سید عتیق الحسن
سوچنے کی بات یہ ہےکہ ڈاکٹر قادری صاحب کا انقلاب مارچ اور عمران خان کاآزادی مارچ صحح ہے یا غلط یہ اپنا اپنا سیاسی نقطہ نظر ہے مگر ایک بات اب ساری دنیا پر عیاں ہو چکی ہے کہ پاکستان کے دارالخلافہ اسلام آبادکی سیکورٹی ایسی ہےکہ اگر کسی کے پاس چند ہزار مرنے اور مارنے والے لوگ ہوں تو پھر ان کے لئے اسلام آباد دارالخلافہ پر قبضہ کر نا ناممکن نہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستانی افواج ماضی میں اسِ سے کم خراب حالات اور سیاسی تنائو کو جواز بناکر اقتدار پر قابض ہو گئی تھی تو آج کسِ چیز کا انتظار کر رہی ہے ، کہیں یہ سب تیار ترتیب در ترتیب پلان کا حصہ تو ں نہیں،۔ آج پاکستان کا دارالخلافہ بند کر دیا گیا ہے، ساری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہورہی ہے ، اور جنرل راحیل صاحب انہیں بد کردار اقتدار پر قابض سیاسی مداریوں کو مشہورہ دے رہیں کہ مسلہ بات چیت سے حل کرو۔ معاشرہ کا گند کیا بات چیت سے صاف ہوتا ہے؟
سوچنے کی بات یہ ہے پاکستان کی سیاسی تاریخ رہی ہے کہ ہمیشہ سیاسی تحریکیں اور حکومت کے خلاف احتجاج کا آغاز کراچی سے شروع ہوا ہے یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ پنجاب میں احتجاج برپا ہے اور سندھ خاموش ہے، اس سیاسی تضاد کے پیچھے سیاسی اسکرپٹ کسِ کا ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہےجنگ نواز شریف کے خلاف جاری ہے مگر آصف علی زرداری اینڈ کمپنی ملک چھوڑ نا صرف بھاگ گئے ہیں بلکہ کوئی دبئی میں بیٹھ کر اور کوئی لندن میں بیٹھ کر سیاسی بدامنی اور انتشار کو اپنے مفاد کے لئے معمول کے مطابق جوڑ میں مشغولِ عمل ہیں میڈیا انکو کوریج دے رہا اور عوام تماشائی۔
سوچنے کی بات ہے کہ جماعت اسلامی جو پاکستان کے قیام سے پہلے نظریہ پاکستان کے خلاف مہم میں پیش پیش تھے اور پاکستان بننے کے بعد آج تک دو فیصد عوامی حمایت حاصل نہ کر سکے ہیں اور نا ہی پچھلے انتخابات میں کوئی نشستیں حاص کر سکے مگر آج انکے امیر سراج الحق کیوں اتنے سرگرم ِ عمل ہیں، کیسے میڈیا میں صفِ اول کے ثالث بن گئے ہیں۔
سوچنے بات یہ ہے کہ متحدہ قومی مومنٹ اور اسکے قائد الطاف انقلاب مارچ کے کارندوں کے لئے کھنا پہنچا رہے ہیں انقلاب میں شریک لوگوں سے اظہارِ ہمدردی بھی دکھا رہیں اور ساتھ ہی سندھ ان سیاستدانوں کے ساتھ بھی کھڑے ہیں جو اس کرپٹ نظام کے روح رواں ہیں اور پھر سندھ حکومت کا حصہ بھی ، کیا یہ کھلا تضاد نہیں تو پھر قوم یہ سوال کیوں نہیں اٹھاتی۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے مائی باپ امریکہ حضور اسِ خطرناک صورتحال پر اب تک کیوں خاموش ہیں کہیں یہ خفیہ طریقے شروع سے ہی اسِ کھیل کا حصہ تو نہیں۔
اور سوچنے کی بات یہ ہے اب دونوں پارٹیاں یعنی ڈاکٹری صاحب ، عمران خان اور دوسری طرف نواز شریف اور ان کے تمام اقتدار کے شراکت دار ٹورنامنٹ کے ایسے میچ پر پہنچ گئے ہیں کہ جو ہارا وہ ٹورنامنٹ سے باہر، کیا جو جیتا وہی سنکدر ہوگا؟
ذرا سوچئے !
1 Comment
Comments are closed.