:سید عتیق الحسن
کل تک یہ کہا جارہا تھا کہ مصطفی کمال ، انیس قائم خانی اور باقی انکے ساتھ شامل ہونے والوں کے پیچھے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ہے اور آج خود الطاف حسین اسیُ اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملانے کو تیار ہیں۔ الطاف حسین کو ضرور اپنا زمانہ نو عمری یاد آگیا ہوگا۔ جب وہ اسٹیبلیشمنٹ کے کندھوں پر بیٹھ کر مہاجر قومی مومنٹ کی بنیادیں مضبوط کر رہے تھے۔
میں ضیاالحق مرحوم کے دور میں 85، 86 اور 87 میں کراچی اور حیدرآباد کے مہاجر قومی مومنٹ کے جلسوں میں شریک تھا کہ جب مارشل لاء کا دور تھا سیاسی سرگرمیوں پر پابندی تھی مگر مہاجر قومی مومنٹ کے کراچی اور حیدرآباد کے جلسہ گاہوں کی چوکیداری کے لئے فوج کے ٹرک پیچھے کھڑے ہوتے تھے۔
یہ 1978کی بات ہے میں اس وقت سندھ یونیورسٹی میں آخری سال میں تھا سندھ یونیورسٹی میں جئے سندھ تحریک کے کچھ اصلحہ بردار کارکنوں نے اردو بولنے والوں کو شدید مارا پیٹا، ہم یعنی غیر سندھی زبان بولنے والے جن میں اردو بولنے والے، پنجابی اور پٹھان بھی شامل تھے احتجاجا کئی بسوں میں سوار ہو کر آرمی چھاونی میں سب مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر حیدرآبادکے آفس پہنچ گئے ، مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے ہماری شکایت اطمینان سے سننے کے بعد کہا کہ ہم آپ لوگوں کی حفاظت کریں گے آپ لوگ یونیورسٹی میں اپنی پارٹی بنائو اور الیکشن میں حصہ لو، اور پھر ہم نے ایسا ہی کیا اور پہلی مرتبہ سندھ یونیورسٹی کی طلبا یونین میں غیر سندھی زبان بولنے والے کئی سیٹوں پر الیکشن جیت گئے آرمی نے الیکشن والے دنِ فوجی تعئنات کئے اورشہر میں اعلان کرایا کہ شہر کے طلبا بلا کسی خوف کے سندھ یونیورسٹی ووٹ ڈالنے جائیں ورنہ اسِ سے پہلے کبھی بھی شہر کے طلبا سندھ یونیورسٹی الیکشن والے دنِ نہیں جایا کرتے تھے ، میں نے خود اپنے ڈیپارٹمنٹ سے الیکشن میں حصہ لیا اور ایک سندھی زبان بولنے والے کو ہرا کر جوائنٹ سیکریٹری منتخب ہوا جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ یہ بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان کی اسٹیبلیشمنٹ یعنی فوج سیاستدان پیدا کرتی ہے اور انکو اپنے حساب سے استعمال کرتی ہے۔ الطاف حسین صاحب بھی اسٹیبلیشمنٹ کے کندھوں پر بیٹھ کر ہی سیاست کے میدان میں آسکے تھے ورنہ سندھ میں انکا سیاست میں آنا تو دور کی بات زندہ رہنا بھی مشکل ہو جاتا۔ اور پھر یہ بھی سچ ہے کہ اسٹیبلیشمنٹ جو سیاستدان پیدا کرتی ہے انُ سیاستدانوں کا اس وقت تک ساتھ دیتی ہے جب تو وہ انکی سنتے ہیں ورنہ پھر تبدیلی کے لئے فوج انہی سیاستدانوں کی گود سے نئے سیاستدان پیدا کر لیتی ہے۔ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو ، نواز شریف اور الطاف حسین سب فوجی جرنیلوں کی پیداوار ہیں ۔
آج اگر مصطفی کمال کو الطاف حسین صاحب ابلیس اور غدار کہہ رہے ہیں اور اگر اسِ کو سچ بھی مان لیا جائے تو بھی بات الطاف حسین کی قائدانہ صلاحیت کی نااہلی کا یہ لوگ ثبوت ہیں۔ قران پر حلف لینے کے بعد بھی کسِ طرح سے الطاف حسین کو چھوڑ کر لوگ بھاگ جاتے ہیں۔ اور پھر مارنے مرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ ایم کیوایم نے آپس کی لڑائی میں اتنے نوجوان ایک دوسرے کے مارے ہیں کہ کسی دوسرے طبقہ یا گروپ نے انہیں نہیں مارا۔
الطاف حسین اور انکے مریدوں کو یہ سمجھ لینا چائیے کہ اللہ تعالی کا ایک مکاتب عمل نظام ہے ۔ جیسا کروگے ویسہ بھروگے۔ کیوں ایسے لوگ جو الطاف حسین کے سب سے زیادہ قریب تھے آج الطاف حسین کو میڈیا کے سامنے ننگا کر رہے ہیں ،کہیں الطاف حسین صاحب نے بھی تو دوسروں کے ساتھ ایسا نہیں کیا؟ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں کسی بھی پارٹی میں ایسا نہیں ہوا ہے کہ کسی پارٹی کے پہلی صفوں کے لیڈران اپنے قائد کو چھوڑ کر ان پر بھارت کی تنظیم را کے ایجنٹ ہونے کے الزام لگا رہے ہوں اور اعلان کر رہے ہوں کہ وہ اپنے آپ کو ہر طرح کی تفتیش کے لئے پیش کرنے کو تیار ہیں۔میں یہ اپنے مضامین میں لکھتا رہا ہوں جس کو الطاف حسین کے پیروکار سمجھنے سے قاصر رہے ہیں کہ اردو بولنے والوں کے مسائل اور انکے سے ساتھ متعصبانہ برتائو پر شاید سارے اردو بولنے والے اتفاق کرتے ہوں مگر الطاف حسین کے عزائم پر لوگوں کا اختلاف ہے۔ الطاف حسین نے اپنی جماعت میں ایسے ذہن اور فلسفہ کو جنم دیا ہےکہ جس کا انجام موت اور تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ مثال کے طورپر یہ نعرہ لگانا کہ ہمیں منزل نہیں قائد چائیے ۔ ایسا قائد جو اپنے ملک آنا ہی نہیں چاہتا اور یہ کہتا ہو کہ اسکے مداح اسکو پاکستان نہیں آنے دینا چاہتے، جو دوسرے ملک کی شہریت حاصل کر کے نئے پاسپورٹ کے ساتھ فخر سے فوٹو بناتا ہو۔ جو بھارت میں کھڑے ہوکر یہ کہتا ہو کہ ہمیں معاف کردو ہمارے بڑوں سے پاکستان بنا کر غلطی ہوگئی اور پاکستان کا بننا بر صغیر کی سب سے بڑی غلطی تھی۔یہ و ہ باتیں ہیں جن کے ثبوت تصاویروں اور ویڈیو کی شکل میں موجود ہیں تو پھر کیا یہ ممکن نہیں کہ وہ شخص بھارت کے ایجنسیوں کے بھی قریب ہو۔
مجھے نہیں معلوم کہہ مصطفی کمال، انیس قائم خانی یا ڈاکٹر صغیر کے پیچھے پاکستان کی فوج ہے یا نہیں مگرایک پرانی ضرب المثل ہے کہ گھر کا بھیدی ہی ہمشہ لنکا ڈھاتا ہے۔ یہ وہی مصطفی کمال ہے کہ جو متحدہ قومی مومنٹ کی کارکردگی کی ایک مثال تھا اگر آج وہ کچھ ایسی باتوں کا انکشاف کر رہا ہے جو مصطفی کمال کے منہ سے پہلے بھی لوگوں میں گردش کر تی رہی ہیں تو حیرانی کیوں؟ الطاف حسین کو اب ایک مرتبہ پھر اسٹیبلشمنٹ کو ڈیل کرنے کی پیشکش کرنے کے بجائے پاکستانی ریاست کی اسِ حقیقت کو سمجھ لینا چائیے کہ اگر ایک مرتبہ کوئی سیاستدان جس کو سیاسی زندگی اسٹیبلشمنٹ نے دی ہو اسٹیبلشمنٹ کے لئے بے کار ہوگیا تو پھر اس کا کم سے کم سیاست میں رہنا تو مشکل ہو جاتا ہے لحاظہ اب الطاف حسین زندگی کو حقیقتوں اور بدلتے ہوئے سیاسی موسم کو حقیقت پسندی سے تسلیم کریں، اپنی صحت کا فکر کریں اور جو باقی زندگی رہ گئی ہے لندن کی آلودگی سے پاک ضا میں اللہ اللہ کرکے گزاریں شاید اللہ تعالی انکی معافیوں کو قبول کرلے۔