٭ میرا قیام 1947میں جب عمل میں آیا تو میرے بنانے والے میری پرورش اور ترقی کے لئے دلِ و جاں نچھاور کرنے کے دعوے کرتے تھے۔
٭ بدقسمتی سے ابھی مجھے ایک سال ہی ہوا تھاکہ میرے بانی،محمد علی جناح، اسِ دنیا سے رخصت ہوگئے۔
٭ میرےبانی کا انتقال کیا ہوا کہ وہ لوگ جو بانی کے ساتھ شامل تھےبیشتر اپنے اصل مقاصد کی تکمیل میں مگن ہو گئے
٭ سندھ کےوڈیرے ہوں یا پنجاب کےچودھری وجاگیردار یا بلوچستان اور سرحد کے قبائلی سردار سب نے مجھے لوٹ کا مال سمجھا
٭ مجھے بنایا تو مسلمانوں کے حقوق کی ترجمانی کے لئے تھا مگر مجھ پر حکمرانی کی گئی اپنےمفادات کی حفاظت کے لئے
٭ مجھے مسلمانوں کی ریاست کی بجائے سندھیوں، پنجابیوں، بلوچوں ، پٹھانوں، اور مہاجروں کی زمین بناکر رکھ دیا۔
٭ مجھے بچانے کے نام پرحکمرانی کی دوڑ میں میرے محافظ (فوجی) بھی شامل ہوگئے ۔
٭ اور پھر میرا کاروبار چلانے والے سرکاری کارندے بھی انکِی زبان بولنے لگے
٭ مجھ پر حکمرانی کرنے کے لئے میرے جسم کے حصوں کی بولیاں لگنی شروع ہوگئیں۔
٭ سب نے مل کر میرے ایک بازو مشرقی پاکستان کو مجھ سے اسِ طرح سے الگ کردیا ۔ ساری دنیا میں میری جگ ہنسا۔ میرے قیام کو ہی غلط ثابت کیا گیا ۔ میرا حریف میرے ٹوٹنے پر ہنسا مگر مجھ پر حکمرانی کرنے والوں کو شرم نہ آئی۔
٭ آج میرے ٹوٹنے پر کوئی ماتم نہیں کرتا مگر میرے مزید ٹکڑےہوتے دیکھنے کا خوابت سب دیکھتے ہیں
٭ مجھے لوٹنےوالوں نے طرح طرح سے لوٹا؛ کبھی فرقہ کے نام پر، کبھی زبان کے نام پر، کبھی روٹی کپڑا اور مکان کے نام پراور کبھی پانی کے نام پر، کبھی صوبائی خودمختاری کے نام پراور کبھی اسُ مذہب کے نام جس پر میری بنیاد تھی۔
٭ آج میں تنہا کھڑا ہوںمگرمجھے لوٹنے والے میرے اندر بکھرے پڑے ہیں
٭ میری عوام کسی نشے میں لمبی بے خودی کے عالم میں ہے شاید ان کا نشہ تب ٹوٹے جب میر وجود خود تاریخ بن جائے۔
٭ میں آج غیروں سے کیوں شکایت کروں جب میرے اپنے ہی میرے مرنے کے انتظار میں ہیں
ذرا سوچئے ۔۔۔۔۔ سید عیتق الحسن، سڈنی آسٹریلیاء