نام پاکستان کا کام اپنی ذات کا؛ عوام خاموش قائد مکار

:بقلم سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا

آج پاکستان کا یہ حال ہے کہ چاہے کتنا ہی بڑا ہولناک حادثہ کیوں نہ ہوجائے، چاہے پانی، بجلی، گیس ملک  میں  ناپید ہی کیوں نہ ہوجائے، چاہے کتنا ہی بڑا عالم، دانشور یا استاد قتل کر دیا جائے عوام بس خاموش بتوں کی طرح ہر چیز برداشت کرتے جائیں گے، اور اگر کہیں یہ پتہ چل جائے کہ فلاں جماعت یا لیڈر کا جلسہ ہونے والاہے اور وہاں کھانے پینے کوبھی کچھ ملے گا تو اسُ جلسہ میں بغیر وقت ضائع کئے پہنچ جائیں گے اور پھر انُ مکاروں اور مداریوں کی ایسی ایسی فریبی باتوں پر جھنڈے اور نعرہ لگاتے رہیں گے جیسے کہ اسِ سے اچھا شغل انِ کی زندگی میں اور کوئی نہیں ہے۔

پچھلے ۲۴ گھنٹے کی شہ سرخیوں کو  ہی لے لیجئے ، پاکستانی ٹی وی میڈیا پر خبر گردشِ کر رہی ہے کہ دوُ بڑے قائدین نے طویل عرصہ کے بعد بات چیت کی اور طے کیا پاکستان اور سندھ کی بہتری کے لئے متحدہ قومی مومنٹ اور پاکستان پیپلز پارٹی مل کر چلیں گے اور عوام کی خدمت کریں گے! تو اب تک یہ قائدین اور انِ کی جماعتیں کیا کررہی تھیں؟ کیا اسِ سے پہلے یہ ملِ کر نہیں چل رہے تھے؟ آج تک سمجھ میں نہیں آیا کہ رحمان ملکِ  اور عشرت العباد کا کردار کیا ہے؟ کیا یہ دونوں آصف علی زرداری اور الطاف حسین کے ایجنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں بالکل اسیِ طرح جس طرح کے کسی بھی کمپنی کے بروکر کام کرتے ہیں ؟ رحمان ملک نے کہا ہے کہ آصف علی زرداری اور الطاف حسین میں ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے! یہ آج کی پاکستان کی سب سے بڑی خبر ہے؟ کیوں کہ انِ دونوں لیڈران جن میں سے ایک لندن میں ہے اور دوسر۱ پتہ نہیں اسِ وقت لاہور، کراچی یا دوبئی میں، کے بات چیت کرنے سے سندھ اور پاکستان کے تمام معاشی ، معاشرتی،تعلیمی، روزگاری معاملات حل ہو جانے ہیں! سندھ کے عوام کی خوشحالی کی ضمانت ہی آصف علی زرداری اور الطاف حسین کی بات چیت ہے؟ اب سندھ میں بہار کا موسم ہوگا، سندھ میں ہر زبان بولنے والے کو کسی بھی تعلیمی ادارے میں داخلہ ملِ سکے گا، اب سندھ سے کوٹہ سسٹم ختم ہو جائے گا، اب سندھ میں ہر ایک کو نوکری ملی گی، اب سندھ میں کوئی کسی کی ٹارگیٹ کلنگ نہیں کرے گا اور ہاں سب سے اہم بات کہ اب سندھ کے آنے والے سینٹ کے الیکشن میں ایک مرتبہ پھر روایت کو برقرار رکھتے ہوئے  پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا ہی راج ہوگا۔ میرا ذہن یہ کہتا ہے کہ جو قوم چوروں، مکاروں، فریبیوں پر ایمان لے آتی ہے اور  جھوٹ، نا انصافیوں، ظلم پر خاموش رہتی ہے اسُ قوم پر اللہ تعالی جھوٹے، مکار اور ظالم حکمران ہی مسلحط کر دیتا ہے اور یہی کچھ پاکستان اور پاکستان کے صوبوں اور شہروں میں ہو رہا ہے۔ آج اپنے آپ کو قائد کہلانے والوں انِ چند مداریوں کے پاس نا تو قوم و فعل کا کوئی پاس ہے، نا کوئی سیاسی اصول ہے، نا کوئی  وعدہ کا پاس ہے اور نا ہی اپنے ہی کئے ہوئے ماضی کے بیانات کا پاس ہے۔ سندھ اسِ وقت معاشرتی، تعلیمی بلکہ ہر شعبہ زندگی میں بدحالی کا شکار ہے، سندھ کی ایک پوری  نسل  نے ظلم، بربریت، خوف، اور ظلم کے سوا کچھ نہیں دیکھا ، دو جماعتوں  اور ان کے قائدین نے اسِ طرح سے عوام کو قید کر لیا ہے کہ ان کے ذہن خوف اور لاچارگی کا شکار ہیں ۔  سندھ  میں جاری انِ دو جماعتوں کا فارمولا بالکل واضح کہ آپس میں ایسے تعلقات رکھو کہ ایک دوسرے کے حریف بھی خود اور حلیف بھی خود، جیسی وقت کی ضرورت ہو اسی طرح کی پوزیشن سنبھال لو۔ کبھی اقتدار میں شراکت اور کبھی بغاوت، کبھی دوستی اور کبھی دشمنی  کی نمائش، تاکہ کوئی تیسری سیاسی قوت سندھ کی حکمرانی میں حصہ دار نہ بن جائے۔ اور سلسلہ اسی طرح کا دوسرے صوبوں میں بھی ہے، ایک صوبے پر ایک پارٹی قابض ہے تو دوسرے میں دوسری؟ کیا اسیِ لئے ہندوستان لاکھوں لوگوں نےقربانیاں دیکر اسِ  ملک کی تخلیق  کی تھی؟

میں نے اپنے بزرگوں سے سنا تھا کہ  ہندوستان میں پاکستان کی تحریک کے  دوران نوجوان گلی ،محلوں  ، جلسے اور جلسوں میں نعرے لگاتے پھرتے تھے پاکستان کا مطلب کیا، ’ لَا اِلَہ اِلَااللہ ‘ ،   پھر اسِ نعرے کی گونج پورے ہندوستان کے مسلمانوں کی آواز بن گئی ، بالاآخر اسِ نعرے اور اسِ  کے پیچھے اسلامی فکر و سوچ اور امت مسلمہ کے فلسفہ کی بنیاد پر  لاکھوں مسلمانوں نے عظیم قربانیاں دیکر پاکستان کے خواب کو حقیقت کا روپ دیا اور پاکستان دنیا کے نقشہ پر پہلی ریاست وجود میں آئی جس کی بنیاد اسلام  کے بنیادی  معاشرتی اصولوں بالخصوص  مساوات، انسانی حقوق ، عدل و انصاف اور جیو اور جینے دو کی بنیاد تھی۔ ورنہ تو مسلمان سینکڑوں سالوں سے ہندوستا ن میں آباد تھے اور کئی صدیوں تک حکمرانی بھی کرتے رہے تھے۔

 پاکستان کا مطلب کیا، ’ لَا اِلَہ اِلَااللہ ‘ اسِ نعرے کی گونج  تو آج  بھی پاکستان میں  سنائی دیتی ہے ، لوگ آج بھی سیاسی و مذہبی جلسے جلسوں میں یہ نعرہ  لگاتے اور اس نعرے کے جھنڈے لہراتے نظر آتے ہیں آج اسِ نعرہ اور اسکے پیچھے اسلامی فکر و سوچ کی پامالی کی جاتی ہے، آج پاکستان کی عوام یہ نعرہ لگا کر اسِ نعرہ کی توہین  کے مرتکب اسِ لئے ہوتے ہیں  کیونکہ جو قائدین اور انکی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے مقاصد کی خاطر یہ نعرہ لگایا جاتا ہے انہوں نے قیام پاکستان سے آج تک اسِ نعرہ  کوصرف اور صرف اپنے مذوموم مقاصد کے لئے بیچا ہے۔

کیا آج پاکستان میں کوئی ایساعمل اور نظام باقی رہ گیا ہے جو اسِلامی فکر و سوچ کی عکاسی کرتا ہو۔ قصور انِ نام نہاد مذہبی و سیاسی جماعتوں کے قائدین کا نہیں ہے قصور اٹھارہ کروڑ عوام کا ہے جو سب کچھ دیکھنے اور سمجھنے کے باوجود اپنے آپ کو ان مذہبی و سیاسی جماعتوں کے پیچھے اپنے آپ کو مختلف گرہوں اور فرقوں میں تقسیم کئے بیٹھے ہیں۔

آج اگر پاکستان میں اسلام کی بات کریں کہ جس کے نعرہ کے  تلے  پاکستان کی تحریک چلائی گئی تو نظر آتا ہے کہ پاکستان میں اسلام اور اسکے نعرہ کو ہر وہ کچھ کرنے اور حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے جس کی اسلام نفی کرتا ہے ۔ فرقہ کے نام پر لوگوں کو گروہوں میں تقسیم کرکے اسلام کو پاکستان کا قلعہ بنانے کی باتیں کی گئیں۔سنی، شیعہ، وہابی وغیرہ وغیرہ کے نام پر مسلمانوں کو تقسیم کیا گیا۔ اسلام میں کسی فرقہ بازی اور گروہ بندی کی گنجائش نہیں مگر پاکستان کی ہر مذہبی جماعت  نےقیام پاکستان سے آج تک فرقہ  بازی اور گروہ بندی کو پروان چڑھایا ہے، اپنی جگہ مستحکم کرنے کے لئے اور اپنی لیڈری چمکانے کے لئے اَن پڑھ لوگوں کو اُن کی ذہنی پسماندگی سے فائدہ اٹھا کر  اپنے پیچھے لگا  کر رکھااور انکو یہ درس دیا کہ انُ کی ذات پر بیت کرنے اور ان کی جماعت  کو پکڑ کر رکھنے  کا نام ہی اسلام اور اسلام کی خدمت ہے، باقی سب منکر ہیں بس یہ اور انِ کی جماعت ہی مومنِ ہیں۔نہ  تو انِ اسلام کے ٹھیکے داروں نے غریب اور مسکین لوگوں کو اچھی تعلیم حاصل کرنے دی اور نا ہی اُن کو اسلام  کا اصل چہرہ  دکھایا۔اگر یہ مذہب کے ٹھیکے دار پاکستان میں فرقہ بازی اور گروہ بندی سے نکل کر اسلام کی صحح تعلیم دیتے  اور پاکستانیوں کو ایک سچا مسلمان بناتے تو یہ جو آج پاکستان دنیا میں دہشتگردوں کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے اور پورا ملک دہشتگرد وں کے رحم و کرم  پر ہے نا ہوتا۔

دوسری جانب رہی سہی کمی نام نہاد سیاستدانوں نے پوری کردی ہے۔ ان ِ سیاسی بازی گروں کا کردار اور عمل ایک سچے سیاستدان اور قومی  رہنما کے علاہ سب کچھ ہے۔قیام پاکستان کے بعد جن قائدین نے پاکستان بنایا اور جو پاکستان میں  پاکستان کے قیام کے  مقاصد  کی تکمیل چاہتے تھے انُ کو میدان چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔ آج اگر پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں اور  اوپر سے نیچے تک انکے   سیاسی قائدین کو دیکھیں ، ان کے ذاتی پس منظر میں جھانکیں، اِن کی کارکردگی کا پوسٹ مارٹم کریں توصرف اور صرف دھوکہ بازی، وعدہ خلافی، نا اہلی، بدعنوانی اور بیان بازی نظر آتی ہے۔ سیاست اور سیاسی جماعت انِ کا کاروبار ہے جس میں انہوں نے دنِ دگنی رات چوگنی ترقی کی ہے۔ ان کے ذاتی   کاروبار،  دولت  اور بیرونِ ملک سرمایہ کاری  عظیم کارنامہ نظر آتے ہیں،  یہ سیاستدان نہیں جھوٹ کے کاروباری ہیں یہ لوگوں کو صرف اور صرف خواب بیچتے ہیں۔  اِنہوں نے اپنے کاروبار بیرونِ دنیا پھیلائے  مگر اپنے پیروکاروں کو کوئی بھی کاروبار کرنے کے لائق نہیں  چھوڑا، انہوں نے ملک کے خزانے کو خالی کیا اور اپنے ذاتی اثاثوں کو دنیا میں پھیلایا۔انِ سیاسی مداریوں نے اپنے پیروکاروں  کو ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کے لائق بھی نہیں رکھا اور خود  مغربی ممالک کی شہریتیں حاصل کرکے عیش و آرام کی زندگی  بسر کر رہے ہیں ۔ انِ سیاسی پنڈتوں نے پاکستانی عوام کو ذہنی  طور پرمفلوج  کر دیا  ہے۔ عام آدمی پر غربت ، بھوک و افلاس اسِ قدر طاری کردی  ہے اور یہ درجنوں گاڑیوں کے قافلوں میں سفر کرتے ہیں، درجنوں کھانوں کی میز پر کھانا نوش فرماتے ہیں اور محل نما گھروں میں عیاشیاں کرتے ہیں۔

یہ اپنے جلسوں میں  عوام کے سامنے انہیں مسائل  کا رونا روتے ہیں جو انِ کی دئیے ہوئے ہیں۔ آج تک انہوں نے عوام کا مسلہ کا حل نہیں دیا بلکہ صرف اور صرف مسائل  کی نشان دہی کی ہے اور اسُ کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرایا ہے۔

 پشاور کے حادثہ کو  ہفتوں گئے ہیں۔ اسِ بدترین واقعہ کے  بعد کیا کیا باتیں کی گئیں، کیسے کیسے دعوی کئے گئے مگر  کیا اسِ ہولناک  واقعہ کے بعد انِ سیاسی مداریوں کے عمل  میں کوئی تبدیلی نظر آئی۔ یہ پاکستان میں ہونے والے ہر ہولناک واقعہ کو اپنے مفاد میں کیش کرنا خوب اچھی طرح جانتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ پشاور کے دہشتگردی کے واقعہ کے بعد  اب دہشتگردوں کا  دائیرہ  اندورنِ سندھ تک پھیل گیا ہے۔بر سرِ اقتدار جماعت کے کسی لیڈر میں اتنی غیرت نہیں کہ وہ عوام کے سامنے آکر یہ کہ سکے کہ ہم دہشتگردی کو روکنے میں ناکام ہوئے ہیں جس پر عوام سے معافی کے طلبگار ہیں۔ بلکہ قائد حزبِ اختلاف خورشید شاہ کہتے ہیں کہ حادثوں کے ہوجانے پر حکومتیں نہیں بدلتیں۔ اگر انِ کو شرم ہو تو مذہب  دنیا میں کے نظام میں جھانکیں ایک چھوٹے سے حادثہ کے ہونے پر ناصرف حکمران اپنی کرسی چھوڑ دیتے ہیں بلکہ سیاست سے دستبردار ہوجاتےہیں۔

اس وقت پاکستان میں جن سیاسی جماعتوں کا سیاست پر قبضہ ہے اُن  میں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نواز شریف گروپ، پاکستان تحریک انصاف اور متحدہ قومی مومنٹ شامل ہیں۔ انِ چاروں بڑی جماعتوں کی کارکردگی پچھلے بیس یا تیس سالوں میں کیا رہی ہے۔ کیا ان  ِ میں سے کوئی بھی جماعت یہ دعوی  کر سکتی  ہے کہ وہ پورے پاکستان  کی  عوام کی  نمائندہ جماعت  ہے؟  ایک جماعت ایک صوبے میں یا صوبے کے ایک حصہ میں قابض  تو دوسری  جماعت دوسرے علاقے میں ۔ اور پھر ان   جماعتوں کی  ایک مخصوص صوبے یا علاقے میں مقبولیت یا مینڈیٹ کی وجہ وہاں کی عوام کی خدمت  نہیں بلکہ وجہ مقبولیت زبان، برادری، علاقہ، اور علاقائی جاگیرداری  ہے؟ پاکستان کے عوام کوزبان، علاقہ اور ذات برادری  کے نام پر تقسیم کرکے انِ جماعتوں نے  اپنی اپنی سیاسی  سرحدیں قائم کر لی ہیں۔ پھر  یہ نا صرف عوام کو بلیک میل کرتے ہیں بلکہ اِنہیں سرحدوں کی  بنیاد  پر ایک دوسرے کو بھی بلیک میل کرتے ہیں۔یہ  بات کرتے ہیں پاکستان کی، اسلام کی، ایک قوم کی وغیرہ وغیرہ مگر خود عوام کو تقسیم کرکے رکھتے ہیں تاکہ یہ اپنے ایجنڈے کو عوام میں بیچ سکیں ۔ اور دوسری جماعتوں کا حال تو انِ سے بھی  بدتر  ہے، مگر انِ چار بڑی جماعتوں کی ہی بات کی جائےتو حقائق یہ ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کو دوسری جماعتوں کے مقابلے میں اتنا زیادہ عرصہ نہیں  گزرا،  مگر عمران خان نے بہت تھوڑے عرصہ میں اپنی ذاتی کشش کی وجہ سے  شہری اور پڑھے لکھے طبقہ بالخصوص نوجوانوں میں مقبولیت حاصل کرلی ، لگنے یوں لگا کہ کہ شاید عمران خان  ہی و ہ سیاسی مسیحا ہے جو بھِکری ہوئی پاکستانی عوام  کو ایک قوم بنا دےگا، پاکستان کو مختلف قسم کے بھورانوں سے نکال باہر کریگا۔ لحاظہ ایک بڑا طبقہ عمران  خان کے پیچھے ہو لیا۔ کئی مہینوں تک عمران خان کی مقبولیت کا گراف دوسرے تمام سیاسی بازیگروں سے آگے نکل گیا۔ عمران خان نے اسلام آباد  میں دھرنے دینے کا اعلان کیا، نواز شریف کی بر طرفی اور انتخابات میں دھاندلی کو تسلیم کرنا انُ دھرنوں کا مقصد بنایا۔ اسلام آباد اور پنجاب کے لوگوں نے عمران خان کی آواز پر لبیک کہا اور پھر آہستہ آہستہ دوسرے صوبوں کی ہمدردیاں  بھی عمران خان کے ساتھ ہوتی نظر آئیں۔ بر سرِ اقتدار نواز شریف  اوران کی جماعت کو  اپنے اقتدار کی کشتی ڈوبتی نظر آنے لگی ۔ پھر یکایک پشاور کے اسکول میں دہشتگردی کا ہولناک واقعہ ہو ا۔ عمران خان نے یکایک اپنے دھرنے کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ عمران خان کے اعلان سے یہ نظر آرہا تھا کہ عمران خان کو دھرنہ ختم کرنے کے لئے  کوئی مناسب  جواز چائیے تھا وہ مل گیا۔ پھر عمران خان  ایک ایک کرکے اُن  تمام مطالبات سے بھی دستبردار ہوتے گئے  جن کے بارے میں وہ  کہتے تھے کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے وہ انُ میں سے نہیں ہیں جو اپنے مطالبات پرسودہ بازی کرکے خاموش  ہوجائیں، پھر  خاموشی میں سے ایک دھماکہ دار خبر سنائی دی کہ عمران خان نے ریحام خان کے ساتھ شادی کر لی  ہے یا کرنے جا رہے ہیں۔ سیاسی گہما گہمیاں اور مطالبات شادی کی ڈھولک اور گیتوں میں بدل گئے۔ آج عمران خان وہ عمران خان نظر نہیں آتے جس کے بارے میں وہ خود دعوی کرتے تھے۔

نواز شریف  اینڈ فیملی  کم و بیش تین دھائیوں سے پنجاب اور پاکستان کی سیاست میں پیش پیش  ہے، فوجی آمروں  کی گود میں پلنے والے نواز شریف نے آج دنیا میں اربوں ڈالرز کے اثاثے بنا لئے ہیں جو سب پر عیاں ہیں۔ پنجاب میں ان کی جماعت اور پارٹی  کے  لوگوں کی بد معاشی عام ہے۔ یہ اپنے آپ کو سیاسی و  جمہوری  کہتے ہیں مگر ان کے عمل آمروں سے بھی بدتر ہیں۔بے شرمی کی حد یہ ہے کہ پاکستان میں ہر ادارہ تباہ ہو تا جا رہا ہے ، خزانے میں پیسہ نہیں ہے مگر ان کے بیانات دیکھیں ،کسِ دیدہ دلیری سےغلط بیانی کی جاتی  ہے کہ  دنیا میں اسِ کی مثال نہیں ملتی۔ دہشگردی کا یہ حال ہے کہ اس میں روز بروز خطرناک حد تک اضافہ ہو تا جا رہا ہے مگر نواز شریف یا شہباز شریف کے بیانات دیکھیں تو لگتا ہے کہ شاید یہ شخصیات  کسی اور ہی سیارے سے کل ہی زمین پر اترے ہیں! اور اب تو یہ حال ہے کہ اگر کسی دہشتگردی کے واقعہ میں دس سے پندرہ لوگ مارے گئے ہوں تو اسُ پر تو یہ بیان تک نہیں دیتے۔ پشاور میں دہشتگری کے واقعہ کے بعد نواز شریف کا بیان تھا کہ آئیندہ اسِ قسم کا کوئی واقعہ نہیں ہونے دیا جائے گا، تقریبا چھ ہفتہ بعد سندھ کے شہر شکار پور کی ایک امام بارگاہ میں دھماکہ  ہوااور اس میں ساٹھ سے زیادہ لو گ مارے گئے ِ اگر انِ میں غیرت ہوتی تو قوم سے کم سے کم اپنے سابقہ بیان پر معافی ہی مانگ لیتے ، مگر یہ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ ان کے نزدیک  عوام کی قیمت بھیڑ بکریوں سے زیادہ کچھ نہیں۔

اپنے آپ کو ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کہنے والی   پاکستان پیپلز پارٹی  کی اگر اصلیت دیکھی جائے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کسِ بنیاد پر پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کہلاتی ہے۔   افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بہت سارے پاکستان پیپلز پارٹی کے حریف اور سیاسی مبصرین بھی اسِ جماعت کو سب سے بڑی جماعت ہی گردانتے ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر آصف علی  زرداری تک زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کبھی بھی نہیں رہی۔ ۱۹۷۰ کے پاکستان کے سب سے بڑے انتخابات  کے نتائج کو اگر دیکھا جائے جب پاکستان ، مغربی  اور مشرقی پاکستان پر محیط تھا، اسُ وقت ایوان میں کل نشستیں ۳۰۰ تھیں جن میں سے شیخ مجیب الرحمن کی عوامی نیشنل پارٹی نے ۱۶۰ نشستیں حاصل کی تھیں اور پی پی پی نے ۸۱۔ آج اسِ پارٹی کا یہ حال ہے کہ یہ صرف سندھ کے دھی علاقوں کی جماعت بن کر رہ گئی ہے اور اسُ کی وجہ بھی یہ ہے کہ اسِ جماعت کی باگ دوڑ ہمیشہ سے سندھ کے بڑے بڑے وڈیروں  کے ہاتھ میں رہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا تعلق خود سندھ کے ایک بڑے وڈیرہ خاندان سے ہے۔ اسِ جماعت کے سر پر  پاکستان کو تقسیم کرنے اور پاکستان کے عوام کو تقسیم کرنے کاسہرہ جاتاہے۔ آج کونسی ایک ایسی چیز کا  پی پی پی  دعوی  کر سکتی ہے جس کا تعلق عام آدمی کی حالت بہتر بنانے سے ہو ، سوائے اسِ کے کہ اسِ جماعت کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے اقتدار کی خطر اور ملک کا وزیر اعظم بننے کی خاطر مشرقی پاکستان کو دائو پر لگا دیا۔ پاک فوج کو  بلیک میل کرنا اسِ جماعت کے قائدین کا حربہ رہا ہے۔   مشرقی پاکستان کو  بنگالی اور غیر بنگالی  کا  مسلہ کھڑا کرکے شیخ مجیب کو مجبور کیا کہ وہ علیحدگی کا نعرہ لگائے۔ سندھ میں سندھی اور غیر سندھی کا بیج بو کر مہاجر قومی مومنٹ کو جنم دینے کا شرف حاصل کیا۔ آج سندھ میں اگر تقسیم ہے تو اس کا سہرہ اسیِ پارٹی کی متعصبانہ سوچ کا نتیجہ ہے۔

اور اگر بات کریں مہاجر قومی مومنٹ یا متحدہ قومی مومنٹ کی ، تو  آج تک یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ الطاف حسین سندھ کے اردو بولنے والوں کی حقوق کی  تحریک چلا رہے ہیں، یا پاکستان کے مظلوم طبقوں کے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں یا پھر اپنی جماعت  ایم کیو ایم  کی بقا کر جنگ لڑ رہے ہیں۔ایم کیو ایم کو قائم ہوئے چار دھائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا، الطاف حسین کو پاکستان چھوڑے ہوئے  ۲۵ سال ہونے کو ہیں۔ آج تک سوائے اردو بولنے والے ہزاروں نوجوانوں کے قتل، سندھ میں سرکاری نوکریوں کے دروازے اردو بولنے والوں پر  بند  اور تعلیمی اداروں میں اردو بولنے والوں کے ساتھ مزید تعصب آمیز رویہ کے علاوہ ایم کیو ایم نے  کیا حاصل کیا ہے؟ اور ستم ضریفی یہ ہے کہ الطاف حسین صاحب کسی بھی ایم کیو ایم کے کارکن کی ہلاکت پر پہلے احتجاج کرتے ہیں، پھر رقتِ آمیز تقریر کرتےہیں، اس کے بعد سوگ اور کاروبار بند کرنے کا اعلان ہوتا ہے، پھر پی پی پی سے کنارہ کشی اور انکے لیڈران کے خلاف دھمکی آمیز بیان بازی اور ایم کیو ایم کے ساتھ مظالم کی داستان سنائی جاتی ہے، اور ان سب چیزوں کے بعد پی پی پی  اور ایم کیو ایم کی قیادت کے درمیان بات چیت کے سلسلے شروع ہوجاتے ہیں اور پھر ایک دو روز کی گہما گہمی کے بات دونوں جماعتوں کی دوبارہ دوستی  اور ایک دوسرے کا ساتھ دینے کے فسانے شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ آنکھ میچولی کا کھیل پچھلے چالیس سال سے  سندھ میں  جاری ہے۔ الطاف حسین صاحب لندن  میں  محفوظ زندگی گزار رہے ہیں مگر ان کے کارکن اور اردو بولنےوالے چاہے وہ ایم کیو ایم کا حصہ ہوں یا نہ ہوں ایم کیوایم کی بقا کی قیمت چکُاتے چکُاتے ایک مفلوج کمیونٹی بن کر رہ گئے ہیں۔چند دنوں سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ ریاض ملک صاحب نے حیدرآباد میں الطاف حسین یونیورسٹی کا سنگِ بنیاد رکھ دیا ہے۔ پہلی غور طلب بات یہ ہے کہ یہ آخر ریاض ملک صاحب  کو ہی کیوں الطاف حسین یونیورسٹی بنانے کا خیال آیا، اور پھر حیدرآباد میں ہی کیوں؟ میرا تعلق حیدرآباد شہر سے بھی  ہےاور میں شعبہ تعلیم سے بھی وابستہ ہوں لحاظہ  مجھ سے زیادہ کون  حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام کی اہمیت کو سمجھ  سکتا ہے؟

حیدرآباد کی عوام نے ایم کیو ایم کے قیام سے اب تک بہت زیادہ قیمت چکائی ہے۔ حیدرآباد ایک پرُ امن شہر تھاجہاں سب سیاسی طبقہ کے علاوہ سب مل جل کر رہتے تھے۔ اگر الطاف حسین حیدرآباد کا کچھ قرض اتارنا چاہتے تھے تو ریاض ملک کو کہتے کہ حیدرآباد میں یونیورسٹی کا نام حیدرآباد یونیورسٹی رکھا جائے کیونکہ اسِ یونیورسٹی پر حیدرآباد کے شہریوں کا حق الطاف حسین سے زیادہ ہے!

 یونیورسٹی بناناعمارت تعمیر کرنے کا نام نہیں۔ یونیورسٹی کے لئے شعبہ تعلیم کے ماہر، رواں فنڈز اورٹیکنالوجیکل اور دوسرے ذرائع   چائیے ہوتے ہیں۔ تعلیمی ادارے سیاسی اور سیاسی جماعتوں کے اثر سے پاک ہونے چائیں۔ کسی بھی تعلیمی ادارے کا نام سیاسی شخصیت کے نام پر نہیں ہونا چائیے ورنہ وہ کوئی تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ ایک اور سیاسی جرائم کا اڈا بن جائے گا۔ آصف علی زرداری اور ریاض ملک کے کاروباری رشتہ کون نہیں جانتا ماضی کی  کرپشن کی داستانیں رقم ہیں !

الطاف حسین  یونیورسٹی کے پیچھے ریاض ملک  اور کاروباری شراکتدار گرو آصف علی زرداری سے کیا ساز باز کی گئی ہے یہ عنقریب منظر عام پر آجائے گا ! اور تازہ خبر یہ بھی ہے کہ ریاض ملک کراچی میں میٹرو بس سروس بھی شروع کریں گے۔ یہ کون نہیں جانتا کہ ریاض ملک کو کراچی کا سونے جیسا علاقہ اپنے زمین  اور ہاوسنگ پروجیکٹس کے لئے چائیے تھا جس کے لئے وہ کافی عرصہ سے ہاتھ پیر مار رہے تھے۔ ریاض ملک بھی شاید دوبئی کی طرح الطاف حسین سے  شراکت میں کراچی کے شیخ بننے کی خواہش رکھتے ہوں!  جس کے لئے ایم کیو ایم کو خوش کرنا  لازم تھا ۔

یہاں ایک اور غور طلب  بات یہ ہے کہ   ریاض ملک کی دولت  اور کم عرصہ میں ارب پتی ہونے پر پہلے ہی سوالیہ نشان ہیں؟ کیا ریاض ملک کی تمام دولت جائز اور حق و حلا ل کی ہے؟ اور اگر ریاض ملک کی دولت کے  جائز  ہونے پر سوالات ہیں؟ تو پھر کیا ایسی دولت سے درس گاہ بنانا ایک نیک فیل ہے؟ اور پھر  کیاایسی درسگاہ سے تعلیم حاصل کرکے اعلی اور شریف النفس  ذہن پیدا ہونگے؟چالیس سال پہلے یقینا حیدرآباد سمیت سندھ کے تعلیم اداروں میں کوٹہ سسٹم کی وجہ سے شہری علاقوں کےطلبا  کے لیئے تعلیم حاصل کرنا ایک بہت بڑا مسلہ تھا۔ آج حیدرآباد سمیت پاکستان کے ہر بڑے شہر میں پرائیوٹ یونیورسٹیز بن گئی ہیں۔طلبا نے سرکاری یورنیورسٹیوں پر انحصار کرنا چھوڑ دیا ہے۔

اسِ وقت سندھ کے عوام  اور بالخصوص طلبا کو جرائم سے پاک اور محفوظ ماحول چائیے ! نا تو سندھ کے اردو بولن والوں کا نام متحدہ قومی مومنٹ ہے اور نا ہی سندھی بولنےوالوں کا نام پاکستان پیپلز پارٹی ہے؟

سندھ کی نئی نسل چاہے اردو بولتی ہو یا سندھی باشعور لوگوں کی نسل ہے۔انِ کو چائیے کہ سندھ کے پچھلےچالیس سالوں کی سیاست کا تجزیہ تمام سیاسی رشتوں سے بالا تر ہو کر یں اور دیکھیں کہ انہوں نے انِ دونوں جماعتوں کے پیچھے چل کر کیا حاصل کیا ہے؟ کیا سند ھ کے شہروں اور گائوں اور ان میں رہنے والوں لوگوں کی زندگیوں میں ترقی آئی ہے یا پسماندگی؟ تو کیا اسِ پسماندگی کو مزید آگے لے کر جانا ہے اور مکمل طور پر غلاموں کی زندگی گزارنا ہے؟  اگر سندھ کے عوام نے اپنے آپ کو انِ دونوں جماعتوں اور ہر اسُ جماعت سے جو سندھ کے عوام کو تقسیم کرتی ہے اپنے آ کو آزاد نہیں کیا تو پھر سندھ کے تمام لوگوں کو چاہے جو بھی زبان بولتے ہیں اور چاہے شہروں میں رہتے ہوں یا دیہاتوں یہ سمجھ لینا چائیے، آگے پاکستان میں کوئی بھی طاقت انِ کی بقا کی ضمانت نہیں دے سکتا۔

 مگر بات یہ ہے کہ جہاں پورا آوا کا آوا ہی بگڑا ہو، وہاں میں اور میرے جیسے تجزیہ نگاروں کی کون سنتا ہے۔

چاہے عوام حیدرآباد کی ہو، کراچی کی یا پنجاب کی یاپھر  پاکستان کے کسی اور  علاقے کی، اگر عوام کا یہ ہی کردار رہا اور اسی طرح سے ان سیاسی   پنڈتوں کے چنگل میں پھنسے رہے تو   پاکستان کے دشمنوں ایجنڈا پورا ہوتا نظر آرہا ہے جو چاہتے ہیں کہ پاکستان چھوٹی چھوٹی مختلف ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ جیساکہ مسلمانوں کی تاریخ بتاتی ہے جس طرح سے سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد انگریزوں نے عرب کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کرکے اپنی پسند کے عرب قبائلوں کو اُن کی وفاداری کے صلہ میں ریاستوں کے شیخ بناکر بٹھا دیا۔  آج پاکستان کو لبیا،شام اور عراق سے بھی زیادہ خطرناک ملک قرار دیا جا رہا ہے۔کیوں؟کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ملک جس کو ہندوستان کے مسلمانوں نے ’ لَا اِلَہ اِلَااللہ‘ کے نام سے منسوب کیا تھا تاریخ کے پنوں کی زینت بن جائے۔

Recommended For You

About the Author: Tribune