سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا
سندھ کے وزیر اطلاعات سمیت کئی نام نہاد سندھ سے محبت کا دعوی کرنے والے کہتے ہیں کہ اگر نئے صوبے پاکستان کے کسی اور صوبے میں بنائے جاتے ہیں تو ان کو اعتراض نہیں ہے مگر سند ھ میں نہیں بن سکتے۔ بحیثیت ایک پاکستانی یہ کسِ طرح کی منافقانہ اور متعصبانہ پالیسی ہے۔ پیپلز پارٹی اور سندھ کی قوم پرست جماعتوں کے قائدین اگر سندھ کو مزید صوبوں میں تقسیم کرنے کی مخالفت کر رہے ہیں تو اسِ کی وجہ یہ نہیں کہ وہ سندھ اور سندھی عوام سے بہت پیار کرتے ہیں ورنہ پچھلے ساٹھ سالوں میں کئی مرتبہ پاکستان اور سندھ کا کنڑول سنبھالنے کے باوجود بھی یہ سندھ کے دہی علاقوں میں بسنے والے عام سندھی کی حالت کچھ تو بہتر بناتے۔ آج بھی سندھ کے دہی علاقوں میں جائیں تو ان کے پاس نا پینے کے لئے صاف پانی ہے ، نا روزگار ہے اور نہ رہنے کے لئے چھت ہے اور اگر کچھ ہے تو صرف انِ وڈیروں کی غلامی کرنا جومظلوم سندھی عوام کے نام نہاد سیاسی قائدین بنے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہےکہ یہ ہمیشہ سے سندھ میں زبان کے نام پر ،سندھی مہاجر ،کا کارڈ کھیلتے آئے ہیں اور سندھ دھرتی کا نعرہ لگا کر سندھ کے ایوانوں تک پہنچے ہیں اور بدلہ میں آج تک سندھ کی عوام کے لئے کچھ نہیں کیا سوائے استحصال کے۔
اگر سندھ کئی صوبوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ کراچی الگ صوبہ بن جاتا ہے اور حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ، اور میر پور خاص کو بھی صوبوں کا درجہ ملِ جاتا ہےتو ان علاقوں کے تمام باشندوں کو بلا تفریق فائدہ ہوگا اور اگر کسی کو نقصان ہوگا تو وہ صرف اور صرف سندھ کےان وڈیروں اور قبائلی سرداروں کو ہوگا جو سیاسی قائدین کا روپ دھارکر سندھیت اور سندھ دھرتی کے نام پر سندھ کے سادہ اور غریب عوام کواستعمال کرتے ہیں۔ سندھ کے عوام سے محبت کا راگ الاپنے والے ان لیڈران کے اگر سیاسی سفر اور کارکردگی پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ جب ان کو اسلام آباد میں کوئی کرسی ملتی نظر آتی ہے تو یہ پنجاب کا سہارا لیتے ہیں اس وقت یہ سندھ کا ٹھکانہ بھول جاتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لیکرآصف علی زرداری تک سب نے پنجاب کا سہارا لیکر اپنی سیاسی دکان چمکائی اور سندھ کے عوام کو صرف احساسِ محرومیوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔لحاظہ اگر سند ھ کے عوام کو چا ہے شہری ہوں یا دھی ان وڈیروں اور بدعنوان سیاسی مداریوں سے پیچھا چھڑانا ہے تو اپنے بہتر اور آزاد مستقبل کے لئے وہ فیصلہ کرنا ہوگا جو سندھ کے عام عوام کے لئےبہتر ہو۔
دنیا بدل گئی ہے چھوٹی چھوٹی ریاستیں بے شمار صوبوں پرمشتمل ہیں۔پڑوسی ملک ایران میں 31 صوبے ہیں جبکہ آبادی 8 کروڑ ہے۔افغانستان کی آبادی صرف 3 کروڑ ہے جبکہ صوبے 34 ہیں، ترکی آبادی 8 کروڑ ہے اور صوبے 81 ہیں۔ سندھ کو مزید صوبوں میں تقسیم کرنے کی مخالفت کرنے والوں کو سمجھنا چائیے وہ کسِ دنیا میں رہ رہے ہیں اب وہ مزید اپنے ہی لوگوں کو بے وقوف نہیں بنا سکتے۔ سندھ کی آبادی تو افغانستان سے بھی زیادہ ہے۔سندھ کی آبادی 5 کروڑ کے لگ بھگ ہے اور دنیا میں شاید ہی کسی ملک کا اتنی آبادی والا صوبہ ہوگا۔ لحاظہ کراچی کے علاوہ سندھ کو کم سے کم چار صوبوں میں تقسیم کر دینا چائیے ۔اور ویسے بھی کراچی پاکستان کے قیام سے لیکر 1970 تک سندھ کا حصہ نہیں تھا کیونکہ وہ ملک کا دارلخلافہ تھا۔ کراچی کو سندھ میں دینے کا جرم مشرقی پاکستان علیحدہ ہونے اور مغربی پاکستان کا ون یونٹ توڑنے کا نتیجہ تھا ۔ یہ باتیں بہت کڑوی ہیں اگر مزید بات کرونگا تو ان شخصیات کے نام لکھنے پڑیں گے جن کو آج ہمارے نامور لکھاری بابائے جمہوریت گردانتے ہیں اور ویسے بھی میرے اسِ مضمون کا یہ موضوع نہیں ہے۔
نواز شریف صاحب اپنی ٹیم کے ساتھ کراچی میں دو دنِ گزار کر بڑے بڑے دعوی کر کے گئے کہ کراچی کے حالات ٹھیک کرنے میں کسی سیاسی مصلحت سے کام نہیں لیا جائے گا۔ مگرہو کیا رہا ہے؛ سندھ کی حکومت وہی پرانے نسخہ سے کراچی کاعلاج کرنا چاہتی ہے۔ کراچی سمیت سندھ میں پولس کے محکمہ میں بڑے پیمانے پر اوپر سے نیچے تک پولس افسران تبدیل کر دئیے ہیں۔ کراچی کے حالات پر پولس کی ناکامی کے بارے میں یہ کہا جا رہا تھا کہ جب تک محکمہ پولس میں سیاست سے پاک افسران تعینات نہیں کئے جائیں گے پولس کراچی کے حالات ٹھیک نہیں کر سکتی۔ اور لگتا یوں ہےکہ سندھ کی حکومت حالات مزید خراب دیکھنا چاہتی ہے۔ کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں میں ایسے سندھی بولنے والے افسران کو چن چن کے تعینات کیا گیا ہے جن کو پیپلز پارٹی کی سرپرستی حاصل ہے اور جن کا تعلق کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے دوسرے شہری علاقوں سے نہیں۔ مسلہ سندھی بولنے والے افسران کا نہیں ہے کیونکہ ایک اچھے اور دیانتدار افسر کا تعلق کسی بھی زبان ، فرقہ یا نسل سے ہو سکتا ہے مگر کراچی اور سندھ کے شہروں میں جن نفرتوں کو متعصبانہ نظام کے ذریعہ پیدا کیا گیا ہے اس کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے لازمی ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں میں وہیں کے قانون نافظ کرنے والے اہل کاروں کو حالات ٹھیک کرنے کا ذمہ دار بنایا جائے۔ مگر جیسا میں اپنے بیشتر مضامین میں بارہا لکھ چکا ہوں کہ کراچی کے مسائل کی جڑوں میں جانا ہوگا۔ نا انصافی، اقربا پروری، تعصب اور تقسیم کی بنیاد پر فروغ دینے والے معاشرہ میں بدعنوانیاں، جرائم، لوٹ مار اور قتل و غارت گری جنم لیتی ہے اور آج کراچی میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ یہی وہ بنیادی نا انصافیاں ہیں کہ جن کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے اور وہی نفرتیں پیدا کرنے کی حرکتیں پچھلی کئی دھائیوں سے ہورہی ہیں جو سابق مشرقی پاکستان اور آج کے بنگلادیش کی عوام کے دلوں میں پیدا کی گئیں۔ جن لوگوں کو قلم کو اپنا ہتھیار بنانا چاہئے تھا آج وہ سمجھتے ہیں کہ بندوق کے بل پرہی انکو انکا حق مل سکتا ہے۔ یہ پاکستان کی سالمیت کے لئےبہت خطرناک کیفیت ہے اسے روکنا ہوگا۔ سندھ کی تقریبا آدھی آبادی سے تعلق رکھنے والی نسل کے لوگ پولس اور دوسرے انتظامی اداروں میں آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ اور یہ سب کچھ 1970 کی دھائی سے ہو رہا ہے۔ جس کا سدباب اب بھی نہیں کیا گیا تو اللہ نہ کرے آج جن حقیقتوں کو حکمران طاقت اور جبرسے دبانے کی کوشش کررہے ہیں وہ انِ حکمرانوں کو ہی کہیں اپنے ساتھ بہا کر نہ لے جائے۔ لحاظہ اگر پاکستان میں رہنے والی تمام اکائیوں کو ایک مستحکم اور خوشحال مستقبل دیکھنا ہے تو ہر طبقہ، علاقے کے لوگوں کو مساوی حقوق دینے ہونگے جس کے لئے سندھ سمیت پورے پاکستان میں بہتر انتظامی امور چلانے کے لئے اور عام آدمی کوبلا تقریق بنیادی حقوق دینے کے لئے اور ملک کو مضبوط کرنے کے لئے کئی سارے صوبے بنانے ہونگے۔
1 Comment
Comments are closed.