سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیاء
حقیقی جمہوریت کسی بھی معاشرہ کے لئے اسِ لئے ضروری ہے کہہ اسِ میں سے عام و خاص سب کو اپنی رائے اور بلا امتیاز ووٹ کا حق استعمال کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ منصفانہ انتخاب کے
عمل کے ذریعہ عوام جس سیاسی قائد اور تنظیم کے نمائندوں کو اکثریت میں ووٹ دیکر ایوانوں میں بھیجتی ہے انکو حکومت کرنے کا موقع ملتا ہے اور پھر تمام دوسرے قائدین اور تنظیمیں اس اقتدار
کو تسلیم کر تے ہیں اور پوری طرح سے حکومت کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔آج آسٹریلیا سمیت بہت سے مغربی ممالک میں یہ جمہوری نظام رائج ہے اور دنیا میں اسی نظام کی وجہ سے انکی عزت ہے۔ مجھے آسٹریلیا میں رہتے بیس سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا، یہاں مجھے کوئی ایسا تجربہ نہیں ہوا کہ کوئی میرے پاس کوئی آیا ہو اور پوچھاہو کہ میں نے کس لیڈر یا پارٹی کو ووٹ ڈالنا ہے یا مجھے کسِ لیڈر یا پارٹی کو ووٹ دینا چاہیے ۔ یہاں کوئی کسی امیدوار کے لئے الیکشن مہم نہیں چلاتا ۔ یہاں امیدوار خود ٹرین اسٹیشن کے باہر ، بس اسٹا پ پر یا کسی اور عوامی مقام پر اپنے اشتہار لوگوں میں تقسیم کر رہا ہوتا ہے جس میں اس کا انتخابی منشور بیان کیا گیا ہوتا ہے۔
لحاظہ جمہوریت صرف الیکشن کا نام نہیں۔ الیکشن تو صرف اپنی پسند کے نمائندوں اور سیاسی تنظیموں کو ووٹ دینے کا طریقہ کار ہے جس کے عمل کے لئے ملک میں سازگار ، منصافانہ اور قانون کی بالا دستی پر مبنی ماحول کا ہونا اور عوام کا انتخابی عمل میں حصہ لینے کے لئے سیاسی شعور لازمی ہے۔قبائیلی، جاگیرانا،وڈیرانا اور آمرانا نظام میں انتخابات تو کرائے جا سکتے ہیں مگر ان انتخابات کے نتیجہ میں ملک و قوم کے مفاد میں صحح جمہوریت نافظ نہیں کی جاسکتی ۔ لوٹ مار، لاقانونیت اور نا انصافیوں سے لبریز معاشرہ میں انتخابات کے عمل سے اسیُ طرح کے لوگ اور سیاسی تنظیموں سامنے آتی ہیں جنکا برائے راست اسُ لوٹ مار ، لا قانونیت اور نا انصافیوں سے تعلق ہوتا ہے۔ الیکشن میں جیت کر اور اقتدار میں آکر اپنے ذاتی مفاد اور منشور کی تکمیل کا نام جمہوریت نہیں۔ جمہوریت کے لئے عام آدمی کو انِ تمام باتوں کا سمجھنا ، ووٹ کی اہمیت کو سمجھنا اور جمہوری نظام کی اہمیت کا صحح معلوم ہونا لازمی ہے۔ ورنہ جمہوریت کے نام پر ایک ایسا مفاد پرست اور کرپٹ نظام جنم لیتا ہے جس کا منظر اسِ وقت پاکستان میں دیکھا جا سکتاہے۔ یہ جمہوری نظام نہیں بلکہ جمہوریت کے نام پر ایک شرمناک اور افسوناک تماشہ ہے جس کی بدولت آج پاکستان اور پاکستانی قوم باقی دنیا کے لئے افسوناک خبر بن گئی ہے۔
اگر ماضی کے گردو پیش میں جھانکیں توپتہ چلتا ہے کہہ ہم مشرقی پاکستان کھو کر بھی کچھ نہ سیکھ پائے۔پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے، صاف اور شفاف انتخابات 1970 کے مانے جاتے
ہیں جس پر کسی بھی سیاسی پارٹی کی طرف سے کوئی دھاندلی کی شکایت درج نہیں ہوئی ۔اسُ وقت کا مغربی اور مشرقی پاکستان پر مشتمل قومی اسمبلی کا ایوان 313 نشستوں پر مشتمل تھا۔جس
میں 169 نشستیں مشرقی پاکستان کی اور 144 نشستیں مغربی پاکستان کی تھیں،13 مخصوص نشستیں خواتین کی تھیں جس میں 7 مشرقی پاکستان کی اور 6 نشستیں مغربی پاکستان کی تھیں۔ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے 169 مشرقی پاکستان کی نشستوں میں سے 161 پر جیت کر مشرقی پاکستان میں تما م سیاسی پارٹیوں کا صفایا کر دیا تھا۔ ادھرِ مغربی پاکستان میں 144 میں سے ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی نے 81 نشستیں حاصل کی تھیں جبکہ مسلم لیگ کے دھڑوں، مذہبی اور دوسری جماعتوں اور آزاد امیدواروں نے ملی جلی باقی ماندہ نشستیں مغربی پاکستان سے حاصل کی تھیں۔ صاف اور شفاف انتخابات کے بعد اس کے نتیجہ کو بھی شفاف اور دیانتداری سے قبول کرنا چائیے تھا اور ایوان میں جمہوری تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے حکومت تشکیل دی جانی چائیے تھی مگر ایسا نہیں ہوا کیونکہ صاف اور شفاف انتخابات کے بعد ذوالفقار علی بھٹو جن کے پاس پاکستان پیپلز پارٹی کی صرف 81 نشستیں تھیں کی د ہٹ دھرمی اور ہر قیمت پرپاکستان کا اقتدار حاصل کرنے کا جنون نے نہ صرف جمہوریت کے اصولوں کو پامال کیا بلکہ پاکستان کا نقشہ بدل گیا۔ شیخ مجیب الرحمن اور ان کی عوامی لیگ کو اقتدار نہ دینے کی ہٹ دھرمی نے17 دسمبر1971 کو دنیا کے نقشہ پر ایک نئے ملک کو جنم دیا ۔ مشرقی پاکستان کے عوام نے فیصلہ کرلیا تھا کہہ انہوں نے اس غیر منصفانہ اور متعصبانہ نظام کے ساتھ پاکستان کا حصہ نہیں بننا جس کی اپنی ایک تاریخ ہے بارحال ادھرِ ہم اور ادھرُ تم کا نعرہ لگانے والے ذوالفقار علی بھٹو کا خواب تو پورا ہوا مگر پاکستان کا ایک بڑا حصہ اس سے سے جدا ہوگیا۔ 20 دسمبر 1971 کو بحیثیت صدرِ پاکستان اور پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے پہلے سولین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے ذوالفقار علی بھٹو نے آدھے پاکستان کا اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا۔ پھر تقریباٌ چار ماہ بعد 14 اپریل 1972 کو پہلے ایوان کا سیشن بلایا گیا اور 17 اپریل 1972 کو ایک عبوری آئین کے تحت صدارتی نظام پر مبنی ایک عبوری حکومت تشکیل دی گئی ا ور پاکستان پر ایک آمر کی حیثیت سے14 اگست 1973 تک اپنا اقتدار جاری رکھا۔جس کے بعد دوسری پارٹیوں کو مجبور کیا کہہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کو اقتدار اور ذوالفقار علی بھٹو کو وزیر آعظم تسلیم کریں کیونکہ 1970 کے الیکشن میں 300 کے ایوان میں سے صرف 81 نشستیں حاصل کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو کے پاس اب 1973 کے پاکستانی ایوان میں اکثریت پیپلز پارٹی کی اکثریت تھی۔یہ ہے ہمار ی تاریخ کا وہ سیاہ باب کہ جس کو نہ ہم کوئی اہمیت دیتے ہیں نہ ہی اسِ سیاہ بات پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ لحاظہ جمہوریت ایک مکمل نظام ہے جس کی کامیابی کے لئے اسِ نظام کی مکمل تشکیل لازمی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں آج یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ جمہوریت اور عوام کی آزادی کے الم بردار تھے مگر ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ اقتدار کا غیر جانبدار ی سے حقیقت پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہہ پاکستان کے میڈیا پر سب سے پہلے اور سب سے زیادہ شب خون ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں مارا گیا۔ سندھ کی شہری اور دھی بنیادوں پرتقسیم کی گئی، بلوچوں کے خلاف آپریشن کیا گیا۔ بڑے بڑے سیاستدانوں پر کیس داخل کرکے جیلوں میں ڈالا گیا۔پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی انتخابات میں دھاندلی ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں 1977 کے انتخابات میں ہوئی۔مگر کیا کیا جائے پاکستان میں پچھلے چالیس سالوں سے الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے بعد اگر جنرل ضیا ء الحق مرحوم کی آمرانہ دورِ اقتدار کا تاریخی مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہہ جنرل ضیا ء الحق کے سب سے لاڈلے جناب نواز شریف صاحب تھے جن کی
سیاست کا آغاز ضیا الحق کے دور سے ہوا۔ ضیاء الحق کی جہاز کے حادثہ میں پراسرار ہلاکت جس کے ذمہ داروں کا آج تک پتہ نہیں چلایا گیا، کے بعد نواز شریف صاحب نے ضیا ء الحق کی قبر پر یہ
قسم کھائی کہہ وہ ضیا ء الحق کے مشن کو پورا کریں گے۔ مگر انہوں نے ضیاء الحق کی مسلم لیگ چھوڑ کر اپنی مسلم تشکیل دی۔آج نواز شریف صاحب دعوے کرتے ہیں کہہ دو مرتبہ ماضی میں ان
کی حکومت کوصرف دو ڈھائی سال چلنے دیا گیا تو بھائی خام و خواہ میں کون کسِ کی حکومت ختم کر تا ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو حقائق بتاتے ہیں کہ نواز شریف کے اقتدار کا خاتمہ ان کی حکومت کی کئی شعبوں میں نا کامیوں کی بناء پر ہوا۔یہ بالکل اسی طرح ہے کہہ اگر پچھلی حکومت کو پانچ سال مکمل ہونے سے پہلے ہی ختم کر دیا جاتا تو شاید اتنی معیشت اور ملک کا خزانہ برباد نہ ہوتا اور اتنا پاکستانی روپہ کی قیمت نہیں گرتی جتنی کہ پانچ سال مکمل ہونے کی وجہ سے ہوئی۔مگر اسِ نظام کو جسے آج جمہوریت کہا جارہا ہے پانچ سال صرف اسِ لئے رکھا گیا کہہ یہ سیاسی مداری اسِ لوٹ مار کے نظام کو جاری رکھ سکیں اور ایک کے بعد ایک اپنی باری لے سکیں، ملک میں کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کئے گئے، دہشتگردی اور ہلاکتوں کے عالمی ریکارڈ قائم کئے گئے اور آج بھی کئے جا رہے ہیں۔ واہ ریِ جمہوریت
1990
کی دھائی میں بے نظیر صاحبہ نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی پارٹی میں ان ہی لوگوں کوترجیح دی جنہوں نے ملک کی دولٹ کو لوٹا۔ بے نظیر کے دورِ اقتدار کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے ان کے شوہر اور آج کے صدر آصف علی زرداری ہیں جنہوں نے ملک سے باہر کتنی دولت جمع کی کسی کو پتہ نہیں۔ پھر اسی دولت کے بل بوتے پر اپنی سیاست چمکائی۔ کیا آج یہ باتین عیاں نہیں ہو رہی کہہ بے نظیر صاحبہ نے پرویز مشرف کے ساتھ دوبئی میں محاہدہ کیا کہ اگر وہ وزیر اعظم بن گئیں تو جنرل پرویز مشرف کو صدر تسلیم کرلیں گی۔ کیا پرویز مشرف کے ساتھ این آر او سائن نہیں کیا گیا۔ آج ہم کسِ جمہوریت اور کنِ جمہوریت کے الم برداروں اور شہیدوں کی باتیں کرتے ہیں۔واہ ری جمہوریت!!
اگر صوبہ سندھ کی طرف نظر ڈالیں تو سندھ کی دوسری بڑی سیاسی جماعت متحدہ قومی مومنٹ کا وجود سندھ میں ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں سندھ کے اردو اور سندھی بولنے والے
سندھیوں کی سندھ شہری اور سندھ دہی کی بنیاد پر تقسیم سے ہونی والی سلسلہ وار نا انصافیوں اور تعصبات کی وجہ سے عمل میں آیا۔کراچی، حیدرآباد اور سکھر کو سندھ شہری اور باقی کو سندھ دہی میں شامل کیا گیا۔ سندھ میں کوٹہ سسٹم سے تعلیمی اداروں میں میرٹ کو دفن کرکے شہری اور دہی کی بنیاد پر داخلہ دئیے گئے اور ایک غیر منصفانہ نظام قائم کیا گیا۔جس سے کراچی، حیدرآباد اور سکھر شہروں کے اعلی نمبروں سے پاس ہونے والے طلباء پر فیشنلز کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے سے محروم کر دیئے گئے اور دوسری طرف دہی علاقوں کو مراعات دینے کے نام پر دہی علاقوں کے کم نمبر حاصل کرنے والے طلباء کو آسانی سے پروفیشنلز کالجوں میں داخلہ دے دیا گیا۔ جس سے سندھ کے دہی علاقوں میں تعلیم کا معیار بڑھنے کی بجائے مزید گرِ گیا اور انتہا پسند اور قوم پرست طلباء کی تعداد اعلی تعلیمی اداروں میں بڑھنے لگی۔ سندھ کی قوم پرستی کے نام پر اپنی سیاست چمکانے والے آج کے دور کے یہ قادر مگسی، ذوالفقار مرزا ، ایاز پلیجو جیسے لیڈر اسیِ کوٹہ سسٹم کی پیداور ہیں۔ خیر الطاف حسین نے اس نظام کے خلاف آل پاکستان مہاجر اسٹوڈینٹس فیڈریشن قائم کی ا ور کراچی کے اردو بولنے والے طلبا ء کواپنی جانب راغب کیا۔ مسائل کا شکار اردو بولنے والے الطاف حسین کے نعرہ کے پیچھے چل دیئے اور پھر مہاجر طلباء تنظیم مہاجر قومی مومنٹ میں تبدیل کر دی گئی۔ اسُ وقت کے آمر جنرل ضیاء الحق جس کا ایجنڈا پاکستان پیپلز پارٹی کے سامنے سندھ میں ایک مضبوط تنظیم کھڑی کرنا تھی موقع سے فائدہ اٹھا کر الطاف حسین کے سر پر ہاتھ رکھا اور مہاجر قومی مومنٹ کو پوری طرح سے سندھ کے شہری علاقوں میں مشہور ہونے کے موقع فراہم کئے گئے۔ اسِ تحریک یا جماعت نے سندھ کے اردو بولنے والوں کو مہاجر کا نعرہ دیدیا۔ کراچی اور حیدرآباد کی گلیوں میں مہاجر ہماری شناخت کی وال چاکنگ کی گئی۔ مگر آج تک نہ تو سندھ سے کوٹہ سسٹم ختم ہوا اور نا ہی سندھ سے تعصب کی فضا کم ہوئی بلکہ سلسلہ وار سندھ میں زبان کے نام پر تقسیم پر تعصب کی فضا میں اضافہ ہوا۔ پھر مہاجر قومی مومنٹ کو متحدہ قومی مومنٹ کا نام دیکر پورے پاکستان کے مظلوموں کی بات کی گئی ۔ کیا متحدہ قومی مومنٹ کی تشکیل سے سندھ میں جمہوریت کو کوئی فروغ ملا۔ کیا سندھ سے کوٹہ سسٹم جیسی لعنت ختم ہوگئی ۔ یہ سب آج بہت اہم اور دردناک سوالات ہیں؟ جن کا جواب کون دیگا؟پھر وہی پیپلز پارٹی جس کی متعصبانہ پالیسیوں کی وجہ سے مہاجر قومی مومنٹ وجود میں آئی تھی کے ساتھ پچھلے پانچ سالہ دور میں متحدہ قومی مومنٹ حکومت میں رہی ہے، صرف اسِ لئے کہہ اسِ کو پاکستان میں جمہوریت کو بچانا تھا؟ واہ ری جمہوریت
جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر ایک مرتبہ پھر پاکستان پر فوجی حکومت مسلحط کر دی۔ مگر پھر انہی سیاسی جماعتوں میں سے کچھ جماعتوں نے دوسری جماعتوں سے انتقام لینے کی خاطر یا اقتدار کا حصہ بننے کی خاطرجنرل پرویز مشرف کے اقتدار کو لبیک کہا اور نواز شریف کی مسلم لیگ کی گود سے ایک اور مسلم لیگ (ق) کو جنم دیا گیا۔ یوں ایک فوجی حکومت کی گود سے ایک مرتبہ پھر ایک نام نہاد جمہوری حکومت کی تشکیل پائی۔ مگر کیا اسِ تشکیل میں وہی سیاسی مداری نہیں تھے جو آج ایک مرتبہ پھر قوم کو بے وقوف بناکر ایوانوں میں بیٹھنا چاہتے ہیں۔ واہ ری جمہوریت
کیاایسے معاشرہ میں جمہوریت فروغ پا سکتی ہے جہاں سیاسی جماعتیں خو د سیاسی موروثیت کو پروان چڑھاتی ہوں۔ جہاں سیاسی جماعتیں خود فوجی جنرلینوں کے پاس حکومت گرانے کے اپیلیں
لیکر جاتی ہوں۔ جہاں سیاسی جماعتیں خود لوگوں کو منظم کرنے کی بجائے مذہب، فرقہ ، زبان اور صوبائیت پر تقسیم کر تی ہو۔ کیا یہ جمہوریت کے اصول ہیں جہاں سیاسی جماعتیں سیاسی شخصیات کے نام سے پہنچانی جاتی ہوں۔ مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق)، مسلم لیگ (ضیا) وغیرہ وغیرہ۔ کیا یہ سیاسی پارٹیاں کسی نہ کسی دور میں آمرانہ نظام اور فوجی حکومتوں کے ساتھ نہیں ر ہیں؟ کیا یہی جمہوریت ہے جہاں سیاسی جماعتوں کے قائد تا حیات صدر یا چئیر پرسن بن کر کرسی پر جمے رہیں اور انکے بعد انکے بیٹے، بیٹیاںیاپھر بھائی، بہن اور عزیز و اقارب۔ واہ ریِ جمہوریت!!! یہ سیاسی جماعتیں نہیں بلکہ در اصل پرائیوٹ لمیٹیڈ کمپنیاں ہیں۔جن کا کاروبار سیاست اور جن کے گاہک مجبور اور لاچار عوام ہیں۔
آج کل ایک طرف انتخابات کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں اور دوسری جانب ملک کے چار میں سے تین صوبوں میں خون ریزی اور دہشتگردی کا بازار گرم ہے۔ کیا ایسے ہی ماحول میں جمہوریت پنپتی ہے کیا یہ انتخابات کے لئے سازگار ماحول ہے۔ انِ سیاسی کمپنیوں کے لئے تو ہر وہ ماحول سازگار ہے جس میں انِ کے ذاتی مفادات کی تکمیل ہو رہی ہو۔
کیونکہ ان کا حدف تو صرف ایوانوں میں بیٹھ کر سرکاری پیسہ پر مزے لوٹنا ہے۔ ملک اور قوم کا کیا ہو گا کسِ کو فکر ۔ واہ ریِ جمہوریت
اللہ نہ کرے 1971 جیسے حالات الیکشن کے بعد دوبارہ پیدا ہوں۔ ان انتخابات کے اعلان سے پہلے اور الیکشن کیمشن کی تشکیل سے پہلے بہت واویلا کے با وجود اور بہت سارے دعوؤں اور وعدوں کے باوجود تمام ٹیکس چوروں، قرضہ خوروں، قوم کی دولت لوٹنے والوں کو ایک حکمت عملی کے ذریعہ پاک صاف، صادق اور امین قرار دیکر انتخابات میں حصہ لینے کا اہل قرار دے دیا گیا ۔ یہ سیاسی کمپنیوں کے اسِ وقت کروڑوں روپے کے اشتہارات روزانہ پاکستان کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں چل رہے ہیں۔ سیاسی قائدین ذاتی یا کرائے کے جہازوں اور ہیلی کاپٹروں میں الیکشن مہم پر جا رہے ہیں؟ کیا یہ الیکشن کیمشن اور چیف جسٹس آف پاکستان کو نظر نہیں آرہا؟ آج اسِ الیکشن کمیشن اور عدالتوں نے الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کو قوم کو ایک مرتبہ پھر بے وقوف بنانے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔عام آدمی کو پچھلی پانچ سالہ جمہوریت نے کسی حال نہیں چھوڑا ہے۔ اب ایک مرتبہ پھر جلسوں میں مفت بریانی اور کباب پراٹھوں کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ اور لگ یوں رہا ہے کہ بھوک و افلاس سے بے حال عام آدمی ایک مرتبہ پھر ان جلسوں میں مفت میں بریانی اور کباب پراٹھہ کے بدلے انہی سیاسی مداریوں کو ووٹ ڈال دے۔ واہ ریِ جمہوریت
دوسری جانب پاکستانی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی بھی چاندی ہے۔ کروڑوں روپے کے اشتہارات ملِ رہے ہیں۔مگر پاکستانی میڈیا کو بھی سوچنا چائیے کہ اگر ان گمراہ کن اشتہارات سے مرعوب ہوکر پاکستان کی سادہ عوام نے انہیں چور اچکوں کو ووٹ دیدئیے اور وہی فراڈی، جھوٹے اور مکار لوگ ایوانوں میں واپس آگئے اور پاکستان کواللہ نہ کرے کچھ ہوا تو اس میں ذمہ داری میڈیا کی بھی ہوگی۔
آج ایک بہت بڑا سوال میرے لئے 11 مئی کا الیکشن نہیں بلکہ 11 مئی کے بعد کیا ہوگا وہ حالات ہیں ۔ اگر پاکستانی قوم نے اسِ الیکشن میں بھی اپنے ووٹ کی قیمت ایک مرتبہ پھرویسے ہی لگا دی
جیسے ماضی میں لگاتی آئی ہے اور وہی پرانے چودھری، جاگیردار، سردار اور قائد کے نام پر اپنا ووٹ استعمال کر دیا تو اللہ نہ کرے اسِ پاکستان کا مستقبل کیا ہو؟
لحاظہ آج پاکستان کی اٹھارہ کروڑ عوام ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے کیا اسِ قوم نے اس گلے سڑے نظام سے جان چھڑانی ہے جس کو یہ جمہوریت سمجھتے ہیں یا پھر ایک خود دار قوم کی طرح سچے محب وطن لوگوں کو آگے لانا ہے۔
سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیاء
1 Comment
Comments are closed.