سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا
ایک مرتبہ پھر پاکستان کے سیاستدانوں نے یہ ثابت کر دیا ہےکہ جب اُن کو اقتدار میں آکر موقع ملتا ہے کہ پاکستان میں صحح جمہوریت اور عدل و انصاف رائج کریں تو وہ اس میں اپنی نا اہلی ثابت کر دیتےہیں اور بالاآخر یا تو خود فوج کی طرف دیکھتے ہیں یا پھر فوج کو خود فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ پاکستان کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لیکر کر ملک و قوم کے حالات ٹھیک کریں۔سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے رخصت ہونے سے پہلے کہا تھا کہ اب پاکستان کا اللہ ہی حافظ اور آج تمام محب وطن پاکستانی جن حالات سے گزر رہے ہیں وہ سب کہہ رہے ہیں کہ اب پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے۔
پندرہ روز سے جاری ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کے انقلاب مارچ اور عمران خان کے آزادی مارچ کے سلسلے میں جاری احتجاجی دھرنوں کے جواب میں نواز شریف اور انکی حکومت کی طرف سے غیر جمہوری ہتھکنڈے اور ہٹ دھرمی کی پالیسی کے نتیجہ میں حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں اور اسلام آباد میں کھلے آسمان کے نیچے خراب موسم میں بیٹھے لوگوں کی کیفیت بتا رہی ہے کہ اگر عمران خان اور ڈاکٹر علامہ طاہر القادری نے دھرنے میں بیٹھے مرد و خواتیں کو ایک مرتبہ صرف یہ کہہ دیا کہ آگے بڑھواور سامنے کھڑی عمارتوں میں گھس جائو اور ان میں جو بھی نظر آئے ان کو باہر گھسیٹ کر لے آئو تو وہ پھر وہ واقعات رو نما ہونگے کہ وہ ساری دنیا کے ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیاں بنیں گے اور بالآخر ملک میں ہنگامی حالات کا نفاذ پاکستان کی فوج کو کرنا پڑیگا۔
پاکستانی افواج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کو اب یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ سارے لوگ جن کے نام کے ساتھ شریف لگا ہے ایک سے نہیں ہیں ۔پاکستان سے ملنے والی خبروں کے مطابق پچھلی رات کو جنرل راحیل شریف نے علامہ قادری صاحب اور عمران خان سے آگے پیچھے رابطہ کیا اور حالات کو سلجھانے کے لئے پیش قدمی کی ہے۔ پاکستانی میڈیا میں متضاد خبریں گردش کر رہی ہیں کہ میاں نواز شریف نے راحیل شریف سے کہا ہے کہ وہ عمران خان اور قادری صاحب کو سمجھائیں ورنہ طاقت کے ذریعہ ان سے نمٹہ جائے گا اور دوسری خبر یہ ہے کہ میاں نواز شریف نے جنرل راحیل شریف سے یہ درخواست کی ہے کہ انکو نکلنے کا کسی نہ کسی طریقہ سے محفوظ راستہ دلِوادیں۔ بار حال نواز شریف نے راحیل شریف سے جو بھی فرمائش کی ہواب گیند راحیل شریف کے کورٹ میں ہے اور اب یہ راحیل شریف پر منحصر ہے کہہ وہ ملک و قوم کی نمائندگی کرتے ہوئے منصف یا کردار ادا کرتے ہیں تو پھر دو پارٹیوں کے درمیان ثالث کا اور یا پھر تیسری پارٹی بن کر خود کوئی فیصلہ کرتے ہیں۔ بارحال حالات اب اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ پاکستان کے اقتدار اور حالات کا فیصلہ اگلے ۲۴ گھنٹے میں طے ہو جائے گا۔
میں نے اپنے گزشتہ روز کے مضمون میں لکھا تھا کہ راحیل شریف کو ملک و قوم کو سامنے رکھ کر ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ کوئی مانے یا نہ مانے حقیقت یہ ہی ہے کہ پاکستان میں ایک ہی ادارہ خالص رہ گیا ہے جو ہر بگڑے حالات و واقعات میں پاکستان کی کشتی کو بھنور سے نکالتا ہے، چاہے وہ قدرتی آفت ہو یا پھر لوگوں کے پیدا کردہ مسائل۔
اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ نواز شریف حکومت نے معاملات کو سُلجھانے میں بہت ہی نا اہلی اور ہٹھ دھرمی کا مظاہرہ کیا ۔ پہلے تو ماڈل ٹائون پر طاقت کا استعمال کرکے اور لوگوں پر گولیاں چلا کر طاہر القادری کو خاموش کرنے کی کوشش گئی پھر واقعہ میں مارے جانے والوں کی ایف آئی آر تک درج نہیں ہونے دی گئی ۔ اسِ قسم کا واقعہ اگر دنیا کے کسی بھی ملک میں ہوتا تو وہاں کی حکومت اپنی قوم سے معافی مانگ کر مستعفی ہو جاتی ۔ یہ صرف پاکستان کی نام نہاد جمہوریت ہے جہاں اسِ قدر مطلق العنانی کا ثبوت دیا جاتا ہے کہ فوج کو مجبورا حکومتی معاملات میں مداخلت کرنی پڑتی ہے۔
جنرل راحیل شریف یقینا تمام حالات و واقعات سے آگا ہ ہیں اور انکو یہ بھی معلوم ہے کہ کون کتنا پارسا ہے ۔ ان حالات میں جنرل راحیل شریف کا کردار یہ ہونا چایئے کہ وہ پاکستان کے استحکام کو سامنے رکھیں ، پاکستانی قوم کی شکستہ حال کو سامنے رکھیں، سیاست اور جمہوریت کے نام پر ملک و قوم کو لوٹنے والوں اور قوم سے جھوٹ بولنے والوں کے کردار کو سامنے رکھیں اور ملک و قوم کے حق میں منصف کا کردار ادا کریں۔