سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیاٗ
بلدیاتی انتخابات میں دو سیاسی جماعتوں نے انتخابات کے نتائج سے اپنی بھاری فتح پاکستان کے موجودہ سیاسی نظام میں رجسٹر کرائی ہے۔ پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور سندھ کے شہری علاقوں میں متحدہ قومی مومنٹ ۔ یقینا یہ دونوں جماعتیں مبارکباد کی مستحق ہیں۔ اب اگر پاکستان کے سیاسی منظر نامہ کا جائزہ لیں تو اس ِ میں کوئی دو رائے نہیں ہونی چائیں کہ پنجاب اور سندھ کے شہری علاقے پاکستان کے موجودہ سیاسی اور جغرافیائی ڈھانچے میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ جمہوری نظام میں نمائندوں کا انتخاب ایک ایسا عمل ہے جو عوام کی سیاسی سوچ اور سیاسی کلچر کی عکاسی کرتا ہے، اور یہ ثابت کرتا ہے کہ اکثریت میں عوام کیا چاہتے اور کیا سوچ رکھتےہیں۔ اب اگر پاکستان مسلم لیگ (ن) اور متحدہ قومی مومنٹ سمیت دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کا جائزہ لیں اور انِ سیاسی و مذہبی جماعتوں کی کارکردگی کو عوام کے سیاسی شعور، پاکستان کی ترقی اور یکجہتی کے ترازو میں تولیں تواسِ میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہونی چائیں کہ 1970 کے عام انتخابات جس کے بعد پاکستان دو ٹکڑے ہوا اور مغربی پاکستان صرف پاکستان رہ گیا، تقریبا آدھے وقت فوجیوں نے حکمرانی کی اور آدھے وقت انہی فوجیوں کی کوک سے جنم لینی والی سیاسی جماعتوں نے ۔ آج کے انتخابی نتائج یہ ثابت کر رہے ہیں کہ انِ سیاسی جماعتوں نے پاکستان کی عوام کی سوچ انتی منقسم کر دی ہے کہ شاید اب پاکستان میں کوئی سیاسی جماعت پاکستان کے چاروں صوبوں میں اکثریت نہ لے سکے۔مذہبی جماعتوں کی اگر بات کی جائے تو انِ جماعتوں کے پاس اسٹریٹ پاور بھلے رہا ہو لیکن ووٹ بینک نہیں رہا۔ تین سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن)، متحدہ قومی مومنٹ تین طاقتور اور لمبے دورانیہ کے فوجی آمروں کی اقتدار کو طول دینے کی ضرورت رہی ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقارعلی بھٹو نے پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان کی گود سے جنم لیا اور اپنی جماعت ایوب خان کے فوجی دورِ حکومت کے ساتھیوں کے ساتھ ملِ کر پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بانی نواز شریف فوجی آمر ضیاالحق کے دورِ اقتدار کی پیداوار ہیں اور انہوں نے اِسی فوجی دور میں اپنی جماعت کی بنیاد ڈالی۔ متحدہ قومی مومنٹ کی بنیاد الطاف حسین نے ضیاالحق کے دور میں رکھی اور اسی دور میں متحدہ قومی مومنٹ کو مضبوط کرنے کے لئے ضیاء الحق نے انہیں کلین چٹ دی اور پھر پچھلے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے دور میں متحدہ قومی مومنٹ کو ہر طرح کے ساز و سامان سے مضبوط کرکے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ایک تیسری قوت کے طور پر کھڑا کیا گیا۔نئے کھلاڑی عمران خان نے تحریک انصاف کی بنیاد 90 کی دھائی میں رکھی مگر جنرل پرویز مشرف کے دور میں تحریک انصاف پر بھی بہت زیادہ نظر کرم رہی اور مشرف صاحب نے ایک سیکنڈ آپشن کے طور پر تحریک انصاف کو اپنے دوسری جیب میں رکھا۔ اپنی یاسی قوت مومنٹ کو مضبوط کرنے کے لئے کلین چٹ دی گئی اور پھر پچھے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے دور میں متحد مجموعی طور پرریاستی پاور کے منظر نامہ کو دیکھیں تو تین لمبے دورانیے فوجی جرنیلوں کے ہیں؛ جنرل ایوب خان، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف اور پاکستان کے نام نہاد جمہوری سفر نامہ کو دیکھیں تو انِ تین جرنیلوں کی بنائی ہوئی یا ان پر نظر کرم رکھی گئی یہ ہی جماعتیں پاکستان کے اقتدار پر جمہوریت کے نام پر پچھلے چالیس سال سے قابض ہیں، یعنی پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ(ن)، متحدہ قومی مومنٹ اور چوتھے سیکنڈ آپشن کے طورپر لائن میں لگی ہوئی تحریک انصاف جو شاید فوجیوں کا مستقبل میں نواز شریف کے بعد دوسرا سیاسی کارڈ ہوگا۔
اب آئیے انتخابات کے نتائج کی طرف، جیسے میں پہلے بیان کیا انتخاب کے نتائج ترجمانی اور عکاسی کرتے ہیں عوام کی اکثریت کے سیاسی شعور اور قومی احساسِ ذمہ داری کا۔ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور متحدہ قومی مومنٹ اگر ان جماعتوں کی کارکردگی ملک و قوم کے مفاد میں دیکھیں تو بیان کریں تو بیان کرنے کو کچھ نہیں صرف ایک افسوس ناک داستان کے جس کی وجہ یہ ہے کہ پچھلے 40 سالوں میں پاکستان شرمندگی کی حد تک دنیا کے باقی ہم پلہ ممالک کے مقابلہ میں بد سے بدتر ہو گیا ہے، قومی قرضے اربوں ڈالرز تک پہنچ گئے ہیں، قومی ادارے تباہ ہو گئے ہیں، عام آدمی کی حالت بد سے بدتر ہو گئی ہے، کرپشن، تشدد، ماردھاڑ، جھوٹ اور نا اہلی ایک کلچر بن گیا ہے۔ حتاکہ ان جماعتوں کے پیروکاروں کی اپنے حالات زندگی غیر ہیں ، نا اچھی نوکری ہے، نہ پانی ہے، نہ بجلی ہے، نہ سڑکیں ٹھیک ہیں ، نہ نکاسی کا نظام ٹھیک ہے، نہ تعلیم ہے اور نہ صحت پھر بھی ان پیروکاروں کا اپنی جماعتوں سے لگائو اور بڑھ گیا ہے۔آج بلدیاتی انتخابات نے نتائج نے مرتبہ پھر اِس حقیقت کو ثابت کر دیا ہے جس کا ذکر میں اپنے تجزیوں میں بارہا کرچکا ہوں کہ اقتدار کے چار دھائیوں پر محیط نظام نے پاکستانی عوام سے پاکستانیت چھین کر ان کی دلِ و دماغ میں صوبائیت، لسانیت، فرقہ واریت، ذات برادری اور شخصیت پرستی کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے۔ اب شاید وہ لوگ جو پاکستانیت اور نظریہ پاکستان کی بات کرتے ہیں وہ گونگے بہرے لوگوں کےسامنے نقارے پیٹ رہے ہیں جس سے انِ گونگے بہرے لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی انِ کی سماعت اور بینائی واپس آنی ہے۔
ہاں اگر کسی کو فرق پڑتا ہے تو وہ ہمارے باپ دادا کی قربانیوں اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور انکے تحریکی ساتھوں کے بنائے ہوئے پاکستان کو جنہوں نے نظریہ پاکستان کو حقیقی روپ دیا اور اسِ دنیا میں اُس کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کو جنم دیا۔
آج پاکستان میں رائج نظام جس کو جمہوریت کا نام دیا جاتا ہے کو چلانے والوں کا انتخاب پاکستان کی اکثریتی عوام جس بنیاد پر کر رہی ہے وہ نظریہ پاکستان اور قومی مفاد کی نفی کرتا ہے۔ ورنہ جو عناصر پاکستان کے لئے باعثِ شرم ہیں انہی کو عوام یکہ بعد دیگر پچھلی چار دھائیوں سے سر پر نہ بٹھاتی اور نہ ہی پاکستا ن کو مذہب اور سیاست دونوں کے نام پر جن مذہبی اور سیاسی بازیگروں نے لوٹا ہے انہی کو پاکستان کی اکثریتی عوام نہ موقع دیتی کہ آئو اقتدار میں بیٹھو کیونکہ آ پ ہمارے پنجابی ، سندھی،پٹھان یا مہاجر بھائی ہیں؛ آئو پاکستان کی قومی دولت لوٹو اگر عوامی اور ملکی مفاد میں کام نہ بھی کیا تو کیا فرق پڑتا ہےکیونکہ آپ تو ہماری برادری سے ہیں، ہمارے علاقے سے ہی اور ہمارے ہم زبان ہیں۔ اگر آپ پاکستان کی تذہیک کا باعث ہیں تو کیا فرق پڑتا ہے آپ ہمارے شہر اور گائوں کے تو ہیں۔
اگر کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں کی بات کریں تو ایک مرتبہ پھر یہاں کی اکثریتی عوام نے جیت متحدہ قومی مومنٹ کی جھولی میں ڈال دی ہے جس پر یقینا متحدہ قومی مومنٹ اور الطاف حسین مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تعصب اور نا انصافیوں کے خلاف اٹھنے والی آواز کو ریاستی طاقت اور فوجی آپریشنز کے ذریعہ ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ متحدہ قومی مومنٹ کا ووٹ بینک برقرار رہنے بلکہ اور مزید بڑھنے کی وجہ سندھ کے شہری علاقوں کے اردو بولنے والوں کے ساتھ پچھلے چالیس سال سے جاری تعصب اور نا انصافیوں کی عکاسی ہے ۔آج اگرسندھ کے پولس کے محکمہ کو دیکھیں تو ایک عام پولس آفیسر سے لیکر آئی جی سندھ تک اردو بولنے والے شہری کے علاہ ہر دوسری زبان بولنے والا ہے جبکہ سندھ میں اردو بولنے والوں کی آبادی سندھ کی آبادی کا چالیس فیصد سے زیادہ ہے، اور یہ صرف ایک مثال ہے ریاستی نا انصافی کی۔جب تک یہ تعصب اور نا انصافیاں جاری رہیں گی متحدہ قومی مومنٹ کا ووٹ بینک بر قرار رہے گا۔ سندھ کے شہری علاقوں کے رہنے والے اگر متحدہ کے ساتھ ہیں تو اس کی وجہ ان کے اندر آمروں، جاگیرداروں ، وڈیروں کا وہ خوف ہے جس کا حل وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بس الطاف حسین اور ایم کیو ایم کےساتھ جڑے رہو کیونکہ اسی طرح سے وہ ظلم و زیادتیوں سے آزادی لے پائیں گے اور یہ نا انصافیوں کا بازار ایسے ہی گرم رہا تو جلد ہی متحدہ قومی مومنٹ پاکستان سے علیحدگی کا نہیں تو سندھ سے علیحدگی کا نعرہ ضرور لگائے گی۔ لحاظہ اگر پاکستان کی ریاستی طاقتیں پاکستان کو بچانا چاہتی ہے تو ان نا انصافیوں کا سدباب کرنا ہوگا۔ افسوس یہ مقام یہ ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بھی ریاستی طاقتوں نے کچھ نہیں سیکھا۔جہاں تک متحدہ قومی مومنٹ کی جیت اور اب نئی کراچی اور حیدرآباد کی شہری حکومتوں کا تعلق ہے تو دیکھیں متحدہ اپنے لوگوں کے لئے کیا کرتی ہے۔ متحدہ قومی مومنٹ کے پیروکار یقینا اب یہ گارنٹی دیں گے کہ اب کراچی اور حیدرآباد کے شہروں میں پولس سے لیکر صحت، تعلیم، صفائی، روزگار کا اعلی نظا ہوگا، انِ شہروں میں تعلیم اور سرکاری نوکری میں تعصب کا خاتمہ ہوجائے گا، ہر عام و خاص کو انصاف ملے گا اور کراچی جس طرح سے ماضی میں متحدہ کے دور میں روشنیوں کا شہر تھاایک مرتبہ روشنیوں سے جگمگا اٹھےگا اور پھر کراچی پاکستانیوں کے نام سے نہیں مہاجروں کے نام سے جانا جائے گا۔
نا جانے کیوں مجھے ایک مرتبہ پھر قائد اعظم محمد علی جناح کا پاکستانیوں سے وہ خطاب یاد آگیا جس میں انہوں نے کہا تھا اگر تمہیں کوئی چیز متحد رکھ سکتی ہے اور دنیا میں عزت کا مقام دلا سکتی ہے تو نظریہ پاکستان اور اسلام ہے ورنہ تم سندھی، پنجابی، پٹھان ، بنگالی اور بلوچ تو پہلے بھی تھے۔