سید عتیق الحسن
تمام مسلمانوں کو سنتِ ابراہیمی عیدِ قربان مبارک۔ یہ عید مسلمانوں کو سبق دیتی ہے کہ اللہ کے حکم پر اور اللہ کی راہ میں اپنی سب سے پیاری چیز کی بھی قربانی دینے سے بھی دریغ نہ کرو۔ پاکستان مسلمانوں کے بنیادی حقوق حاصل کرنے اور آزادی سے اپنے مذہب کی پیروی کرنے کے لئے وجود میں آیا تھا۔ ساٹھ دہائیاں گزرنے کے بعد بھی نہ پاکستانیوں کے پاس بنیادی حقوق ہیں، نہ بنیادی سہولیتیں اور مذہب کی بات کریں تو کوئی شیعہ، کوئی سنُی، کوئی وہابی اور کوئی دیو بندی نظر آتا ہے اور کوئی مذہب سے بالکل ہی خارج ہے۔اب لگ یوں رہا ہے کہ عید ِ قربان پر مویشیوں کی منڈیوں کے بعد پاکستان کے ہر بڑے شہر میں سیاسی منڈیاں سجنے والی ہیں۔ عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے اسلام آباد میں جاری پاکستان کی تاریخ کے سب سے لمبے دورانیے کے دھرنوں نے دوسرے سیاستدانوں کو بھی گھروں سے باہر نکلنے اور سیاسی منڈیاں لگانے پر مجبور کر دیا ہے۔ اور اب نظر یوں آرہا ہے کہ ایک مرتبہ پھر پاکستانی عوام کو انتخاب کی طرف لے جایا جائے گا لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی عوام جو عید الاضحی پر تو جانوروں کی قربانی کے لئے پر جوش اور سنجیدہ نظر آتی ہے انتخابات میں بھی اتنی ہی سنجیدہ نظر آئے گی اور سیاسی قربانی کے لئے تیار ہوگی۔
سیاسی قربانی اسِ لئے کہ انتخابات تو پہلے بھی پاکستان میں ہوئے ہیں، اور انتخابات میں اپنے ووٹ تو لوگوں نے پہلے بھی استعمال کئے ہیں مگر اسکے نتیجے میں جوحکومتیں بر سرِ اقتدار آئیں ہیں انہوں نے سوائے عوام اور ملک کو مایو سی اور شرمندگی کے کچھ نہیں دیا۔ لحاظہ پاکستان کے جغرافیائی و سیاسی حالات یہ بتا رہے ہیں کہ اگر نئے انتخابات میں لوگوں نے اپنی روائتی سوچ کی قربانی نہ دی تو یہ پاکستان جو بیس لاکھ سے زیادہ قربانیوں کے صلہ میں وجود میں آیا تھا شاید پاکستانیوں کی نا اہلی کی بھینٹ چڑھ جائے۔
لحاظہ اسِ وقت ضرورت اسِ امر کی ہے کہ پاکستانی اپنی روائتی سیاسی وابسطگیوں سے باہر نکلیں اور جن سیاسی پنڈتوں کی وہ پوجا کرتے ہیں ان کا احتساب کریں اور دیکھیں کہ انِ سیاستدانوں نےانہیں سابقہ انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے بعد کیا دیا۔کیا انِ سیاستدانوں اور انِ کی جماعتوں نے ملک و قوم کی حالت بدلنے میں کوئی کردار ادا کیا یا صرف اپنی حالت بدلنے میں کامیابی حاصل کی۔
اگر انفرادی طور پر اسِ وقت پاکستان کے بڑے سیاسی ناموں اور ان کی جماعتوں پر نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ آج تک انہوں نے قوم و ملک کو کیا دیا تو تاریخی حقائق سب سے سامنے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) جس کےبانی اور قائد ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی ، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر اس وقت کے مغربی پاکستان اور آج کے پاکستان میں ایک سیاسی انقلاب برپا کیا اور سب سے زیادہ ووٹ اور نششتیں حاصل کیں۔ اِس پارٹی نے روٹی ، کپڑاا ور مکان تو ایک طرف پاکستان میں بدعنوانی کے کلچر کو فروغ دیا۔’ ہر چیز کا علاج پیسہ ‘کے اصول کو پروان چڑھایا۔ بھٹو نے اپنے آپ کو قائد عوام کہلوایا اور پاکستان کے دولخت ہونے میں اہم کردار کیا۔ملک میں صوبائیت اور لسانیت کو اہمیت دی۔ ۱۹۷۷ کے انتخابات میں ریکارڈ توڑ دھاندلی کی اور پھر دھاندلی کو ماننے سے انکار کیا بالکل اسی طرح جس طرح آج نواز شریف اینڈ کمپنی کر رہی ہے۔ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہو ئی مگر اسُ کی بیٹی بے نظیر بھٹو نے نہ تو باپ کے انجام سے اور نہ پی پی پی کے زوالِ اقتدار سے کوئی سبق سیکھا ۔ بے نظیر بھٹو دو مرتبہ اقتدار میں آئیں مگر دونوں مرتبہ اپنی معیاد پوری نہ کر سکیں ۔ بے نظیر بھٹو کے دور میں اُن کے شوہرِ نامدار اور موجودہ پی پی پی کے قائد آصف علی زرداری نے زر کمانے کا ریکارڈ قائم کیا، قومی دولت سے ذاتی دولت بنائی اور یورپ میں اپنی ذاتی سرمایہ داری کی۔ آج زرداری کی قابلیت صرف یہ ہے کہ اس کے پاس ملک و قوم کی لوٹی ہوئی دولت کا سب سے بڑا اثاثہ ہے اور اس کی مہارت کا یہ عالم ہے کہ وہ پیسہ کی بنیاد پر کسی کو بھی خرید سکتا ہے۔ اور اسِ نے پاکستان کا صدر بن کہ بات ثابت کی۔
بے نظیر کی حکومت کرپشن کے الزام میں ختم ہوئی اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کی کرپشن کی کہانیاں ساری دنیا میں مسٹر ٹین پر سنٹ کے نام سے مشہور ہوئیں۔ کہا جاتا ہے کہ بے نظیر بھٹو کو اقتدار کی معیاد پوری نہیں کر نے دی گئی اور جمہوری عمل کو چلنے نہیں دیا گیا۔ اگر سیاستدان اقتدار میں آنے کے بعد اپنے انتخابات میں کئے ہوئے وعدوں کو پورا کرے تو وہ عوام کے دلِ جیت لیتا ہے اور پھر عوامی حمایت اگر سیاستدان کے ساتھ ہو تو ریاست کی کوئی بھی طاقت اس سیاستدان اور اسکی جماعت کو اقتدار سے خارج نہیں کر سکتی۔
پاکستان کی سیاست کا ایک اور بڑا نام نواز شریف ہے،جو ضیاالحق کی مارشل لا کے دور کی پیداوار ہے اور آج ملک کا وزیر اعظم ہے ۔ بے نظیر بھٹو کے دورِ اقتدار میں تو صرف اسکے شوہر نے ملک و قوم کی دولت کے مزے لوٹے ۔ مگر نواز شریف اس سے زیادہ سخاوت نواز نکلے ، انہوں نے نا صرف اپنے بھائی شہباز شریف کو پنجاب کا بادشاہ بنا دیا بلکہ اپنے کاروبار اور خاندان دونوں کو ملک و قوم کی دولت کے مزے کرائے۔ گوروں سے آزادی ملِ گئی مگر یہ گوروں کی زمین سے پیار کرتے ہیں۔ لوہے کے کاروبار سے نکل کر لندن میں آج انکے خاندان کا رییل اسٹیٹ کا ایک بڑا کاروبار ہے۔ دنیا کے امیر ترین ملکوں میں انِ کی انڈسٹری ہے۔ دوسری طرف یہ پچھلے تیس سال سے یہ وعدہ کرتے آئے ہیں کہ یہ پاکستان کی تقدیر بدلیں گے ۔ پاکستان کو ایشیا کا ٹائیگر بنائیں گے۔ بے شرمی کا یہ آلم ہے کہ آج ان کے اپنے جلسوں میں ’گو نواز گو ‘ کے نعرہ لگ رہے ہیں مگر نواز شریف ، شہباز شریف اور انکے خاندان اور حواریوں کا یہ دعوہ ہے کہ اُن کو پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کی حمایت حاصل ہے جبکہ ۲۰۱۳ کے انتخابی حقیقت یہ ہے کہ اگر دھاندلی شدہ اعداد و شمار کا بھی جائزہ لیا جائزہ تو نششتوں کی ہار جیت سے ہٹھ کر انکی جماعت کو مجموئی طور پر تحریک انصاف سے کم ووٹ ملے اور پاکستان کے دوسرے بڑے صوبے میں انکو ایک نششت بھی نہیں ملی اور دعوہ یہ کہ یہ پوری پاکستانی قوم نے انکو پانچ سال حکومت کرنے کا مینڈت دیا ہے۔ کیا یہ لوگ ذہنی بیمار نہیں ہیں؟
پاکستان کی سیاست کا ایک اور بڑا نام الطاف حسین ہے انکی جماعت پاکستان متحدہ قومی مومنٹ ہے، جو پاکستان کی تیسری بڑی اور سندھ کی دوسری بڑی سیاسی قوت کہلاتی ہے۔ الطاف حسین کو پاکستان چھوڑے ہوئے بیس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر کیا۔ ان کا پاکستان سے تعلق صرف ٹیلیفون ہے۔ بیس سال میں کراچی جو انکا پیدائشی شہر ہے کے محلے شہر ، گلیاں سڑکیں اور سڑکیں ہائی ویز بن گئے ہیں۔ الطاف حسین کے پاکستان چھوڑنے کے بعد پیدا ہونے ہونی والی نسل جوان ہو چکی ہے جنہوں نے کراچی اور حیدرآباد میں صرف قتل و غارت گری اور اسکے بعد ٹیلوفون پر الطاف حسین کا خطاب کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔یہ نوجوان اسی کو سیاست اور مہاجروں کے حقوق سمجھتی ہے۔ یہ نسل پاکستان کی سب سے زیادہ بدقسمت طبقہ ہے کیونکہ یہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں رہنے کے باوجود محفوظ نہیں ۔ تعلیم حاصل کرنے کی طلب رکھنے کے باوجود تعلیم حاصل نہیں کر پار ہے۔ اچھی نوکری حاصل کرنے کی جستجو میں محنت کرنے کی خواہش رکھنے کے باوجود بے روزگار گھوم رہے ہیں۔ دس سے پندرہ لوگوں کا قتل تو کراچی کے لئے اب کوئی خبر نہیں۔ الطاف حسین صاحب کی سیاست اور انکی جماعت کبھی مہاجر قومی مومنٹ اور کبھی متحدہ قومی مومنٹ کے درمیان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ جو جماعت اپنے زندہ رہنے کی جنگ لڑرہی ہو عوام کو کسِ قسم کی راحت دلا سکتی ہے۔
پاکستان میں سیاست کرنے والی مذہبی جماعتوں کو کبھی بھی انتخابات میں اکثریت میں ووٹ نہیں ملے مگر پھر بھی فرقہ پرستی کی بنیاد پر یہ جماعتیں سادہ لوگوں کو اپنے گرد جمع کر لیتی ہے۔ ان میں پیش پیش جماعت اسلامی ، جمیت الاعلما پاکستان، سنی تحریک وغیرہ شامل ہیں۔ انکے قائدین کا مقصد اپنے گرد مذہبی فرقہ پرستی کے نام پر لوگوں کو اکٹھا کرنا اور پھر اسٹریٹ پاور شور کرکے بڑی جماعتوں سے ساز باز کرنا اور انکی حکومتوں کی تشکیل میں اپنے مقاصد پور ا کرنا ہے۔ مولانا فضل الرحمن جیسے پیشہ ور مولویوں نے نا تو لوگوں کو قومی شعور بخشا اور نا ہی کوئی سیاسی سمت دکھائی۔ یہ جماعتیں پاکستان میں کبھی بھی اپنی حکومت نہیں بنا سکیں مگر یہ اپنے مفاد حاصل کرنے کے لئے دوسری جماعتوں کے ایجنڈوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں موثر کردار ادا کر تیں ہیں۔ آج کل جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اچھے برے سیاستدانوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں میڈیا کی سرخیوں میں چھا رہے ہیں اور اسی طرح سے جماعت اسلامی کے عوام میں دوباروہ سے قدم گاڑنے کو کوششیں کر رہے ہیں۔ جماعت اسلام اپنے مفاد کے لئے کسی کے پاس بھی جا سکتی ہے اور کسی جماعت سے بھی سیاسی سودے بازی کر سکتی ہے۔ انِ کے منافقانہ رویے کا یہ آلم ہے کہ کل تک آصف علی زرداری کو چور کہنے والے آج آصف علی زرداری کو سیاسی مدبر گردان رہے ہیں۔
پاکستان کی سیاست کا ایک پرانا نام مگر آج کی سیاست کا نیا ستوں علامہ طاہر القادری اور انکی مذہبی جماعت منہاج القران اور سیاسی جماعت پاکستان عوامی تحریک ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ علامہ طاہر القادری پاکستان کی سیاست میں پچھلے تیس سالوں سےسرگرمِ عمل ہیں مگر ان کی سیاسی قوت اب رنگ لا رہی ہے۔ علامہ طاہر القادری صاحب نے دھرنوں کی صورت میں اپنی سیاسی قوت کو کسی حد تک منوا لیا ہے مگر پرانے لوگ اب بھی انکو ماضی کے آئینہ میں گردانتے ہیں۔ طاہر القادری صاحب ان شخصیات میں سے ہیں جن کے پاس مذہبی اور سیاسی دونوں سوجھ بوجھ ہے، بولنے کی طاقت ہے اور زبانوں پر عبور حا صل ہے۔ مگر کیا طاہر القادری پورے پاکستان میں اپنے سیاسی اور قومی انقلاب کو پھیلا پائیں گے یہ ابھی دیکھنا باقی ہے۔ پاکستان کا کوئی بھی سیاستدان علامہ صاحب کے قومی ایجنڈے کو شاید مات نہ دے سکے مگر ان پر ذاتی حملے ضرورکریگا جو پاکستان کی سیاست کا کلچر ہے۔طاہر القادری صاحب اور انکی جماعت نے بے شک ماضی میں قومی سیاست میں حصہ لیا اور طاہر القادری صاحب قومی اسمبلی کے رکن بھی رہے مگر آئندہ انتخابات میں وہ اور انکی جماعت ایک نئے کھلاڑی کے طور پر حصہ لیں گی۔ اگر کوئی پہلے سے سیاسی محاہدہ نہیں ہوا تو انکا سیاسی مقابلہ آج کے پاکستان کی سب سے مقبول جماعت تحریک انصاف سے اور اسکے بانی و قائد عمران خان سےہو گا۔ عمران خان نے تمام بڑی سیاسی جماعتوں کو گھروں سے نکلنے پر مجبور کر دیا ہے۔ الطاف حسین، آصف علی زرداری اور انکے فرنٹ لائن کھلاڑی اور بر سرِ اقتدار نواز شریف اینڈ کمپنی سب کی نیندیں اڑ گئیں ہیں۔ کیا عمران خان پاکستان میں نہیں روایات اور تبدیلی کو جنم دیں گے یہ منحصر ہے کہ کیا پاکستان کے ووٹرز بھی یہ چاہتےہیں؟
پاکستان کی عوام کا یہ قومی فرض ہے اور انکو یہ سمجھنا چائیے کہ ووٹ انکی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ ایک قومی امانت ہے اور اس قومی امانت میں خیانت کرنا قومی غداری ہے۔ آج پاکستان جس عبرتناک مقام پر کھڑا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں اکثریت میں لوگ اپنے ذاتی مفاد یا پھر زبان، فرقہ ، برادری اور علاقہ کی بنیاد پر انتخابات میں کھڑے ہونے والوں کو ووٹ ڈالتے ہیں جو نا صرف جمہوری عمل سے غداری ہے کہ قومی جرم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یکہ بعد دیگرے پھر وہی پیشہ ور ملک و قوم کی دولت لوٹنے والے اور اپنی طاقت کو برقرار رکھنے والاچودھری، وڈیرہ، سردار اور کاروباری پاکستان کے اقتدار پر قابض ہو جاتے ہیں۔
اگر پاکستان کو راہے راست پر لانا ہے اور ملک کو بچانا ہے توپاکستان کے ہر اس افراد کو جو آئیندہ انتخابات میں ووٹ کا استعمال کریگا اپنے آپ سے سوال کرنا چائیے کہ؟ کیا وہ اسِ موجودہ نظام کو برقرار رکھنا چاہتا ہے جس سے اس کو سوائے محرومی کے کچھ نہیں ملا؟ کیا وہ پاکستان میں حقیقی تبدیلی چاہتا ہے؟
کیا وہ اسی سیاسی لیڈر اور اسکی جماعت کو اپنے اوپر ایک مرتبہ پھر مسلحط کرنا چاہتا ہے جس نے پچھلے تیس سال میں اس کو صرف جھوٹے وعدوں اور تقریروں کے سوا کچھ نہیں دیا اور صرف اور صرف اپنے مفاد کی تکمیل کی ہے۔ یا پھر اس شخص کو ووٹ ڈالنا ہے جس کا ماضی بے داغ ہو، جس نے ماضی میں اپنے وعدے پورے کئے ہوں اور ملک و خوشحالی کے طرف لیکر گیا ہو اور جس میں یہ صلاحیت نظر آئے کہ وہ ملک و قوم کی قیادت کر سکتا ہے اور پاکستان کی تقسیم شدہ عوام کو ایک قوم بنا سکتا ہے۔
1 Comment
Comments are closed.