ندیم ندوی
اللہ معاف کرے ہمیں بھی دوہری شہریت کا مرض لاگو ہوچکا ہے۔ بے خبری میں ہم بھی جس تھالی میں کھا تے تھے اسی کا چھید بند کرنے کے جتن میں مصروف ہوگئے۔ قسم اٹھالو آج تک وطن عزیز کے قومی ترانے پر ویسے ہی کھڑے ہوجاتے ہیں جیسے نااہل امیدوار الیکشن کی بانگ پر۔
دوہری شہریت کو متنازعہ بنانے والوں میں سب سے زیادہ قصور انکا ہے جو ایک شہریت رکھتے ہوئے ایک نہ ہوسکے۔ آج اگر مادر وطن میں بسنے والے ہی وطن کا کاندھا بن جاتے تو دوہری شہریت والوں کو کون پوچھتا۔ قادری صاحب کے لانگ مارچ کے تغیراتی مناظر دیکھ کر ہم کو مرزا غالب کا یہ شعر بہت یاد آیا
خبر گرم تھی کہ غالب کے اڑیں گے چیتھڑے
دیکھنے ہم بھی گئے پر تماشہ نہ ہوا
قوم کو توے پر بٹھا کرچولھا بند کردینا کہاں کا منصفانہ اصول ہے۔ دو مہینے کراچی کی سڑکوں کی خاک چھان کر شہریت کی طرح ہم بھی دوہرے ہوگئے۔ لوٹ مارکا بازار ٹھنڈا ہوکر نہیں دے رہا۔موبائیل فون اور پیسے جیب سے یوں نکال لئے جاتے ہیں جیسے آپ نے غلطی سے انکے کپڑے پہنے ہوئے ہوں۔اے ٹی ایم نے لوگوں کو بلڈ پریشر کا مریض بنا کر رکھ دیا ہے۔ بینک کے اندر سے پیسے نکالیں تو باہر مخبر ی ہوجاتی ہے۔ لوٹنے والا باخبر ہو تا ہے کہ کس حد تک لوٹنا ہے۔گھروں میں خواتین کے زریعے ڈکیتی کی وارداتیں عام ہوچکی ہیں۔شائد عوام نیتاؤں سے لٹ لٹ کر کرلٹنے کی عادی ہوچکی ہے ۔جبھی ضمنی انتخابات میں بھی کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی ۔ قتل وغارت گری روزمرہ کا معمول بن چکی ہے۔دس پندرہ کی اوسط سے کراچی اس وقت پورے ملک پر حاوی ہے۔ کوئٹہ کچھ زیادہ پیچھے نہیں ۔ وہاں دوہری شہریت نہیں
’’ دوہری شریعت‘‘ کا مسئلہ ہے۔ بقول قیوم بھائی کے دہری شریعت رکھنے والے زیادہ خطرناک ہیں ۔ اپنے ہی آنگن میں بم پھاڑنے والوں کے عزائم کو جھٹلانے کے لیے ایران کی دوڑلگانے والوں کی مصیبت دوہری ہوچکی ہے۔
دوہری شہریت والے تو محنت مزدوری کرکے وہ پیسہ ملک میں واپس لاتے ہیں جوشہریتِ واحد کا ڈھول پیٹنے والے باہر بھجواتے ہیں۔
قیوم بھائی یہ بھی کہتے ہیں کہ دوہری شہریت کے بجائے دوہرے کرداررکھنے والوں کا محاسبہ ضروری ہے۔جس دیس میں صدر اور وزیراعظم پر قومی دولت لوٹنے کا الزام ہو وہاں شہریت پہ دوہرا ہونے کی ضرور ت نہیں۔ مملکت کو اپنی ملکیت سمجھنا تقدیس وطن کے ساتھ زنا کے مترادف ہے۔
قدرت کی ستم ظریفی تو دیکھئے کہ دوہری شہریت والے آج دو شہریت رکھ کر بھی بے وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بقول شاعر تھوڑی ترمیم کے ساتھ
اپنی مٹی پہ ہمیں چلنے نہیں دیتے وہ
سنگ مر مر پہ جو چلتے ہیں پھسل جاتے ہیں