با قلم ریحان شکیل
سنا ہے جنگل کا بھی کوئی قانون کوئی دستور ہوتا ہے مگر شہرے کراچی میں تو معلوم ہوتا ہے کے گویا کسی ہٹلر یا فرعون کی حکومت ہے. بربریت کی ایسی مثال کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے.جس طرح عام شہریوں اور نوجوانوں کی لاشیں سڑکوں پر پھینکی جاتی ہیں اور اس پر حکام اور عدلیہ کا سانس اور ڈکار تک نہ لینا مجرمانہ خاموشی اور غفلت کی انتہا ہے . یہ غفلت اور مجرمانہ خاموشی صرف حکمرانوں تک محدود نہیں صاحب یہاں تو پوری قوم ہی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے . گزشتہ روز ایک صاحب سے مکالمہ ہوا اور انسے دریافت کرنے کی کوشش کی کے حضور آواز کیوں نہیں اٹھاتے? بھلا ابن آدم کو کتےبلیوں کی طرح ایسے مارا جاتا ہے ?تو ارشاد فرمایا کے مرنے والو کا تعلق MQM متحدہ قومی مومنٹ سے ہے اور یہ انکا آپسی معملا ہے. پھر دریافت کیا کے گویا پھر انکے مرنے پر آواز اٹھاتے ہونگے جنکا تعلق متحدہ قومی مومنٹ سے نہیں ہے اور آپکی اپنی بنائی ڈکشنری کے مطابق انکا شمار عام شہریوں میں ہوتا ہے تو جواباً کہا کے چھوڑئیے صاحب عام آدمی اپنی دال روٹی کی فکر کرے یا دھرنے مظاہرے کرے …..ہم خاموش ہو گئے اور یہ سوچ کر آگے بڑھ گئے کے پھر غریب آدمی اپنی باری کا انتظار کرے ?…
نفسا نفسی کا یہ عالم کمال کا ہے کیا MQM کے ہمدرد اور کارکنان انسان نہیں ہے کیا وہ پاکستان کے شہری یا کراچی میں پیدا نہیں ہوئے ? اگر کچھ لوگوں کے دل میں یہ شک و شبھات ہیں کے یہ افراد جرائم میں ملوث ہیں یا انکے خلاف کوئی مقدمات ہیں تو انھیں عدالت میں پیش کیا جائے . خود متحدہ قومی مومنٹ کی قیادت بارہا یہ اپیل کر چکی ہے کے اگر کوئی فرد کوئی کارکن کسی جرم کا کسی دہشت گردی کا مرتکب پایا جائے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے اور ثبوت فراہم کے جایئں مگر کسی فریاد پر لواحقین کی أه و بقا پر قوم بھی غافل ہے اور حکمران بھی کان نہیں دھرتے …جبکے انٹی ٹیررازم , ہائی کورٹ , سپریم کورٹ کے بعد اب تو اسپیشل کورٹ کی بھی سہولت مہیا ہے . خارجیوں سے خود کش بمباروں سے تو مزاکرات پوری دل جوئی سے کئے جارہے ہیں اور انکو ناراض بھائی اور پا کستان کے باشندے کہا جارہا ہے جبکے کراچی میں رہنے والے شہریوں کو نوجوانوں کو ماوراۓ عدالت قتل کیا جارہا ہے … تو پھر کیا جو یہ تاریک راہوں میں مارے گئے انکے لواحقین بھی کوئی انتہا پسندانہ اقدام اکریں تب ہی انکی سنوائی ہوگی ? پھر MQM کے حکومت میں شامل ہونے پر سوالات اٹھاۓ جاتے ہیں تو جناب اپنے آنگن کی حفاظت کرنے کیلئے اپنے ہمدردوں اور ساتھیوں کی جان بچانے کے لئے باغی بننے سے تو بہتر ہی ہے کے سسٹم کا حصّہ بن جایا جائے تا کے سسٹم کی بہتری کا کچھ تو انتظام ہو. ..کے یہاں تو نہ تو کوئی قانون ہے نہ ہی انسانوں کے حقوق کی علمبردار تنظیمیں کچھ انسانیت کا مظاہرہ کرہی ہیں . یا تو پھر آپ ہی بتادو کے کیا کیا جائے ?
اگر کوئی مجرم ہے دہشت گرد ہے تو اسے قرار واقعی سزا ملنی چاہیے اسکے لئے سسٹم موجود ہے مگر مارکر سڑکوں پر پھینک دینا کس تہذیب یافتہ معاشرے کی روایت ہے ? اور یہاں سوال پاکستان کے بزنس حب اور سبسے بڑ ے شہر کراچی کا جو پورے ملک کی چلتی کا نام گاڑی کو ایندھن مہیا کرتا ہے یہاں کے مقامی باشندو کے ساتھ ایسا سلوک رکھا جاےگا اور پوری قوم تماشائی بنی رہے گی تو مستقبل کتنا تابناق ہے اسکا اندازہ لگانا مشکل نہیں .
1 Comment
Comments are closed.