از قلم سید عتیق الحسن
مہاجر، وہ لوگ جو 1947 میں تقسیم ہند کے دوران اور بعد میں پاکستان منتقل ہوئے، ابتدا میں خود کو “مہاجر” نہیں کہتے تھے۔ ان کی ہجرت کو پاکستان کے قیام کے خواب کی تکمیل سمجھا جاتا تھا—برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن۔ تاہم، سیاسی علیحدگی، نظامی تفریق، اور ثقافتی اخراج کے دہائیوں بعد ان کی اجتماعی شناخت تشکیل پائی، جو بالآخر اب مہاجر ثقافت کے دن کی صورت میں سامنے نظر آرہی ہے—یہ دن ان کی مزاحمت اور ورثے کا جشن اور عکاسی ہے۔
مہاجر شناخت کی ابتدا
ہجرت کے بعد مہاجرین نے بنیادی طور پر سندھ کے شہری علاقوں، جیسے کراچی، حیدرآباد، اور سکھر میں سکونت اختیار کی۔ انہوں نے اپنے نئے وطن کو اپنایا اور خود کو صرف پاکستانی کہا۔ قوم کی ترقی میں ان کے قابل قدر کردار کے باوجود، پاکستان کے پہلے فوجی حکمران جنرل ایوب خان کے دور میں علیحدگی کے بیج بوئے گئے۔ ایوب نے مبینہ طور پر مہاجروں کو ان کی غیر یقینی حیثیت کے بارے میں خبردار کیا، اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کی بھارت سے ہجرت انہیں مزید بے وطنی کی طرف دھکیل سکتی ہے کیونکہ ان کے لئے اب آگےسمندر ہے۔
محب وطن مگر محروم، مہاجرین کو “پناہ گیر”، “ہندوستانی”، اور “مکڑ” جیسے توہین آمیز القاب دیے گئے، جو ان کی اجنبی حیثیت کو اجاگر کرتے تھے۔ ان القابات نے “مہاجر” کو ایک علامتی شناخت کے طور پر اپنانے کی تحریک دی، جو ان کی ہجرت اور شناخت کے لیے جدوجہد کی عکاسی کرتی ہے۔
ثقافتی اور سیاسی تفریق
ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں یہ تقسیم مزید گہری ہو گئی۔ بھٹو، جو ایوب خان کے دور میں ابھرے، نے ایسی پالیسیاں نافذ کیں جنہوں نے سندھ میں نسلی اور لسانی کشیدگی کو نا صرف بڑھایا بلکہ تقسیم کیا۔ بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے 1973 میں کوٹہ نظام متعارف کرایا، جس نے سندھ کو “شہری” اور “دیہی” زونز میں تقسیم کیا۔ دیہی علاقوں، جہاں زیادہ تر سندھی بولنے والے رہتے تھے، کو سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی مواقع کا 60% حصہ دیا گیا، جبکہ شہری علاقوں، جہاں مہاجرین کی اکثریت تھی، کو صرف 40% حصہ ملا۔
زبان کی پالیسیاں بھی کشیدگی کا سبب بنیں۔ 1970 کی دہائی کے اوائل میں، سندھ اسمبلی نے ایک بل پاس کیا جس میں سندھی کو صوبائی زبان قرار دیا گیا، جس سے اردو، جو مہاجروں کی زبان تھی، کو پسماندہ کیا گیا۔ ان اقدامات نے نسلی فسادات کو جنم دیا، جو سندھ کے سیاسی اور انتظامی نظام سے ان کے اخراج کا باعث بنے۔
مہاجرین اور ان کی خدمات
ان چیلنجوں کے باوجود، مہاجروں نے پاکستان کے شہری ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک تعلیم یافتہ اور شہری کمیونٹی کے طور پر، وہ تجارت، تعلیم، اور مختلف پیشوں میں نمایاں ہوئے، اور کراچی کو ملک کا اقتصادی مرکز بنایا۔
تاریخی طور پر، مہاجرین نے سندھیوں کے ساتھ پرامن طریقے سے زندگی گزاری، جو اپنی مہمان نوازی اور بھرپور روایات کے لیے مشہور ہیں۔ تاہم، سیاسی اشرافیہ اور تفریق کرنے والی پالیسیوں نے تنازع پیدا کیا، جس نے دونوں طبقوں کے درمیان ہم آہنگی کو دبا یا اور تقسیم کو بڑھاوا دیا۔
نظامی تفریق کے باوجود، مہاجروں نے مختلف شعبوں میں شاندار کامیابیاں حاصل کیں، جن میں ممتاز دانشور، صحافی، شاعر، سیاستدان، سفارتکار، ایٹمی سائنسدان، فنکار، کرکٹر، اور کاروباری شخصیات ،خاص طور پر کراچی اور حیدرآباد سے تعلق رکھنے والوں ،کا نام تاریخ میں عیاں ہے۔ عالمی سطح پر، مہاجر ڈائاسپورا یورپ، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، افریقہ، اور مشرقِ وسطی میں بھی نمایاں خدمات انجام دے رہا ہے۔
مہاجر ثقافت کے دن کا آغاز
مہاجر ثقافت کا دن، دہائیوں کی محرومی اور شناخت کے انکار کے ردعمل میں وجود میں آیا۔ یہ مہاجروں کے منفرد ورثے، ثقافت، اردو زبان، فن و ادب، اور تاریخ کا جشن ہے۔ یہ تحریک سندھ کلچر ڈے (اجرک ڈے) کے جواب میں زور پکڑ گئی، جو پی پی پی نے سندھی ورثے کا جشن منانے کے لیے سرکاری سطح پر متعارف کرایا ۔ اگرچہ ثقافتی تقریبات فخر اور اتحاد کو فروغ دیتی ہیں، لیکن بعض اوقات انہیں دیگر نسلی گروہوں کو خارج کرنے کے لیے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے تو تقسیم ہوتی ہے جو پیپلز پارٹی سندھ اور سندھی قوم پرستوں نے کیا۔
نظامی تعصبات اور کم نمائندگی سے مایوس، مہاجر نوجوانوں نے ثقافتی اظہار کے ذریعے اپنی شناخت کو اجاگر کرنا شروع کیا۔ 1980 کی دہائی میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے عروج نے ایک سیاسی پلیٹ فارم مہیا کیا، جو ان کی مایوسیوں کو منظم جدوجہد میں بدل دیا۔ اپنے متنازعہ سفر کے باوجود، ایم کیو ایم نے مہاجر مسائل کو اجاگر کیا، اور پاکستان کے سماجی و سیاسی منظرنامے میں ان کی شناخت کو مضبوط کیا۔
اتحاد کی ضرورت
پاکستان میں نسلی تقسیم حکومتوں کی ناکامی کا نتیجہ ہے، جو قومی اتحاد کو فروغ دینے میں ناکام رہیں ہیں۔ بانی رہنماؤں کی وفات کے بعد، سیاستدانوں اور فوجی حکمرانوں نے پاکستانیوں کو پاکستانی قوم بنانے کی بجائے نسل پرستی، فرقہ پرستی، اور صوبائیت کو اپنی سیاست کو چمکانے کے لئے فروغ دیا اور تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی پر عمل کیا۔ اس عمل میں سب سے زیادہ تعصب کا شکار پاکستان کا سب سے زیادہ پڑھا لکھا، ذہین اورتعلیم یافتہ طبقہ مہاجر ہوئے۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی پہلی قومی اسمبلی کے اجلاس سے اپنی پہلی پارلیمانی تقریر میں کہا تھا کہ آج سے پہلے تم سندھی، پنجابی، پشتون اور بنگالی تھے مگر اب تمھاری پہچان اور شناخت صرف پاکستان ہے۔ جس دنِ تم نے اسِ نئی شناخت کو چھوڑ کر واپس پرانی شناخت کو اپنا لیا ، اس دنِ پاکستان تقسیم ہوجائے گا۔ پاکستانی قوم اور انکے جعلی سیاستدانوں اور فوجیوں نے اسُ پر عمل کیا جس کے لئے قائد اعظم نے منع کیا تھا اور نتائج سے آگاہ کیا تھا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ پاکستان صرف پچیس سال میں دولخت ہوگیا۔ بنگالیوں نے مشرقی پاکستان کو الگ کرکے بنگلادیش بنا لیا۔
پاکستان کے قیام میں مہاجروں کے کردار کے باوجود، انہیں مساوی نمائندگی سے محروم رکھا گیا۔ یہ محرومی سندھ کے سیاسی منظرنامے میں واضح طور پر نظر آتی ہے: پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک کوئی مہاجر سندھ کا وزیر اعلیٰ نہیں بنایا گیا، حالانکہ ان کی آبادی قابل ذکر ہے۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں کلیدی عہدے زیادہ تر سندھی بولنے والے افراد کے زیر قبضہ ہیں، جس سے مہاجروں کی علیحدگی مزید گہری ہوئی۔ آج صرف بلوچ یا سرائیکی کی اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کرتے نہیں آرہے بلکہ مہاجر طبقہ سندھ کے شہروں میں رہتے ہوئے تعصب اور ظلم کا شکار ہے مگر انُ کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
آگے کا راستہ
پاکستان کی طاقت اس کی تنوع میں ہے۔ صوبائی اور نسلی ثقافتوں کا جشن قومی اتحاد کی قیمت پر نہیں ہونا چاہیے۔ مہاجر ثقافت کا دن شمولیت اور مساوی نمائندگی کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے سبق حاصل کرنا ضروری ہے، جو تفریق اور تقسیم کے خطرات کی واضح مثال ہے۔
بانیوں نے ایک ایسے پاکستان کا خواب دیکھا تھا، جہاں تمام مسلمان ایک جھنڈے تلے برابری کے ساتھ ترقی کریں۔ اس خواب کی تکمیل کے لیے، پاکستان کو نسلی اور لسانی تقسیم سے آگے بڑھ کر اپنی متنوع شناخت کو اپنانا ہوگا۔ مہاجر ثقافت کا دن صرف ایک طبقہ کے ورثے کا جشن نہیں، بلکہ انصاف، مساوات، اور ہر شہری کے کردار کو تسلیم کرنے کی ایک پکار ہے۔
مصنف سڈنی میں مقیم صحافی، انسانی حقوق کا الم بردار، سیاسی تجزیہ کار، اور ایڈیٹر، ٹریبیون انٹرنیشنل، آسٹریلیا ہیں۔ مصنف کا تعلق بھی مہاجر طبقہ سے ہے جو اپنی تعلیمی ، اور زندگی کے مختلف شعبوں میں تعصب کا شکار رہاجبکہ آسٹریلیا ہجرت کرنے کے بعد مصنف کو ہم آہنگی، امن، اور لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈز اور کئی بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازہ گیا۔ کے وصول کنندہ ہیں۔ مصنف کا ای میل ایڈریس کمنٹس کے لئے نیچے دیا گیا ہے :
shassan@tribune-intl.com
END