:سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا
یومِ سقوطِ ڈھاکہ یعنی سولہ دسمبر کو پشاور کے ایک اسکول میں دہشتگردی کا ہولناک واقعہ ہوا جس میں ۱۳۰ طلبا سمیت ۱۴۸ پاکستانی سفاکی سے شہید کر دئیے گئے۔ آج اسِ واقع کو پندرہ روز گزر چکے ہیں اور آج تک پاکستان کے سیاستدان، صحافی برادری اور حکمران ملِ کر اس ِ بحث و مباحثہ میں الجھے ہیں کہ ہمیں دہشتگردوں کو سزائیں دینے کے لئے فوجی عدالتیں بنانی چا ہیئں یا نہیں اور اگر بنانی چا ہیئں تو اسِ بات کی یقین دھانی ہونی چائیے کہ ان عدالتوں میں صرف اور صرف دہشتگردوں کو ہی سزائیں ملیں گی نہ کہ سیاسی بنا پر یا سیاستدانوں اور انکی جماعتوں کے خلاف کوئی کاروائی کی جائے گی۔ دوسری جانب اٹھارہ کروڑ پاکستانی عوام میں سے پیدا ہونے والی اشرافیہ نے پاکستان میں اور بیرونِ پاکستان شہید ہونے والوں کے لئے مشہور مقامات پر دئیے جلا کر اپنا فرض پورا کیا اور ایک نئے ایونٹ کا انعقاد کرکےاور پھر سوشل میڈیا پر اپنے ایونٹ کی تصاویر ی ایلبم کی اشاعت کرکے اپنے ہونے کا ایک اور ثبوت پیش کیا۔ پاکستانی میڈیا نے بھی چھوٹی بڑی وڈیو رپورٹس، قطعات، اور میڈیا ایونٹ کے ذریعہ دہشتگردی کے ایک اور واقع کے بعد کی رپورٹنگ سے ٹی پی آر بڑھانے کے موقع کو ضائع نہیں ہونے دیا۔
پھر پاکستان کے قومی میڈیا اور سوشل میڈیا پر پاکستان کے وہی سیاسی مداری اور انکی جماعتوں کے بیانات خبروں اور ٹی شوز کی زینت بنتے دیکھے اور سنے گئے کہ سانحہ پشاور کے ۱۵۰ شہیدوں بالخصوص ۱۳۰ بچوں نے اپنی جانوں کا نظرانہ دیکر پاکستان کی قوم کو اکٹھا کر دیا ہے، دیکھو آج سارے سیاستدان، سیاسی جماعتیں اور فوجی ایک ہی صفحہ پر ہیں۔ پاکستانی عوام کو فخر ہے کہ وہ آج ایک ہیں وغیرہ وغیرہ۔ واہ رے پاکستانیوں!! کب تک حقیقت سے منہ موڑتے رہو گے اور کب تک پاکستان انِ چیزوں کو برداشت کر کے زندہ رہ پائے گا۔
میں نے جب سانحہ پشاور کے فورا بعد اپنے دو مضامین میں تلخ حقائق بیان کئے، اور ایک ممکنہ منظر نامہ بھی پیش کیا جس میں سیاستدانوں کے بزدلانہ رویہ کو اجاگر کیا تو فورا ہی انُ سیاستدانوں کے ہمدردوں کا رد عمل سامنے آگیا، کیونکہ کوئی غلط ہو نہ ہو، انکے من پسند سیاستدان کوئی غلط فیصلہ نہیں کر سکتے، انُ سیاستدانوں کے پاس معقول جواب ہو نا ہو، انکے پیروکاروں کے پاس اپنے قائد کے ہر فیصلہ کے صحح ہونے کی دلیل ضرور موجود ہوتی ہے۔
آج پشاور میں شہید ہونے والے ۱۵۰ پاکستانیوں کو پندرہ دنِ گزر چکے ہیں، لیکن یہ ۱۵۰ پاکستانی ہی نہیں اگر ہماری یاد داشت صحح کام کر رہی ہے تو اب تک ہزاروں بچے، عورتیں ، بوڑھے اور جوان دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ مگر پاکستانی سیاستدان یہ ماننے کو تیا ر نہیں کہ وہ پاکستان میں لا قانونیت ختم کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ سیدھی اور سچی بات تو یہ ہے کہ وہ کسِ طرح سے دہشگردی کو روکنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں اور اسِ کا اعتراف بھی کریں گے جبکہ انِ ہی سیاسی جماعتوں اور انکے لیڈران میں سے بہت سی جماعتیں اور سیاستدان ایسے ہیں جو انِ مذہبی جنونیت کے الم بردار دہشگردوں کے ساتھ تعلقات استوار کئے ہوئے ہیں ۔ کہا جارہا ہے کہ آج پاکستانی قوم دہشتگردی کو ختم کرنے کے لئےاکٹھی ہو چکی ہے مگر سچ تویہ ہے کہ پاکستان کی عام عوام کو تو ملک کو لوٹنے والوں نے اسِ قابل ہی نہیں چھوڑا کہ وہ اپنے اکھٹے ہونے کا اظہار بھی کر سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ اکھٹی پاکستان کی عوام نہیں یہ تمام سیاسی مداری اپنے باہمی اختلاف پسِ پشت ڈال کر اپنی ناکامی اور بے گناہوں کی ہلاکتوں کی ذمہ داری کو اپنے دامن سے صاف کرنے کے لئے آپس میں اکھٹے ہوئے ہیں۔ آج یہ تمام سیاسی مداری اسِ لئے ایک زبان ہوکر بات کر رہے ہیں اور اب فوجی عدالتوں کے خلاف باتیں کر رہے ہیں اور فوجی عدالتوں کے قیام کو طول دے رہے ہیں کیونکہ جب بات نکلے گی تو دور تک جائے گی ! وزیر اعظم نواز شریف سمیت یہ بڑے بڑے سیاسی و مذہبی نام انِ فوجی عدالتوں کےگھیرے میں آئیں گے کیونکہ کسی نہ کسی وقت میں یہ تمام مداری انِ ہی طالبان کو پالتے رہے ہیں اور ان سے کرائے کے قاتلوں کا کام لیتے ہیں۔ جب گرفتار دہشتگردوں کو فوجی عدالتوں کے کٹہرے میں لایا جائے گا اور جب وہ اپنا منہ کھولیں گے تو انِ شریف و شرفا کا پردہ بھی چاک ہو جائے گا۔
آج آصف علی زرداری کو کیوں فوجی عدالتوں کے قیام س خوف آرہا ہے کیونکہ زرداری یہ جانتا ہے کہہ جب دہشگرد فوجی عدالتوں میں بیانات دیں گے تو پھانسی کا پھندا زرداری کے گلے تک بھی جا سکتا ہے۔
آج ۲۰۱۴ کا آخری دنِ ہے یہ سال بھی پچھلے کئے سالوں کی طرح اپنے دامن میں اُن ہزاروں بے گناہوں کا خون سمیٹے ہوئے ہے جو دہشگردی کی نظر ہو گئے ، آج ۲۰۱۴ کا سال ہزاروں مائوں کی سسکیوں، اور بیوائوں کی فریادوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے، ۲۰۱۴ کے ڈھلتا ہوا سورج اپنے ساتھ پاکستان کی تباہی کی ایک اور داستان لیکر غروب ہونے کو ہے۔
پاکستانیوں یہ مت بھولو! پاکستان حالتِ جنگ میں ہے۔ پاکستان کی فوج پاکستان کے دشمنوں سے لڑ رہی ہے مگر پاکستان کے سیاسی پنڈت اسِ جنگ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ پاکستان کی فوج پاکستان کا کنٹرول سنبھالے اور پھر وہ دہشتگردوں کے ساتھ ساتھ ان کا بھی حساب کتاب کرے جو انِ دہشگردوں کو پالتے رہےہیں یا ان کو پناہ دیتے رہے ہیں ۔ لحاظہ اگر پاکستان کو بچانا ہے تو اب مزید بحث و مباحثہ کا وقت نہیں، پاکستان کے دشمن اپنے ٹائم فریم کے مطابق پاکستان کے ٹکڑے کرنے کے درپے ہیں اور ہم ہیں کہ اسِ سیاسی مداریوں کے نام نہاد جمہوریت کےجال میں پھنسے رہنا چاہتے ہیں۔
پاکستانیوں! آج کی شام نئے سال کی خوشیاں اور چراغاں کرنے کا ہے یا پھر پاکستان کی خستہ حالت پر ماتم کرنے کا۔ ۲۰۱۵ کا نیا سورج ہمارے لئے امن و سکون لا سکتا ہے ، پاکستان سے لا قانونیت ختم کر سکتا ہے، پاکستان سے بد عنوان طبقہ کا قلہ قمہ کر سکتا ہے، پاکستان سے قومی دولت لوٹنے والوں کا گھیرا تنگ کر سکتا ہے اور دہشتگردوں چوراہوں پر لٹکا سکتا ہے ، اگر ہم سب نے متحد ہوکر پاکستانی فوج کا ساتھ دیا۔
پاکستانی فوج نے ماضی میں اقتدار میں رہ کر کچھ ٹھیک کیا یا نہیں ، یہ وقت اسِ بحث میں جانے کا وقت نہیں ، کیونکہ پاکستانیوں اب نا تو کوئی چوائس باقی ہے اور نا وقت، اگر تم سمجھتے ہو کہ ماضی میں فوج نے کچھ فیصلہ غلط کئے تو کیا وہ فیصلے زرداری، شریف برادران اور دوسرے سیاستدانوں کے کرتوتوں سے بھی برُے تھے؟ اگر صرف اور صرف پاکستان کی بقا کے لئے سوچا جائے تو کیا آپ کا ضمیر یہ نہیں کہہ رہا کہ اسِ وقت پاکستان کو صرف اور صرف فوج ہی بچا سکتی ہے تو پھر آئیے فوج کا اپنا کام کھلے اور آزادی سے کرنے دیجیئے۔ آئیے ۲۰۱۵ میں عہد کریں کہ ہم اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں گے۔ ہم اپنے اندر سے منافقت، دکھاوا اورخود فریبی کا خاتمہ کریں گے۔ ہم پاکستان کو چوروں، لٹیروں سے پاک کریں گے، پاکستان سے آزمائے ہوئے نا اہل اور دھوکہ باز سیاستدانوں کو فارغ کریں گے، پاکستان سے مذہبی جنونوں، فرقہ بازوں، اور مذہب کے نام پر دہشگردی پھیلانے والوں سے نکلا باہر پھینکے گے۔ آئیے عہد کریں کہ پاکستان کو ایک باوقار، مذہب، امن کا گہوارا ریاست بنائیں گے۔ پاکستان میں انصاف اور عدل قائم کریں گے۔ پاکستان کو وہ ریاست بنائیں گے جس کے لئے پاکستان بنایا گیا تھا۔