سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیاء
مولانا طاہر القادری صاحب کا کیا کوئی خفیہ ایجنڈا ہے یا تھا اسِ کا مجھے علم نہیں کیونکہ میرے پاس نجم سیٹھی کی طرح کوئی چڑیا نہیں جو کہ مجھ تک یہ معلومات فراہم کرے، ہاں جو میری آنکھیں ٹیلیویزن اسکرین کے ذریعے دیکھ رہی ہیں اور سن رہی ہیں وہ ہی میری معلومات بھی ہے اور میرے لئے حقیقت بھی۔میری آنکھیں یہ دیکھ رہی ہیں اور کان یہ سن رہی ہیں کہ پاکستان کے مختلف علاقوں سے لوگ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں ، عورتوں، جوانوں اور بوڑھوں کے ساتھ اگر لاکھوں نہیں تو ہزاروں میں ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کی آواز پر شاہراہ جمہوریہ پر کئی دنِ سے جمع ہیں اور واپس جانے کے لئے تیار نہیں۔ ان لوگوں کو اسِ سے کوئی غرض نہیں کہ پاکستان کی کتنی او رکون کون سی جماعتیں ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کے خلاف ہیں۔ میرے لئے یہ حقیقت ہے بہت اہمیت کی حامل ہے کہ میں نے اسِ سے پہلے اپنی زندگی میں اتنی بڑی تعداد میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم اٹھائے ہوئے بچے، جوان، بوڑھے، عورتیں اور مرد نہیں دیکھے۔ میں نے آج تک کسی پاکستانی لیڈر کو نہیں دیکھا جس نے عوامی اجتماع میں پاکستانی قوم کو پاکستان کے آئین کی تشریح اور معلومات اتنی تفصیل سے بتا ئی ہو اور ان نکات کو اٹھا رہا ہو جن کا تعلق پاکستان میں شفاف الیکشن کے طریقہ کار سے ہو، پاکستان اور پاکستان کی قوم سے ہو ۔ اتنے منظم طریقہ سے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو 36 سے 38 گھنٹے مختلف سواریوں میں سفر کرکے کئی دنِ سے اطمینان اور منظم طریقے سے صرف اسِ لئے بیٹھے ہوں کہ وہ پاکستان کے لئے کچھ مطالبات لے کر آئے ہیں ، میں نے اسِ سے پہلے پاکستان میں یہ عمل نہیں دیکھا۔ میں نے اپنی زندگی میں ایک لیڈر کو اتنی لمبی مگر نکات با نکات تقریر کرتے نہیں دیکھا جو کہ پاکستان کے آئین سے جڑا مقدمہ سنا رہاہو۔میں نے موجودہ دور میں کسی پاکستانی لیڈر کو نہیں دیکھا جو اتنے مضبوط دلائل اور لاکھوں کے مجمعہ میں بین الاقوامی دنیا کو پاکستانی قوم کو امن پسند قوم اور دہشتگردی کو رد کرنے کے لئے دلائل سے بات کر رہاہو۔ تو پھر کیوں پاکستان کی سیاسی پارٹیاں اور انکے لیڈران اور بد قسمتی اپنے آپ کو بڑے صحافی کہلانے والے
سب ایک زبان ہوکر مولانا طاہر القادری کی مخالفت میں متحد ہو گئے ہیں۔ میری رائے یہی تو ہمارا ساٹھ سال پرانا مسلہ ہے جس کا عملی نمونہ اب نظر آرہا ہے کہ یہ سب پاکستان کا فرسودہ ، ذاتی مفادات پر مبنی اور کرپشن سے لبریز نظام ختم نہیں کرنا چاہتے کیونکہ اگر یہ نظام ختم ہوگیا تو یہ سب لوگ ختم ہو جائیں گے۔
پچھلے پانچ سالوں میں وہ مولانا ایک دوسرے کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں ہوئے اور وہ جو کل تک نواز شریف کو برا بھلا کہتے آئے تھے اور نواز کو فرینڈلی اپوزیشن کا الزام دیتے آئے تھے آج سب رائے ونڈ میں نواز شریف کے رہائش پر اکٹھے ہیں، ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ملائے جمہوریت کی بقا کے دعوے کر رہے ہیں ۔آج کیوں سب ایک ہی سیاسی صفحہ پر نظر آتے ہیں۔ انِ لوگوں کو اگر کسی بات پر سب سے اعتراض ہے تو وہ یہ کہ لانگ مارچ اور دھرنہ میں کتنے لوگ ہیں، کیوں ڈاکٹر صاحب اس مارچ اور دھرنہ کو لاکھوں کا مجموعہ کہ رہے ہیں جب کہ وہاں لوگ ہزاروں میں ہوں۔ سب سے پہلے تو میں یہ کہنا چاہتاہوں کہ ملین مارچ ایک محاورہ کے طور پر لیڈر استعمال کرتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہاں لوگ دس لاکھ سے کم کیوں ہی نہ ہو۔ مگر سب سے بڑی اہمیت بات یہ ہے کہ مہذب اور جمہوری نظام میں اگر چند سو لوگ بھی عوامی شاہراہ پر بیٹھے ہوں تو حکمران ان کی بات سننے کے لئے چلے آتے ہیں ۔ مگر افسوس کے آج تک پاکستانی حکومت میں سے یا حزب اختلاف میں سے کوئی بھی اسِ دھرنہ کے شرکاء اور لیڈر سے ان کی بات سننے نہیں آیا۔ یہ ہے پاکستان کی جمہوریت جس کو بچانے کی باتیں ہو رہی ہیں؟
جب پاکستان کے انِ سیاسی لیڈران کے ماضی کے کردار کی روشنی میں جائزہ لیتا ہوں تو اسِ نتیجہ پر پہنچا ہو ں کہہ یہ تمام عناصر ایک مفاد پرست اور منافق ٹولہ ہے جس نے بدقسمتی سے اب پاکستان کے اکثرتی عوام کو بھی منافق اور مفاد پرست بنا دیا ہے۔اگر ہم پاکستان کی تاریخ میں جھانکیں اور پاکستان کی بربادی کی وجہ تلاش کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہمارا یہ ہی وہ مفاد پرست اور منافقانہ کردار ہے جس کی بدولت پاکستان دو ٹکڑے ہوا اور آج پاکستان پر نہ کوئی یقین کرتا ہے اور نہ کوئی پاکستان کی پاسداری کرتاہے۔
نہایت ہی افسوس کی بات یہ ہے کہ مفاد پرست اور منافقانہ کردار صرف سیاسی جماعتوں اور انکے لیڈران میں ہی نظر نہیں آتا بلکہ صحافت اور مذہب معاشرہ کے الم برداروں میں بھی نظر آتا ہے۔نا تو میرا تعلق علامہ طاہر القادری کی جماعت منھاج القران سے ہے اور نہ ہی انکی سیاسی جماعت پاکستان کی عوامی تحریک سے۔ میں تو صرف اور صرف پاکستان کی بقا اور سلامتی کو سامنے رکھ کر بڑے کرب اور افسوس کے ساتھ یہ سطریں تحریر کر رہا ہوں۔
ہمارے اسِ مفاد پرست اور منافقانہ رویہ کی وجہ سے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو بروقت ہنگامی امداد نہیں دی گئی جب انکی ایمبولنس راستے میں روڈ پر خراب ہوگئی تھی یا کر دی گئی تھی۔ ہمارے اسی مفاد پرست اور منافقانہ رویہ نے ہم نے مادرِ ملت فاطمہ جناح کو پاکستان کے سب سے پہلے فوجی آمر فیلڈ مارشل ایوب خان کے ہاتھوں شکست دے کر نہ صرف ذلیل کیا بلکہ قائد اعظم کی مسلم لیگ کے ٹکڑے کر دئیے اور ایک آمر کی نام نہاد مسلم لیگ کے ہاتھوں ملک کا اقتدار سونپا جس کے روح و رواں وہ شخص تھا جس کو آج ہم پاکستان کی جمہوریت کا چیمئین اور قائد عوام کہتے ہیں۔ جس نے پھر آگے چل کر اسی آمرانہ سوچ کو فروغ دیا ، جو پا کستان کا پہلا سولین مارشل لاء ایڈمنسٹریڑ بنا، ملک کا صدر بنا اور پھر اپنی ہٹھ دھرمی سے قومی انتخابات میں سب سے زیادہ نششتیں حاصل کرنے والی عوامی پارٹی کو اقتدار سونپنے سے انکار کیا ہتاکہ ملک دو لخت ہوگیا اور بنگلادیش کا وجود عمل میں آگیا۔آج بھی وہی صورتحال ہے؟ سیاست اور جمہوریت کے الم بردار ان لاکھوں نہیں تو ہزاروں لوگوں کو نظر انداز کرنے پر تلے ہیں کھلے آسمان کے نیچے سرد اور خراب موسم میں اپنے بچوں کے ساتھ صرف اسِ لئے بیٹھے ہیں کہ وہ ملک میں سیاسی اصلاحات چاہتے ہیں۔
ہمارے اسِ مفاد پرست اور منافقانہ رویہ کی ایک اور زندہ مثال یہ ہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے جس شخص کر گرفتار کرنے کا حکم دیا ، اس کو ہمارے اسی مفاد پرست اور منافقانہ رویہ نے ملک کا وزیر اعظم بنایا۔ آج یہ سیاسی پنڈت علامہ طاہر القادری کی کردار کشی پر اپنا وقت صرف کر نے میں مگن ہیں مگر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کے لئے آواز اٹھانے کو تیار کرنے کو تیار نہیں۔ آج مفاد پرست رویہ کا کھلا ثبوت یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف حکومتی جماعت کے کارندے ملک کے مختلف علاقوں میں گھراؤ، جلاؤ، فائرنگ کرتے پھر رہے ہیں۔آج یہ سیاسی پنڈت جو کل تک ایک دوسرے سے بات چیت نہیں کر رہے تھے ایک ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے کھڑے ہیں۔ میں ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کو اسِ بات کا کریڈت دیتا ہوں جن کی بدولت آج یہ سارے سیاسی پنڈت جو عرصہ دراز سے ملک کی قومی دولت لوٹتے آرہے ہیں چاہے وہ بر سراقتدار ہوں یا حزبِ اختلاف میں ایک جان دو قالب نظر آتے ہیں ۔ اگر پاکستانی قوم کو انِ کا یہ کردار نظر نہیں آتا تو یہ بدقسمتی سے ہمارا اجتماعی مفاد پرستانہ اور منافقانہ عمل کا نمونہ ہے اور یہی اللہ نہ کرے ہمیں بچے کچے ملک کو بھی لے ڈوبنے کا سبب بن سکتا ہے!
ہم کسِ قسم کی لوگ ہیں ؟ ہم آئے دنِ اپنے ڈرائنگ روم اور نجی محفلوں میں یہ رونا روتے رہتے ہیں کہ پاکستان کے نظام کو ٹھیک کرنے کا
ایک ہی طریقہ ہے کہ پاکستان میں انقلاب لایا جائے۔ کیا آج تک کسی قوم یا ملک میں انقلاب اسی طرح سے آتے ہیں جس طرح سے پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور ان کے لیڈران کر دار ادا کر رہے ہیں ؟کہا جا رہا ہے کہ علامہ قادری صاحب کے دھرنہ میں انکی منھاج القران جماعت کے کارکن ہیں۔ اگر اسِ بات کو سچ مان بھی لیا جائے تو کیا منھاج القران کے کارکن پاکستانی نہیں ہیں؟ کیا یہ ہزاروں یا لاکھوں لوگ ڈاکٹر قادری کے لانگ مارچ یا دھرنے میں اسِ لئے آئے ہیں کہ اسِ میں ان کا ذاتی مفاد ہے؟ یہ سوال آج ہر ایک محب وطن پاکستانی کو اپنے آپ سے پوچھنا چائیے۔
میری رائے میں ڈاکٹر علامہ طاہر القادری صاحب اور انکے ساتھ لاکھوں پاکستانی جس جس ہمت اور خلوص سے پاکستان کے نظام کو بدلنے کے لئے اپنے گھروں سے نکل کر اسلام آباد کی شاہراہ دستور پر جمع ہوئے وہ قابلِ تحسین ہے اور ان کی یہ ہمت اور عظم اب تاریخ کا ایک حصہ بن چکا ہے جو مسقبل میں اگر پاکستان میں تبدیلی آتی ہے یا نہیں دونوں صورتوں میں یاد کیا جائے گا۔