تمھاری نسلوں کو تمھارے اپنے گھر میں گھس کر اسِ طرح سے قتل کر سکتےہیں کہہ تم دنیا کے لئے ایک عظیم خبر بن جائو؟ اسِ واقع کے بعد پاکستانی قوم اور فوج کے لئے کیا رہ جاتا تھا کہ اقتدار میں بیٹھے قائدین اور سیاستدانوں کے سیاسی کرتب دیکھیں؟ کیا پاکستانی قوم یہ انتظار کرے کہ ایک کمیٹی بنے گی اور وہ سات دنِ بات اپنے رپورٹ پیش کرےگی کہ ہمیں کرنا کیا ہے؟ آج ہم یعنی پاکستانی قوم کے لئے ڈوب کے مرنے کا مقام ہے۔
کتنے کرب ور دکھ کی بات ہے، کم سے کم میں نے اپنی زندگی میں ایسے لوگ اور انکے فیلوں کے بارے میں نا سنا اورنا دیکھا کہ دہشتگردی کے عظیم سانحہ کے بعد جس میں ہمارے ایک سو تیس بچے مار دئیے گئے ہوں اور وہ بھی جب وہ اسکول میں تعلیم حاصل کررہے تھے، یہ سیاسی مداری گھنٹوں مینٹگ کریں ، باہر آکر فوٹو سیشن کریں اور پھر وزیر اعظم یہ اعلان کریں کہ اب وزیر داخلہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائ جائے گی جو سات دنِ میں دہشتگردی کے خلاف ایک پلان پیش کریگی؟
إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّ إِلَيْهِ رَاجِعونَ
یہ سب سیاسی مجرم ہیں انہوں نے انُ مائوں کی تکلیف کو محسوس نہیں کیا جن کے بچے اسکول گئے تھے اور وہ انکی واپسی کا انتظار کر رہی تھیں؟ انِ سیاسی مجرموں نے یہ محسوس نہیں تھا کہ شہید ہونے والے ۱۳۰ فوجیوں کے بچوں میں مستقبل کے سپہ سالار ، کمانڈر، پائلیٹ، اور سائنسدان تھے؟ ورنہ یہ تمام مداری ایک ساتھ بیٹھ کر صحافیوں کے سیاسی اور بے تعلق سوالات پر قہقہ نہیں لگاتے، ایک دوسرے پر ٹونٹ بازی نہیں کرتے؟ اگر آج بھی پاکستانی قوم ان کے پیچھے کھڑی ہے تو پھر شاید اٹھارہ کرور عوام بھی یہی سب چاہتی ہے؟
انِ تمام سیاسی مداریوں نے بیٹھ کر کیا فیصلہ کہ اب ایک اور کمیٹی بنائی جائے گی اور وہ بھی کسِ کی صدارت میں، اس بزدلِ کی وزیر داخلہ کی جو ایک شخص کو دارلخلافہ میں قابو نہیں کر سکاتھا؟ اور پھر کیا انُ کمیٹیوں کا کوئی نتیجہ نکلا جو ہر دہشگردی کے واقعہ کے بعد بنائی گئیں؟ کیا انُ سینکڑوں دہشتگردوں کو سزائے موت دی گئیں جن کو پاکستان کی عدالتوں سے سزائے موت سنائی جا چکی ہے؟
اصل حقیقت یہ ہے کہ جب قیادت نا اہل ہو، جب سیاستدانوں کا مقصد صرف اور صرف اقتدار کا نشہ ہو تو وہاں عوام اور اسکے حقوق کا کون خیال کرتا ہے! مہذب معاشروں اور زندہ قوموں کی ریاستوں میں ایک چھوٹے سے واقعہ پر قائد اپنی کرسی چھوڑ دیتےہیں ہمیشہ کے لئے سیاست چھوڑ دیتے ہیں؟ یہ پاکستان کے کیسے سیاستدان اور انکی جماعتیں ہیں جو کسی کو تحفظ نہیں دے سکتے اور پھر بھی بڑی ڈھٹائی سے رونا روتے ہیں کہ تمام قوم اٹھ کھڑی ہو؟ یہ سب فراڈ ہیں، انِ کی باتیں فراڈ ہیں ، انِ کے کام فراڈ ہیں، یہ جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں اور جیسے دِکھتے ہیں ایسے ہیں نہیں۔
بڑے افسوس کا مقام یہ ہے اور مجھے یقین ہے عمران خان کے لاکھوں چاہنے والوں کو بھی کل سے نیند نہیں آئی ہوگی اور مایوسی ہوئی ہوگی جسِ طرح سے عمران خان نے وزیر اعظم کے بلائے گئے مشترکہ قائدین کے اجلاس میں شرکت کرنے کے بعد کیا اور بعد میں اپنے کنٹینر پر جاکر دھرنہ ختم کر نے کا اعلان کیا۔دھرنہ ختم کرنے کی کوئی بھی معقول وجہ کیوں نہ ہوں اسِ سے عمران خان کی طرف سے میاں نواز شریف پر لگائے گئے الزام کسِ طرح ختم ہو سکتے ہیں۔سوچنے کی بات اور لمحہ فکریہ یہ ہے کہ نواز شریف کی تمام کاروائیاں اور کوششیں عمران خان کو دھرنہ ختم کرنے پر مجبور نہیں کر سکیں مگر اسِ دہشتگردی کے واقعہ نے عمران خان کو دھرنہ ختم کرنے پر کیسے مجبور کر دیا۔ یہ پاکستان میں کون سا کھیل کھیلا جا رہا ہے؟
کیا دھرنہ ختم کرنے سے دہشتگردی کی کاروائیوں کو روکنے اور دہشگردوں کو سبق سکھا نے میں مدد ملِ سکتی ہے؟ میری رائے میں یہ وقت تو حکومت پر اور دبائو ڈالنے کا تھا کہ وہ دہشتگردوں کو سرے عام سزائیں دے اورایسے انتظامات اور قانون پر عملددآمد کرے کہ اگلے چوبیس گھنٹوں میں دہشتگردوں کو ہر بڑے شہر کے بڑے چوراہے پر لٹکایا جائے۔
یہ وہی سیاستدان ہیں یا پھر اُنکی باقیات ہیں جنہوں نے پاکستانی فوج کو بلیک میل کیا، مشرقی پاکستان کے لوگوں کو مجبور کیا کہہ وہ پاکستان سے علیحدگی اختیار کرلے۔ آج بڑے دھڑلے سے یہ کہا جاتا ہے کہ دہشتگردی میں بھارت کا ہاتھ ہے ، امریکہ کا ہاتھ ہے وغیرہ وغیرہ، سوال یہ ہے کہ ہاتھ کسی کا بھی ہو، پاکستان کے دشمن تو وہ سب کچھ کریں گے جو وہ کر سکتے ہیں پاکستان کو مزید ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لئے! یہاں سوال یہ ہے پاکستان کی قیادت، حکومت اور فوج دشمن کے ارادے نا کام بنانے میں کتنی کامیاب ہے؟ پاکستان کی سات لاکھ سے زیادہ افواج ، نیوکلر پاور اور اٹھارہ کروڑ عوام کیا کافی نہیں ہیں اپنے ملک کا دفاع کرنے کے لئے اور پاکستان کے دشمنوں کے ارادوں کو خاک میں ملانے کے لئے؟ بات ہے حب الوطنی، ایمان اور قومی ذمہ داری کی۔
امریکہ کے ٹوونِ ٹاور پر ستمبر گیارہ ۲۰۰۱ میں دہشتگردوں نے حملہ کیا، تین ہزار کے قریب لوگ مارے گئے ،تو امریکہ کے صدر نے چوبیس گھنٹے گزرنے سے پہلے یہ فیصلہ کیا کہہ افغانستان پر حملہ کرنا ہے اور دنیا سے کہا کہ فیصلہ کرلو تم ہمارے ساتھ ہو یا دہشتگردوں کے۔ پاکستان کو صاف لفظوں میں کہا کہ فوری فیصلہ کرلو کسِ کے ساتھ کھڑے ہو!
ہمارے قائدین نے کیا کیا؟ دودنِ تک میٹنگیں، کمیٹی بنانے کا اعلان، دھرنہ ختم کرنے کا اعلان، اسِ سے زیادہ شرم کی بات ہو کیا ہو سکتی ہے۔ کسی کو چاہے بات اچھے لگے یا نہیں، میں وہ کہتا ہوں جو میرے دلِ و دماغ میں ہوتا ہے۔ اور میرے مطابق آج پاکستان کی سیاست وقت نے پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام اور دنیا کو یہ تعسر دیا ہے کہ پاکستانی بزدلِ ہیں، ہم طالبان سے نہیں لڑ سکتے، ہم اُس ملک کے خلاف اعلانِ جنگ نہیں کر سکتے جہاں سے یہ دہشتگرد آرہے ہیں؟ ہم کسی ملک کو صاف الفاظ میں للکار بھی نہیں سکتے؟ کیا پاکستان کی ساتھ لاکھ افواج کے سربراہ یا وزیر اعظم افغانستان کے صدر کو صاف الفاظ میں اور عوام میں آکر
دھمکی بھی نہیں کہ اگر چوبیس گھنٹے کے اندر ملاح فضل اللہ کو پاکستان کے حوالے نہ کیا گیا تو پاکستانی افواج افغانستان میں گھس کر فضل اللہ کو نکال کر لائے گی؟ جس قوم اور اسکے قائدین میں ہمت ہوتی ہے اور بھروسہ اللہ کی ذات پر ہوتا ہے وہ اپنا حق لینے کے لئے اور انصاف قائم کرنے کے لئے سوائے اللہ کی ذات اور اپنی پر یقین رکھتے ہیں اور کسی سے نہیں ڈرتا!
یہاں میں آسٹریلیا میں بسنے والے بالخصوص سڈنی میں آباد پاکستانیوں سے بھی سوال کرنا چاہتا ہوں کہ خدا کے لئے اپنے اندر اتحاد پیدا کریں ؟ سیاسی و مذہبی گروپ بازی بند کریں! اور اپنے اندر اتحاد قائم کریں۔ اپنے اندر سے اُن کالی بھیڑوں کو نکالیں جنہوں نے کمیونٹی کی قیادت کے نام پر اپنا کاروبار چمکا رکھا ہے۔ لائق اور مستحق قیادت سامنے لائیں۔ بدقسمتی سے مجھے حالات آگے بھی اچھے نظر نہیں آرہے۔اللہ نہ کرے آگے ہمیں کنِ حالات کا سامنا کرنا پڑے۔ آج جس طرح کے ہمارے کمیونٹی کے پلیٹفارم بنے ہوئے ہیں اور جس طرح کے خود ساختہ لیڈران کمیونٹی کے کرتا دھرتہ بنے ہوئے ہیں کیا یہ مشکل حالات میں پاکستانی کمیونٹی کی نمائندگی کر سکیں گے۔ ہم سب سمجھ دار ہیں لحاظہ میں بس اتنا کہوں گا کہ پاکستان کی خاطر اور ہمار ی یہاں پلنے والی اگلی نسل کی خاطر، اپنے سماجی، مذہبی اور کمیونٹی کے اداروں میں اعلی اور لائق قیادت لیکر آئیں۔یہ موقع محل نہیں کہ میں مزید کسی خاص مسلہ کی طرف نشاندھی کروں مگر انتا ضرور کہوں گا کہ کچھ خود ساختہ لوگوں نے اسِ طرح کے سلسلہ شروع کر رکھے ہیں کہہ کمیونٹی کے لئے انِ کی کارکردگی صفر ہے مگر انکے اپنے مفاد میں کمیونٹی کے پلیٹفارم نے انکی کارکردگی اعلی درجہ کی ہے۔ میرا کام صرف نشاندھی کرنا ہے باقی ذمہ داری اجتماعی ہے۔