سیدعتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا
نئے صوبے کسی بھی ملک میں بننا وقت کے ساتھ ایک فطری ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کوئی ملک یا قوم سے غداری نہیں ۔ جو لوگ اسِ وقت پاکستان میں نئے صوبوں کی مخالفت کر رہے ہیں در اصل یہ لوگ نہ تو پاکستانی قوم کے ہمدرد ہیں اور نا ہی پاکستان کے خیر خواہ۔ بالخصوص سندھ کے نام نہاد قوم پرست جن کو سندھ کی عوام نےجن کے یہ خیر خواہ بنتے ہیں ہر جمہوری انتخابات میں شرمناک شکست دی ہے۔ انِ قوم پرستو ں نے سندھ کے عوام کو صرف نعروں اور تقسیم کے سوا دیا ہی کیا ہے۔ سندھ میں اگر نئے صوبے بنتے ہیں اور انکے نام اگر سندھ دہی اور سندھ شہری بھی ہوتے ہیں تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑے گی اور ویسے بھی اسِ تقسیم کی بنیاد تو خود سندھ کی بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی نے رکھی تھی جب آج سے چالیس سال پہلے سندھ کو کوٹہ سسٹم کی بنیاد پرسندھ دہی اور سندھ شہری میں تقسیم کیا گیا تھا اور آج اب یہ ہی تقسیم انتظامی ضرورت بھی بن گئی ہے۔ اور اگر کوئی سندھ کی تقسیم سے خوش نہیں اور سندھ کے لئے مرنے مارنے کی قسمیں کھا رہا ہے تو بھائی ایک وقت میں سندھ تو بمبئی یا ممبئی تک ہواکر تا تھا۔ ۱۹۴۷سے پہلے تو یہ سب کچھ ہندوستان تھا اور ۱۹۷۱ سے پہلے تو بنگلادیش بھی پاکستان ہوا کرتا تھا ۔غرض یہ کہ زمین کی تقسیم نئی ریاست اور نئے صوبے انسانوں کی فطری ضرورت ہوتی ہے۔ اور کہتے ہیں ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔
ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے مانگ کی ہے کہ پاکستان میں نئے صوبے بننے چائیں۔سندھ کی پچاسی فیصد آبادی کی حمایت کی دعویدار متحدہ قومی مومنٹ (ایم کیو ایم) اور اسکے قائد الطاف حسین کو سندھ میں نئے صوبوں پر بھی پر کھلا موقف دینا ہوگا ،اور اگر ایم کیو ایم اپنا ووٹ بینک سندھ کے شہریوں علاقوں میں بر قرار رکھنا چاہتی ہے تو بلا کسی دباو یا مسلحت کے سندھ میں نئے صوبوں پر اپنی پالیسی کا اعلان کرنا ہوگا۔ ایم کیوایم کی بنیاد بھی سندھ میں کی گئی اسی تقسیم اور متعصبانہ نظام کی وجہ سے وجود میں آئی تھی لحاظہ اب ایم کیو ایم کے لئے وقت آگیا ہے کہ وہ سندھ میں نئے صوبوں کے لئے دو ٹوک موقف لیکر میدان میں آئیں تاکہ انکی حمایت کرنے والوں کو بھی معلوم ہو کہ وہ جن کو من دھن سے چاہتے ہیں وہ کہاں کھڑے ہیں۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی یا الطاف حسین اور آصف زرداری کی مسلحت کے نام پر سیاسی اتحاد سے ہو سکتا ہے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کو سیاسی طور پر فائدہ ہوا ہو اور وہ پانچ سال حکومت کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے مگر کیا اس سے سندھ کے شہری علاقوں میں چاہے وہ جو بھی زبان بولتے ہوں کوئی فائدہ ہوا ہے؟ آج یہ سوال سندھ کا ہر شہری اپنے آپ سے پونچھتا ہے اور پھر جبر اور ظلم کے خوف سے خامو ش رہتا ہے۔ مگر یہ خاموشی ایک نہ ایک دنِ تو ٹوٹنی ہے۔ اگر ایم کیو ایم یہ آواز نہیں اٹھاتی تو جیسے میں نے پہلے کہا ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے، اسِ ضرورت کی آواز کہیں اور سے اٹھے گی ۔ میں سمجھتا ہوں کہ الطاف حسین کے لئے یہ سنہری اور آخری موقع ہے کہ وہ اپنےسندھ میں مینڈٹ کو برقرار رکھنے کے لئے سندھ میں نئے صوبوں کے لئے کھل کر اعلان کریں۔
وزیر اعظم میاں نواز شریف کو بھی چائیے کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ سندھ میں انکی مسلم لیگ کو لوگ اچھے نام سے یاد کریں اور انکا ووٹ بینک بنے تو وہ سندھ میں نئے صوبوں کے لئے جامع پلان اور پالیسی قوم کو دیں اور ساتھ ہی پاکستان کے دوسرے علاقوں میں بھی جہاں ضرورت ہے نئے صوبوں کو بنانے کا اعلان کریں تاکہ پاکستان کے انتظامی امور کو مستقل بنیادوں پر درست کیا جا سکے۔ پاکستان میں نئے صوبوں کی مخالفت کرنے والے اب یہ جواز پیدا کررہے ہیں یا کریں گے کہ جی نئے صوبے بنانے کے لئے پاکستان کے آئین میں یہ درج ہے کہ موجودہ صوبے کی پالیمنٹ سے نئے صوبے پر قرارداد منظور ہو ۔اور ظاہر ہے کہ موجودہ صوبے کی پالیمنٹ میں اکثریت میں بیٹھے نمائندے کب چاہیں گے کہ ان کا موجودہ مینڈٹ کسی مشکل کا شکار ہو۔ تو اسِ سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ پاکستان کا یہ آئین تو معذرت کے ساتھ موجودہ سیاستدانوں نے ایک مزاق بنا دیا ہے ہر سیاسی پارٹی حکومت میں آنے کے بعد اپنے حساب سے اس میں تبدیلیاں لاتی ہے تو ایک مرتبہ عوام کو انصاف اور بنیادی انتظامی معاملات کو درست کرنے کے لئے تبدیلی کر جا ئے تو یہ قوم پر احسان ہوگا۔جناب وزیر اعظم میاں نواز شریف صاحب آپ اس وقت بڑی حب الوطنی اور قومی یک جہتی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور آپ کی پارٹی کے پاس اسِ وقت مرکزی اسمبلی میں مینڈٹ موجود ہے ۔ تو آپ سندھ کے عوام پر بھی احسان کردیں۔جہاں پچھلے پانچ سالوں میں کئی ترامیم پاکستان کے آئین کا حصہ بنادی گئیں وہیں ایک اور ترمیم بھی لے آئیں اور یہ قانون بنایا جائے کہ جن علاقوں میں نئے صوبوں کی مانگ ہو رہی ہے وہاں صاف اور شفاف عوامی ریفرینڈم کرایا جائےاور پھر جو عوامی ریفرینڈم کا فیصلہ ہو اس پر فوری عمل درآمد کیا جائے۔ تما م مہذب معاشروں میں ایسے قومی معاملات میں ریفرینڈم ہی کرائے جاتے ہیں ۔
اسی طرح سے پاکستان پیپلز پارٹی کے قائدین بالخصوص آصف علی زرداری صاحب کو چائیے کہ وہ سندھ میں پیپلز پارٹی کو صرف سندھی زبان بولنے والوں کی پارٹی سے نکال کو اردو بولنے والوں اور سندھ کے شہری علاقوں کی پارٹی بھی بنانے پر کام کریں اور یہ جب ہی ممکن ہے جب وہ سندھ کے شہری علاقوںمیں رہنے والوں کے حقوق اور مانگوں پر دھیان دیں اور اس کو پیپلز پارٹی کے مقاصد کا حصہ بنائیں گےاور انکے دلِ جیتیں ۔ورنہ پیپلز پارٹی کو سندھ میں نام نہاد قوم پرست نئے ِ صوبوں کی مخالفت کی جنگ میں اپنے ساتھ بہا کر لے جائیں گے۔زرداری صاحب لوگ کہتے ہیں آپ لومڑی جیسی چالاکی رکھتے ہیں تو ذرا سوچئے پیپلز پارٹی کو اگر سندھ میں کوئی دیرینہ بنیادوں پر سہارا دے سکتا ہے تو وہ شاید سندھ کے شہری علاقوں میں رہنے والے ہیں، اورویسے بھی آپ تو الطاف حسین کے قریبی رفقا کاروں میں سے ہیں جنہوں نے آپ کی پارٹی کو پانچ سال حکومت کرنے میں ساتھ دیا تو آئیے اب وقت ہے قرض اتارنے کا ؛ ہمت کریں اور سندھ میں نئے صوبوںپر پیپلز پارٹی کی پالیسی کا اعلان اپنے پنجاب کے نئے بلاول ہاوس سے کریں۔
پاکستان کو بنے ہوئے ۶۶ سال ہوگئے ہیں۔ ان چھ دھائیوں میں بھارت میں کئی نئے صوبے بنادئے گئے کیا اسِ سے بھارت کی عوام یا کسی علاقے کی قوم یا نسل کو کوئی نقصان ہوا یا فائدہ۔ دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی مثالیں دی جا سکتی ہیں کہ انہوں نے ملک کے انتطامی امور بہتر بنانے کے لئے نئے ضلع اور صوبے بنائے ہیں جن سے ان کے ملک کے معاملات بہتر ہوئے ہیں عوام کو اعتماد ملا ہے اور نئی مراعات حاصل ہوئی ہیں۔
1 Comment
Comments are closed.