پرانے موسموں میں بانجھ، سوکھی جھیل سے
اڑتے پرندوں نے اسے مڑ کر کہاتھا
ہمیں اب ہجرتوں کے رنج سہنے ہیں
مگر تم دیکھنا اک دن ہمارا راج ہوگا
اس زمیں پر ہماری واپسی کے دن مقرر ہوچکے ہیں!
رتیں بدلیں سرابوں کے بدن سے
خاک سی لپٹی ہوئی ہے، سرکے اوپر بیکراں
پھیلی سیاہی کا دھواں ہے اور زمیں پر
مشرق و مغرب کی ویراں ساعتوں میں
خامشی آسیب بن کر گھومتی ہے!
چہچہاتے، ناچتے بے کل پرندے واپسی کے گیت گاتے
آشیاں کی اوربڑھتےدھول میں لپٹی ہوا سے پوچھتے ہیں،
عجب اک ہو کا عالم ہے؟
کہاں ہیں سب زمیں زادے؟
جنہوں نے آسماں جنگل، سمندر سر کئے تھے؟
جنہوں نے خواہشوں کے بیج بوکر اپنی نسلوں کے لہو کی فصل کاٹی تھی؟
کہاں ہیں سب جنہوں نے اس زمیں پر اپنی قبریں خود ہی کھودی تھیں؟
سنا ہے سب خود اپنی خواہشوں کی کوکھ میں سوئے ہوئے ہیں؟
قیصر عباس
ڈاکٹر قیصرعباس روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کے بعد پاکستان میں پی ٹی وی کے نیوزپروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا کے دور میں امریکہ چلے گئے اور پی ایچ ڈی کی۔ کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کرچکے ہیں۔ آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ایمبری ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔