بقلم سید عتیق الحسن
رپورٹرز دہشتگردی کے واقعات کی رپورٹنگ کرتے کرتے تھک گئے ہیں، ذرائع ابلاغ کے لئے ہولناک خبریں معمول بن گئی ہیں اور پاکستان کے حکمرانوں اور سیاستدانوں ہیں کہ ان کے پاس سوائےتعزیت، معاوضے اور معذرت خواہ رویہ کےسوا کچھ نہیں ہے۔ حکمرانوں کی بے حسی اور بے شرمی کا یہ عالم ہے کہ ہر واقعہ کے بعد بالکل ویسے ہی بیانات مظلوموں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لئے داغتے ہیں جسے پچھلے حادثہ پر دئیے تھے۔ مرنے والوں کے لاواحقین اور زخمیوں سے ہسپتالوں میں جاکر معاوضوں کے وعدے کرتے ہیں پھر یا تو اسِ طرح کے چیک دئیے جاتے ہیں کہ جن کو کیش کروانے لئےمتاثرین کو رشوت دینی پڑتی ہے یا پھر وہ چیک ہی کیش کے قابل نہیں ہوتے۔ حکمرانوں کے لئے یہ حادثات بھی اپنی کارکردگی ظاہر کرنے کے ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ غیرمند لیڈر حالیہ ہونے والے دہشتگردی کے واقعات کا دس فیصد سے بھی کم ہو تواستعفی دیکر سیاست چھور دیتے ہیں۔ مگر پاکستانی حکمرانوں اور سیاستدانوں کی بے حسی دیکھئےکہ دہشتگردی کے ہر واقعہ کے بعد ذرائع ابلاغ میں اپنی دکان چمکانے کے سوا اِن کے پاس کچھ نہیں۔ ان کے پاس مرنے والوں کے لا واحقین کے ساتھ چیک دیتے ہوئے فوٹو سیشن اور میڈیا کوریج کے سواکچھ نہیں۔
اگر واہگہ سرحد پر ہونےوالے دہشتگرد واقعہ سمیت حالیہ مختلف دہشتگردی کے واقعات کی بات کریں تو ایک بہت ہی غور طلب اور معنی خیز بات یہ ہے کہ پچھلوں دنوں پاکستان کے سیاستدانوں اور انکی جماعتوں نے جلسوں کا میلہ بڑے بڑے شہروں میں سجایا ہوا تھا۔ ہزاروں لوگوں کی شرکت سے بھرپور تحریک ِ انصاف، عوامی تحریک، متحدہ قومی مومنٹ، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی ، جمعیت العلما اسلام کے جلسوں کا انعقاد ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ علامہ طاہر القادری اور عمران خان کے اسلام آباد میں ہزاروں افراد پر مشتمل دھرنے بھی جاری تھے۔ اگر دہشتگردوں کا ٹارگیٹ زیادہ سے زیادہ شہریوں کو مارنا ہوتا تو پچھلے دنِوں ہونے والے وہ تمام جلسے اور دھرنے دہشگردوں کے لئے بہترین حدف ہو سکتے تھے۔ مگر اُن تمام جلسوں کے دوران پاکستان میں دہشتگردی کو کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ جیسے ہی طاہر القادری صاحب نے اپنا دھرنہ ختم کرکے کینڈا کو رُخ کیا، عمران خان نے اعلان کیا کہ وہ اب سیاسی تحریک ۳۰ نومبر سے شروع کریں گے، ایم کیوایم نے بھی وفقہ کا اعلان کیا اور اسی طرح باقی بھی چھوٹی جماعتوں نے بھی اپنی سیاسی سرگرمیوں کو روکا، دہشتگردی کا سلسلہ دوباروہ شروع ہو گیا۔
سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ محرم الحرام میں تو پہلے ہی سے جلسہ اور جلوسوں کی سرگرمیاں ہوتی ہیں اور ظلم کے خلاف آواز بلند کی جاتی ہے۔ یہ مہینہ تو ظلم کےخلاف آواز اٹھانے کے لئے سب سے زیادہ موضوع مہینہ ہے۔تو پھر محرم کے احترام میں جلسے، جلوسوں اور دھرنوں کو روکنے کا کیا مطلب تھا۔
سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ دھماکہ میں خود کش دہشتگرد نےواہگہ سرحد کا ہی انتخاب کیوں کیا۔ تمام تانے بانے سلجھانے کے بعد پتہ یہ چلتا ہے کہ پاکستان کےسیاسی حکمرانوں ، اہم سیاستدانوں اور فوج کو یہ معلوم ہے کہ پاکستان کو خانہ جنگی کی طرف لیجانے اور دنیا میں پاکستان کوعالمی خطرہ بنانے کونسی عالمی یا خطہ کی کونسی طاقتیں ملوث ہیں۔کیا وجہ ہے کہ واہگہ سرحد کے قریب ہونےوالے دھماکہ کے فورا بعد ہی تین انتہا پسند تنظیموں نے دھماکہ کی ذمہ داری قبول کرلی۔اسِ کا مقصد یہ ہی نظر آتا ہے کہ دہشتگردوں کا ایجنڈا پاکستان کو دنیا میں بدنام کرانا اور یہ ثابت کرنا کہ پاکستان دنیا کے لئے ایک خطرہ ہے لحاظہ اسِ کو شام اور عراق کی طرح کنڑول کیا جائے۔
دوسری جانب حکمرانوں کی نا اہلی کا یہ حال ہے کہ وہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے فخریہ طور پر قرضہ وصول کر رہے ہیں اور پہلے سے لئے گئے قرضوں کا سود بھی ادا نہیں کر پا رہے۔ سود اسلام میں حرام ہے تو کیا سود کی رقم سے چلائے جانا والا کاروبار بھی حرام نہیں ہوگا۔ سود کے قرض سے چلاہی جلانے والی حکومت کسِ طرح سے یہ دعوی کر سکتی ہے کہ وہ کوئی حرام کام نہیں کر رہے۔ بڑے فخر سے حکمرانوں اور فوج کے سپہ سالار نے اعلان کیا کہ انہوں نےشمالی وزیرستان میں جاری ضربِ عظم میں مثالی کامیابی حاصل کی ہے۔ مگر واہگہ سرحد پر خود کش دہشتگردی کے واقع اور اسکے بعد تین دہشتگرد تنظیموں کی جانب سے واقعہ کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعدضربِ عظم کی کامیابی کے دعوئوں کی بھی قلعی کھول گئی ہے۔ زمینی حقائق یہ پیغام دے رہے ہیں کہ نا صرف دہشتگردوں کا نیٹ ورک قائم و دائم ہے بلکہ اب اس میں شام اور عراق میں سرگرم داعش گروپ ورک کا بھی اضافہ ہو گیا ہے۔
پاکستانی حکمران اور سیاستدان آج یہ باتیں کر رہے ہیں کہ انِ دہشتگرد کاروائیوں کے پیچھےبھارت، امریکہ یا اسرائیل کا ہاتھ ہے مگر سوال یہ ہے کہ اگر اسِ میں سچائی بھی ہے تو کیا اسِ قسم کی باتیں کرنے سے دہشتگردی کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ اب تک کتنے معصوم شہری انِ ہولناک دھماکوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ اگر پاکستان کے حکمرانوں میں غیرت کا ذرا سا مادہ بھی ہوتا تو اپنی نا اہلی تسلیم کرکے تعذیتی بیان بازی کے بجائے اپنےعہدوں سے دست بردار ہو جاتے۔ مگر یہ ایسا کبھی نہیں کریں گے کیونکہ یہ سب حکمران اور انکی سیاسی جماعتیں حادثہ کی پیداور ہیں۔فوج کے تلوے چاٹ کر اقتدار میں آتے ہیں پھر اپنے قدم جمانے کے بعد فوج کو بدنام اور بلیک میل کرنے کے منصوبے بناتے ہیں ۔
پاکستان کی تاریخ میں صرف دو حکمران ایسے تھے جنہوں نے جب دیکھا کہ ان کی عزت نہیں کر جارہی اور عوام میں بھی انکے خلاف نفرت کو فروغ دیا جارہے تو وہ اپنے عہدے سے استعفی دیکر رخصت ہو گئے۔ اور یہ دونوں ہی ایسے فوجی حکمران تھے کہ صرف انکے دور میں پاکستان میں ترقیاتی کام ہوئے اور لوگوں کو روزگار ملا۔ ایک فیلڈ مارشل ایوب خان اور دوسرے جنرل پرویز مشرف۔ اسِ کے بر عکس پاکستان میں دو جماعتوں کے قائدین ایک سے زیادہ مرتبہ اقتدار میں آئے اور انہی دونوں جماعتوں کے دور میں پاکستان کا خانہ خراب ہوا۔ ایک مسلم لیگ نواز گروپ، اس جماعت کا نام ہی اس کے لیڈر کے نام پر اس سے بری آمریت کیا ہوسکتی ہے، اور دوسری پاکستان پیپلز پارٹی جس کی تاریخ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے شروع ہوتی ہے اور آصف علی زرداری کے کرپشن کے کارناموں پر ختم ہوتی ہے۔ کرپشن سے لبریز نوزشریف اور آصف علی زرداری کے پاس قوم کی لوٹی ہوئی اتنی دولت موجود ہے کہ اسی لوٹی ہوئی دولت میں سے ایک مرتبہ پھر عوام کو خریدں گے اور یہ قوم جو ایک بریانی کی پلیٹ پر اپنا ووٹ بیچ دیتی ہے ایک مرتبہ پھر انکو اقتدار میں لے آئے گی۔ انہوں نے اپنی اپنی باریاں لگائی ہوئی ہیں اور اب حساب کتاب سے نواز شریف کے بعد بلاول زرداری کی باری ہے۔ تو آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
مگر افسوناک بات یہ ہے کہ اب فوج کا کردار بھی مشکوک نظر آرہا ہے۔ کیا فوج کو نظر نہیں آرہا کہ یہ حکمران ملک کو دنِ بدن تباہی کی طرف لے جارہے ہیں تو پھر فوج کسِ چیز کا انتظار کر رہی ہے ۔ یا پھر دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی فوج اب مکمل طورپ رہ امریکہ کے حکم کی بابع ہو چکی ہے۔امریکی سرکار چاہتی ہے کہ موجودہ پاکستانی حکومت اپنی مدت پوری کرے کیونکہ شاید انکو اتنا ہی وقت درکار ہے پاکستان کو ایک دہشتگرد ریاست ڈکلئیر کرنے کے لئے۔ اور اس سے بھی بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ پاکستانی عوام نے بھی سوچ لیا ہے کہ انہوں نے ظلم، بربریت، دہشتگردی اور حکومت کی ناکامی کے خلاف متحد نہیں ہونا اور نا ہی پورے اتحاد اور عوامی طاقت کے زور پر انِ بے ایمان، نااہل اور کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف نکلنا ہے۔ آج بڑا مزاق اڑا کر یہ کہا جا رہا ہے کہ علامہ طاہرالقادری صاحب ایک مرتبہ پھر میدان چھوڑ کر بھاگ گئے۔تو کیا پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ طاہر القادری صاحب کا دھرنہ اور احتجاج اپنے گھروں میں ٹی وی پر کرکٹ میچ کی طرح دیکھ کر لطف اندوز ہونگے اور طاہر القادری اپنے پیروکاروں کے ساتھ پاکستان میں انقلاب لے آئیں گے۔ طاہر القادری صاحب کو اب ایک بات تسلیم کر لینی چائیے کہ وہ پاکستانی عوام کی بے حسی توڑنے اور ان کے ضمیر کو جگانے میں ناکام ہوئے ہیں لحاظہ اب اُن کو ایسی غلطی دوبارہ نہیں کر چایئے ۔ اور اگر وہ بھی روائتی سیاست کرنے کی کوشش کریں گے اور اُسی نظام کا حصہ بنیں گے جس کے خلاف وہ انقلاب لانا چاہتے تھے تو بہت بوری طرح ناکام ہونگے کیونکہ وہ موجودہ مگرمچھوں سے اپنا حصہ نہیں لے سکتے۔اب رہ گئے عمران خان صاحب تو ان کو بھی یہ اچھی طرح سمجھ لینا چائیے کہ پاکستانی عوام کے پاس ذہنی طور پر سوائے ہلہ گلہ کرنے کے کچھ نہیں ۔ یہ آپ کے میوزیکل شو جیسے سیاسی جلسوں میں مزے لینے اور آپ کی ایک جھلک دیکھنے آتے ہیں اگر ان کا ضمیر اسی طرح سویا رہا تو یہ بھی آپ کے رنگین جلسوں سے ایک دنِ بور ہو جائیں گے اور پھر انتخابات چاہے کتنے ہی شفاف اور ستھرے کیوں نہ ہوں یہ اانتخاب والے دنِ ایک بریانی کی پلیٹ پراپنا ایمان ووٹ کے سودے پر بیچ آئیں گے۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جسکو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
اگر پاکستانی عوام چائیں تو پاکستان کے حالات دنوں میں ٹھیک ہو سکتے ہیں۔ لیکن حالات و واقعات یہ بتا رہے ہیں کہ اکثریت میں پاکستانی قوم کو اپنی اور اپنے ملک کی حالت کے بدلنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔
آج بھی جو ہو ابرہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستان پیدا