اللہ کي شان ہے کہ نواز شريف، جنھوں نے زندگي ميں کبھي اليکشن نہ کرائے اور 2008 ميں دو دفعہ اس کا بائيکاٹ کيا، اب اس کے التوا کے سخت خلاف ہيں? عمران خاں بھي ان کے آواز ميں آواز ملا رہے ہيں، بغير سوچے کہ التوا ہي ميں تحريک انصاف کا فائدہ ہے کہ اس کے بڑے حريف ميدان سے باہر ہو جائيں گے? ميڈيہ ميں کچھ لوگ بھي ان کي قوالي ميں ہمنوا بن کر تالي بجا رہے ہيں? ان کي نظر ميں فوري انتخاب ميں ڈاکو لٹيرے پھر سے آ جائيں تو اچھي بات ہے ليکن اگر ان کي صفائي کرنے کے بعد اليکشن ہوں تو بري بات ہے? البتہ طاہر القادري خاموش ہيں? غالبا انھيں پتہ ہے کہ التوا تو ہونا ہي ہے? پھر شور مچانے کا کيا فائدہ؟ اسي ليئے وہ اب کسي عدالت سے رجوع نہيں کر رہے اور نہ کوئي تحريک چلا رہے ہيں?
اليکشن نہ موجودہ حکومت ملتوي کر سکتي ہے اور نہ اليکشن کمشن? التوا کا فيصلہ عبوري وزير اعظم کرے گا، جو ابھي منظر عام پر نہيں آيا? جو نام ميڈيہ ميں ليئے جا رہے ہيں وہ محض قياس آراِئي ہے? وزير اعظم کو نامزد نہ حکومت کر پاَئے گي اور نہ اپوزيشن? بقول نجم سيٹھي، جو نامزد ہوگا وہ دونوں کو ناپسند ہوگا?
قومي اسمبلي کي تحليل کے بعد ہي پارليماني کميٹي عبوري وزير اعظم کے ليئے ناموں پر غور کرے گي? اس نے 72 گھنٹوں ميں فيصہ کرنا ہے? وہ 72 دنو?ں ميں بھي اتفاق نہيں کر پائے گي? (چيف اليکشن کمشنر پر اتفاق ميں سال سے زيادہ عرصہ لگا تھا?) چنانچہ معاملہ چيف اليکش کمشنر کے پاس چلا جائے گا? وہ اسي کو نامزد کريں گے، جس کا نام انھيںيںھھ
ديا جائے گا? جنھوں نے نامزد کرنا ہے (بلکہ کر چکے ہيں) وہ راز کو راز رکھنا اچھي طرح جانتے ہيں?
مردم شماري کا آغاز
عبوري وزيراعظم ديکھے گا کہ مردم شماري، جو ہر دہائي کے پہلے سال ميں ہوني چاہيئے، 15 سال سے نہيں ہوئي? اگر آبادي ميں ہرسال دو في صد اضافہ ہو تو 30 في صد اور تين في صد ہو تو 45 في صد کا اضافہ ہو چکا ہوگا? چنانچہ وہ آتے ہي اس کے ليئَے حکم جاري کر دے گا?
قانون کے مطابق، ہر دہائي کے پہلے سال ميں مردم شماري ضروري ہے? ستم ظريفي يہ ہے کہ کسي سياسي حکومت نے کبھي مردم شماري يا تو کرائي ہي نہيں? اگر ايک دفعہ کرائي بھي (1998 ميں) تو سات سال کي تاخير سے? ستمبر 2011 ميں صرف 10 دن پہلے آصف زرداري نے مردم شماري روک دي کيوں کہ کسي نے ان کے کان ميں پھونک مار دي کہ شہروں کي آبادي 15 سالوں ميں بہت بڑھ چکي ہے? اس ليئے سندھ ميں م? ق? م? کي سيٹں بڑھ جائيں گي? زرداري کي بلا جانے کہ مردم شماري کي کيا اہميت ہے?
اگر اپريل ميں خانہ شماري ہو جائے تو چھ ماہ بعد گھر گھر جا کر مردم شماري ہوگي? چند ماہ مردم شماري کے نتائج مرتب کرنے ميں لگيں گے? پھر آئين کي دفعہ 222 کے تحت اليکشن کمشن حلقہ بندي کرے گا، جو ہر مردم شماري کے بعد لازمي ہوتي ہے? حلقہ بندي کے بعد اعتراضات کا موقع ديا جائے گا، جن کے تصفيہ ميں وقت لگے گا? پھر ووٹر لسٹوں کو بھي اپ ڈيٹ کرنا ہوگا? کل ملا کے آئيني تقاضے پورے کرنے ميں ڈيڑھ دو سال تو لگ ہي جائيں گے? اس کے بعد ہي اليکشن کا ڈول ڈالا جا سکے گا?
دريں اثنا، عبوري وزير اعظم آتے ہي احتساب شروع کر دے گا? اکتوبر 2002 سے (جب پچھلي منتخب حکومت قائم ہوئي) اب تک خفيہ ايجنسياں حکومت ميں اور حکومت سے باہر سياست کاروں کي سياہ کاريوں کي تفاصيل جمع کرتي چلي آ رہي ہيں? اس کے تحت احتساب ميں جلدي کي جائے تب بھي ڈيڑھ دو سال سے پہلے کام مکمل نہيں ہوگا? اتنا ہي عرصہ معيشت کي بحالي ميں لگ جائے گا?
وزيراعظم اليکش کمشن سے کہے گا کہ اسے متوقع اميدواروں کے خلاف جو بھي کوائف مليں وہ انھيں اپني ويب سائيٹ پر ڈالتا جائے تاکہ نااہل ہونے والوں کو کاغذات نامزدگي جمع کرانے کي زحمت نہ اٹھاني پڑے? جسے کوائف پر اعتراض ہوگا وہ اپني صفائي ديتا پھرے گا? (آج کل قرضے معاف کرانے، ٹيکس نہ دينے، نيب سے سزا پانے والوں، بجلي اور گيس کے بل ادا نہ کرنے والوں کے کوائف جمع کيئے جا رہے ہيں? ابھي اور کئي دوسروں کے نام آئيں گے?)
عدالت عظمي سے مہلت طلبي
دريں اثنا، عبوري وزير اعظم عدالت عظمي سے رجوع کرے گا? وہ موقف اختيار کرے گا کہ مرکز اور صوبوں ميں موجودہ حکمران دوبارہ اقتدار ميں نہيں آنے چاہيئيں کيوں کہ اس طرح اب تک جو تباہي اور لوٹ مار ہوئي ہے (جس کا عدليہ بھي سنگين نوٹس لے چکي ہے) اس سے اگلے پانچ سال ميں کہيں زيادہ ہوگي? جب تک کڑا احتساب کر کے صفائي نہيں ہو جاتي، اليکشن کرانے سے کوئي فائدہ نہ ہوگا? اگر پارٹيوں نے سارے حلقوں ميں چور اچکوں ہي کو پہلے کي طرح اميدوار بنا ديا اور دھن، دھونس اور دھاندلي سے کام ليا تو اليکشن سے کيا حاصل ہوگا؟ آئين کا تقاضہ اپني جگہ ليکن عوام کے مفاد سے برتر نہيں ہو سکتا? اليکشن عوام کو بہتر حکمراني دينے کے ليئے کرائے جاتے ہيں، لوٹ مار کرنے والوں کو من ماني کرنے کا موقع دينے کے ليئے نہيں?
دوسرے، سنگين بدعنوانيوں سے جو معيشت کے ہر شعبہ ميں تباہي لائي گئي، اس کے اثرات ختم کرنے کے ليئے دن رات کام کرنا ہوگا? اليکشن سے پہلے يہ کام نہائت ضروري ہے اور اس کے ليئےوقت چاہيئے?
تيسرے، دہشت گردي ختم کرنے اور امن عام بحال کرنے کے ليئے بھي وقت درکار ہوگا? اگلے سال کے وسط تک امريکہ افغانستان سے چلا جائے گا تو امن بحال کرنے ميں مدد ملے گي?
وزير اعظم کہے گا کہ اس کا کوئي سياسي ايجنڈہ نہيں? اس نے نہ اليکشن لڑنا ہے اور نہ اس کي کوئي پارٹي ہے? چنانچہ وہ صرف بنيادي اصلاحات کرنے اور اليکشن کے ليئے سازگار حالات پيدا کرنے کے ليئے وقت چاہتا ہے? عدالت عظمي نے انھي جيسے کاموں کے ليئے جنرل ہرويز مشرف کو تين سال ديئے تھے? اب کيوں نہيں ايسا کيا جا سکتا؟
اليکشن کے التوا کے خلاف درخاست
فرض کريں کہ نواز ليگ يا کسي اور کي طرف سے عدالت عظمي ميں درخاست دي جاتي ہے کہ اليکشن ميں تاخير سے آئين کي خلاف ورزي ہوگي? اس پر عبوري وزير اعظم آئين کي دفعہ 254 عدالت کے سامنے رکھ دے گا، جس ميں کہا گيا ہے:
254. When any act or thing is required by the Constitution to be done within a particular period and it is not done within that period, the doing of the act or thing shall not be invalid or otherwise ineffective by reason only that it was not done within that period.
اگر عدالت عظمي سني ان سني کر کے اصرار کرے کہ اليکش ہر صورت ميں فوري طور پر کرا ديئے جائيں تو عبوري وزير اعظم نہائت ادب سے کہے گا کہ آُپ جو چاہے حکم ديں ليکن پرنالہ وہيں رہے گا? اگر آپ اپنے حکم کي تعميل کے ليئے دفعہ 190 کے تحت فوج کي مدد لينا چاہيں تو شوق پورا کر ليں? جب ميں ہيئت حاکمہ (اسٹيبلشمنٹ) ہي کي ہدائت پر کام کر رہا ہوں تو آپ کي کون سنے گا؟ چيف جسٹس سجاد علي شاہ نے فوج کي مدد طلب کر کے کيا حاصل کر ليا تھا؟ پھر عوام بھي جلد اليکشن کے خاہشمند نہيں? انھيں تو امن اور معيشت کي بحالي کي فکر زيادہ ہے? چنانچہ عدالت اليکشن ميں التوا کي اجازت دينے پر مجبور ہوگي?
اليکشن کمشن کي تشکيل نو
اليکشن کمشن کو في الحال چلنے ديا جائے گا? (جب تک اليکشن کا وقت نہيں آئے گا کمشن کو قائم رکھنے ميں کيا حرج ہے؟) اگلے سال کے شروع ميں اس کي تشکيل نو کي جائے گي? اس وقت تک عدالت عظمي کے موجودہ چيف جسٹس سبکدوش ہو چکے ہوں گے (اس سال دسمبر ميں)? ان کي جگہ عبوري وزير اعظم ايسے جج کو چيف جسٹس بنائے گا جو اس کا ہم خيال ہوگا اور قدم قدم پر روڑے اٹکانے کي بجائے پوري طرح تعاون کرے گا? اس طرح احتساب اور اصلاحات ميں رکاوٹ نہيں پڑے گي?
عدالت عاليہ (ہائي کورٹ) ميں، جو سياسي دبائو سے آزاد ہو چکي ہوگي? اليکشن کمشن کي تشکيل کو آئين کي دفعہ 199 کے تحت چيلنج کيا جائے گا? عدالت تشکيل نو کا حکم دے دے گي اور عدالت عظمي اس کي توثيق کر دے گي?
جب مطلع صاف ہو جائے گا تو کيا ہوگا؟
بقول چودھري نثار علي، اسمبليوں کے موجودہ ارکان ميں سے 90 في صد نااہل ہو جائيں گے? پارٹيوں کي اعلا قيادت اور سابق ارکان ميں سے بھي بہت کم بچ پائيں گے? پھر پارٹيوں ميں سے ڈھونڈے سے شائد ہي کوئي نظر آئے گا، جو قيادت سنبھال سکے? چنانچہ سب بڑي پارٹيوں کا شيرازہ بکھر جائے گا? وہ خود مطالبہ کريں گي کہ اليکشن ملتوي کر ديئے جائيں تاکہ وہ تھوڑے بہت نئے اميدوار کھڑے کر پاِئيں? جو پہلے کبھي اقتدار ميں نہيں آئے، صفائي کے بعد ان کا مستقبل روشن ہوگا (جيسے تحريک انصاف اور عوامي تحريک)?
يوں، بقول شاعر،
گلياں ہو جان سنجياں تے وچ مرزا يار پھرے
گلياں سوني ہو جانے کے بعد کون مرزا يار ميدان ميں رہ جائے گا؟ عمران خاں اور طاہرالقادري تو نہيں ہوں گے? پھر کون ہوگا؟ وقت آنے پر پتہ چل جائے گا? اتني بھي کيا جلدي ہے؟
الله حافظ!
محمّد عبد الحميد
مصنف، “غربت کيسے مٹ سکتي ہے” (کلاسک پبلشر، لاہور)
1 Comment
Comments are closed.