سیدعتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا؛
میں بچپن سے سنتا آرہا ہوں اوراپنے تیس سالہ صحافتی کام میں جب بھی پاکستان کےسیاسی ، سماجی اور ملک و قوم کے معاملات پر کوئی تجزیہ قلم بند کیا اس کے جواب میں اکثریت میں یہی ریمارکس آئے کہ پاکستان میں جب تک نظام نہیں بدلے گا پاکستان ٹھیک نہیں ہو سکتا، پاکستان میں وڈیروں، جاگیرداروں ، بدکردار اور بد دیانت سیاستدانوں پر جب تک پابندی نہیں لگے گی، اور جب تک نظریہ پاکستان کی نفی جماعتوں پر پابندی عائد نہیں ہوتی پاکستان ٹھیک نہیں ہو سکتا؛ پاکستان میں انقلاب کی ضرورت ہے، پاکستان میں لوگوں کو سرے عام لٹکانے کی ضرورت ہے وغیرہ وغیرہ، م؛میں نے اپنے ریڈیو ٹاک شوز میں بھی لوگوں سے یہی پاکستان کا حل پایا ہے۔ اور آج جب پاکستان کے دو سیاسی قائد ین اپنی سیاسی جماعتوں کے ہزاروں کارکنوں اور ہمدردوں کے ساتھ دارالخلافہ میں سرکاری ایوانوں کے سامنے دھرنا دئیے بیٹھے ہیں جس میں کسی بھی لحاظ سے دھرنا دینے والے انِ پاکستانیوں کا کوئی مفاد نظر نہیں آتا ، تو اب لوگوں کو پریشانی لاحق ہے؛ شوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر آکر عمران خان، ڈاکٹر علامہ طاہر القادری اور انکا ساتھ دینے والے ہزاروں پاکستانیوں پر طرح طرح کی الزام تراشیاں اور اپنے اپنے ذہنوں کی پیش کردہ شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ کیا یہ شوشل میڈیا پر وقت گزارنے کا مشغلہ بن گیا ہے۔ پاکستان اسِ وقت اپنے قیام کے سب سے نازک مرحلہ سے گزر رہا ہے، اگر آج یہ تحریکیں فیل ہو جاتی ہیں تو پھر پاکستان کے بہتر مستقبل کی گارنٹی کیا وہی نواز شریف اورزرداری دیں گے جنہوں نے پاکستان کو شرمناک حد تک دنیا کے سامنے بھیکاری بنا دیا ہے۔ خدارا سوچئے ؟
بے شک بہت سارے محبِ وطن پاکستانی اسِ وقت پاکستان اور پاکستانی قوم کے مستقبل کو سامنے رکھ کر دیانت داری سے تنقید بھی کر رہے ہیں اور دھرنے میں بیٹھے لوگوں کی حوصلہ افزائی بھی کر رہے ہیں مگر ایک بڑا طبقہ ہے جن کا کام شوشل میڈیا پر بیٹھ پر انُ ہی سیاسی مداریوں کے ذہن کی عکاسی کرنا ہے جن کے ظلم و ناانصافیوں سے یہ فیضیاب ہوتے چلے آئے ہیں۔ اللہ کے واسطے اب تو اپنے سیاسی ، لسانی، صوبائی، اور و فرقہ واریت کے رشتوں سے بالا تر ہوکر پاکستان کی سالمیت کو سامنے رکھ کر سوچو۔ یہ شوشل میڈیا پر بیٹھ پر مزے لینے اور طرح طرح طرح کے کارٹون بنانے کا نہیں ،ورنہ آنے والی نسلیں شاید تمھارے اس قسم کے کارٹون تک بنانا پسند نہ کریں۔
ناتو میں تحریک انصاف کا اور نا ہی عوامی تحریک کا کارکن ہوں،مگر میں بحیثیت ایک تجزیہ نگار آپ سے سوال کرتا ہوں! اگر آج عمران خان اور ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری اپنا دھرنا ختم کر دیتے ہیں، نواز شریف اور اسکی حکومت سے ساز باز کرکے سیاسی محاہدہ کرلیتے ہیں تو آج وہ اسِ حیثیت میں کھڑے ہیں کہ بہت سارے ذاتی ایجنڈے اگر پورے کرنے چاہیں تو کر سکتے ہیں، اور اگر انہوں نے ایسا کر لیا تو آپ کو کیا فائدہ ہوگا، اور یہ کہ پھر کیا یہی نواز شریف ، زرداری، بلاول، الطاف حسین، سراج الحق، فضل الرحمن وغیرہ وغیرہ پاکستان کو ٹھیک کر سکتے ہیں اور عام آدمی کے بنیادی حقوق ان کو دے سکتے ہیں اور اگر آپ کو جواب ہاں میں ہے تو آج تک کیوں نہیں کیا۔ کہاں گئے ان کے آپس کے اختلافات۔آصف علی زرداری کو گوال منڈی کی گلیوں میں گھسیٹنے والے آج اسُ کو ستر سے زیادہ ڈشوں کے کھانے پر دعوت سے تواضح کر رہے ہیں!
عمران خان اور علامہ طاہرالقادری کے لانگ مارچ، احتجاج اور دھرنے سے کچھ حاصل ہو نہ ہو مگر ایک چیز تو پچھلے چند دنوں میں کھل کر سامنے آگئی ہے کہ یہ وہ تمام استحصالی جماعتیں اور انکے قائدین ہیں جن کی نیندیں خراب ہوگئی ہیں، اور آج ایک دوسرے کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھے ہیں ۔ یہ اب ملک میں خانہ جنگی کرانے چاہتے ہیں اور اگر ایسا ہوا تو عمران خان اور علامہ طاہرالقادری اس کے ذمہ دار نہیں ہوسکتے کیونکہ وہ لوگ تو پچھلے دس روز سے ہزاروں لوگوں کو دھرنے میں لیکر پر امن طریقہ سے بیٹھے ہیں جس کا گواہ آج سارا بین الاقوامی میڈیا ہے۔
1 Comment
Comments are closed.