سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا؛
متحدہ قومی مومنٹ (ایم کیو ایم )کے قائد الطاف حسین نے پچھلی رات ایک مرتبہ پھر اپنی جماعت کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ جماعت کی قیادت سے سکبدوش ہو رہے ہیں اور تنظیم کی قیادت رابطہ کمیٹی کے سپرد کر رہے ہیں۔ یہ بے شک الطاف حسین اور انکی تنظیم کا ذاتی معاملہ ہے کیونکہ ایم کیو ایم کے اندر کیا ہو رہا ہے وہ تو الطاف حسین صاحب، انکی رابطہ کمیٹی کے اراکین اور کسی حد تک عام کارکن جانتے ہیں مگر الطاف حسین صاحب نے پاکستان بالخصوص سندھ میں بسنے والے تمام اردو بولنے والوں کے متعلق بہت سارے سوالات اٹھائے ہیں لحاظہ آزادی رائے کا حق رکھتے ہوئے ہر اردو بولنے والے پاکستانی کا بھی حق ہے کہ وہ بحیثیت پاکستانی اپنی رائے دوسرے پاکستانیوں تک پہنچائے۔ الطاف حسین صاحب اور انکے کراچی یو نیورسٹی کے ساتھیوں نے مہاجر اسٹوڈینٹس فیڈریشن کے نا م سے ایک طلبا تنظیم کی بنیاد ۱۹۷۷ اور ۱۹۷۸ کے دوران رکھی، اور اردو بولنے والے جن کو الطاف حسین نے مہاجر کے نام سے متعارف کرایا ورنہ اس وقت تمام ہی اردو بولنے والے طلبا ایسے تھے جو پاکستان میں پیدا ہوئے تھے بے شک انکے ماں باپ قیام پاکستان کے وقت ہندوستان سے ہجرت کرکے آئے اور حقیقت یہ ہے کہ ہجرت صرف اردو بولنے والوں نے نہیں کی بلکہ پنجابی، بنگالی، گجراتی وغیر ہ بہت سی مختلف زبانوں ، فرقوں اور برادریوں کے لوگوں نے پاکستان کو اپنا اور اپنی آئندہ نسلوں کے لئے وطن بنانے کے لئے کی تھی۔
میں بحیثیت ایک سیاسی تجزیہ نگار اپنا ذاتی مسلہ یا ذاتی تجربات اور مشاہدات اپنے مضمون میں شامل نہیں کرتا مگر اسِ مضمون کا تعلق ایک ایسے مسئلے سے ہے کہ جس کا تعلق میری ذات ، خاندان اور طبقہ سے ہے لحاظہ میں کچھ چیزیں ضرور بیان کرنا چاہوں گا صرف اور صرف اسِ لئے کہ یہ جوابات ہیں الطاف حسین کی کہی گئی کئی باتوں کا۔ الطاف حسین صاحب آپ کے ماں باپ نے بھی اسی شہر آگرہ سے ہجرت جس شہر سے میری ماں کا تعلق تھا ۔ آپ نے کراچی میں پرورش پائی اور کراچی یونیورسٹی میں طلبا سیاست کی ،یقینا آپ کو اسِ بات پرنہیں مارا پیٹا گیا ہوگا کہ آپ اردو بولتے ہیں مگر مجھے اور سینکڑوں اندورنِ سندھ میں تعلیم حاصل کرنے والوں کو اسیِ بات پر آئے دنِ مارا پیٹا جاتا تھا۔ میں پاکستان کے سب زیادہ نظر انداز کئے جانے والے شہر حیدرآباد میں پیدا ہوا اور اس سندھ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی جہاں اردو اور پنجابی بولنے والوں کو آزادی کے ساتھ تعلیم حاصل نہیں کرنے دی جاتی تھی۔
میں یہ جانتا ہوں کہ الطاف حسین نے اپنی جماعت کے کارکنوں کی تربیت اسِ طرح سےکی ہے کہ وہ الطاف حسین اور انکی جماعت کے خلاف کوئی بات سننا برداشت نہیں کرتے بالکل اسی طرح جیسے کوئی اپنے مذہب کے خلاف بات سننا گوارا نہیں کرتا ۔ مگر سچ بات کہنا اور ایمانداری سےاپنا کام کرنا میری ساری زندگی کا معمول رہا ہے اور میرے پروفیشن کی ضرورت بھی ہے۔
اسِ میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں زبان، فرقہ، برادری اور صوبے کی بنیاد پر تعصب ہوتا ہے۔ اور اسِ کی مثالیں اتنی ہیں کہ میں ایک کتاب قلمند کر سکتا ہوں۔ حتاکہ اندورنِ پنجاب سرائیکی اور پنجابی بولنے والوں کے درمیان ایک تنائو ہے۔بلوچستان میں پنجانی اور اردو بولنے والوں کو گولیاں ماری جاتی ہیں۔ خیبر پختوں خواہ میں پنجابی بولنے والوں کو پسند نہیں کیا جاتا اور اردو بولنے والوں کو ہندوستانی کہا جاتاہے۔ کافی عرصہ قبل بیگم نسیم ولی خان نے اس وقت کے کئی سنیٹرز کے ساتھ سڈنی کا دورہ کیا۔ میں نے انُ سے انٹرویو کے لئے ملاقات کی ، انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ میرا تعلق پاکستان میں کہاں سے ہے میں نے کہا سندھ سے انہوں نے کہ آپ ہندوستانی ہو میں نے جواب دیا نہیں میں حیدرآباد سندھ میں پیدا ہوا ہوں لحاظہ سندھی ہوں توبیگم صاحبہ نے فرمایا کہ بات ایک ہی ہے آپ مہاجر ہو۔ سندھ یونیورسٹی میں چار سال ( ۱۹۷۴۔۱۹۷۸) کا عرصہ اس وقت گزارا جب الطاف حسین صاحب کراچی میں آل پاکستان اسٹوڈینٹس فیڈریشن کی مہم سازی کر رہے تھے اور حیدرآباد اکثر اپنی جماعت کی تنظیم سازی کے لئے آتے رہتے تھے۔ سندھ یونیورسٹی میں اردو اور پنجابی بولنے والوں کو جی ایم سید کی تنظیم جئے سندھ کے کارکن مارا پیٹا کرتے تھے، جو اس وقت سندھ یونیورسٹی کے طلبا تھے وہ میری اسِ بات کی تائید کریں گے۔ میں نے بھی کئی مرتبہ مار کھائی۔ پھر ۱۹۸۵ میں جب میں اپنی تعلیمی اسناد لیکر سندھ یونیورسٹی کی ایڈمینسٹریشن بلڈنگ سے واپس آرہا تھا تو کچھ لوگوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں کون ہوں اور پھر اردو میں جواب دینے پر مجھے مار مار کر بے ہوش کر دیا اور میری گریجویشن اور ماسٹرز کی ڈگریاں پھاڑ دیں گئیں۔ اسِ طرح کے بے شمار واقعات میری آنکھوں کے سامنے دوسرے اردو بولنے والے طلبا کے ساتھ بھی ہوئے۔ مگر پھر میں نے جب تعلیم مکمل کی تو مجھے ۲۱ سال کی عمر میں سترہ گریڈ کی نوکری کراچی پورٹ ٹرسٹ میں بغیر کسی سفارش کے ملِ گئی اور پھر تین سال بعد اٹھارہ گریڈ میں ترقی بھی ہوگئی جس وقت میر ی عمر صرف ۲۵ سال تھی۔ میرےبیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تعصب، نا انصافی اور اشتعال انگزیزی پاکستان کے جاگیردارانہ اور آمرانہ نظام کا حصہ ہے مگر تمام نظام اور نظام کے اندر تمام لوگ اسِ کا نہ شکار ہوئے اور نہ ہی انہوں نے اسِ کو پروان چڑھایا۔
الطاف حسین صاحب نے اپنی تقریر میں کہاکہ پاکستان میں انُ کو ، جنرل پرویز مشرف اور کئی اردو بولنے والوں کو پاکستانی نہیں سمجھا جاتا۔ اگر الطاف حسین کو پاکستانی نہیں سمجھا جاتا تو کیا وجہ ہے کہ پاکستان کی دوسری بڑی جماعتوں کے قائدین الطاف حسین کو ہر قومی معاملات میں فون کرتے رہتے ہیں۔ اگر پرویز مشرف کو پاکستانی نہیں سمجھا گیا تو وہ پاکستانی فوج کے اعلی عہدہ تک کسِ طرح پہنچے اور پھر کیا جنرل پرویز مشرف بھی اسِ بات سے متفق ہیں جس کا رونا الطاف حسین صاحب کر رہے ہیں۔ میرا خیال ہے اسِ طرح کی بات پرویز مشرف کے متعلق کرنے سے الطاف حسین صاحب پرویز مشرف صاحب کو مزید مشکل میں تو ڈال سکتے ہیں انکی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔
میرے باپ دادا نے تحریک پاکستان میں عملی طور پر حصہ لیا اور پاکستان بننے کے بعد میرے والد نے عملی طور پر نظریہ پاکستان کے پرچم کو بلند کیا اور سندھ میں بلا تفریق تمام باشندوں کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی۔ انہوں نے کبھی اردو اور سندھی بولنے والوں میں تفریق نہیں کی ۔ ہمارے خاندان میں بہت سے افراد کی شادیاں سندھی اور پنجابی بولنے والوں میں ہوئیں ۔ میرے والد کہا کرتے تھے کہ سندھ ہمار ی زمین ہے اور یہاں کے دوسرے طبقات کے ساتھ بھائی چارے کے ساتھ رہنے کے لئے ضروری ہے کہ آپس میں شادی بیاہ ہوں، کاروبار ہو، سیاست ہو وغیرہ وغیرہ۔انکی باتوں کو جتنا اردو بولنے والے سراہتے تھے اتنا ہی دوسری زبانیں بولنے والی بھی سراہتے تھے۔ مگر سندھ کا ایک مخصوص ٹولہ سندھو دیش کا نعرہ لگا کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے اردو اور سندھی بولنے والوں کے درمیان دیوار کھڑی کرنا چاہتا تھا۔ کیا وجہ ہے کہ جئے سندھ کا بانی اور سندھو دیش کا نعرہ لگانے والا جی ایم سید جس نے ہمیشہ اردو بولنے والوں کو پناہ گیر کر کے مخاطب کیا اور سندھی بولنے والوں سے کہا کہ سندھیوں پناہ گیر کو کبھی سندھی نہیں بننے دینا اور پناہ گیر کو ہمیشہ پناہ گیر بنا کر رکھنا کیونکہ اگر پناہ گیر نے سندھی بن کر سوچنا شروع کر دیا تو سندھ کی زبان وہ ہوگی جو پناہ گیر کی زبان ہے، سندھ کا لباس وہ ہوگا جو پناہ گیر پہنتا ہے اور تمھارا کھانا وہ ہوگا جو پناہ گیر کھاتا ہے۔ الطاف حسین نے جی ایم سید کے مقاصد کی تکمیل کردی۔مقصد یہ تھا کہ اگر اردو بولنے والوں کو مہاجر اور سندھی بولنے والوں کو سندھی بناکر رکھا جائے تو بہت سی سیاسی دکانیں چلتی رہیں گی۔ آج پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی سیاسی دکان بھی اسی وجہ سے پچھلے بیس سال سے سندھ میں چل رہی ہے۔ذرا سوچئے ، اب سندھ کی سیاسی کیفیت کیا ہے؟ جب تک ایم کیو ایم قائم رہے گی اس وقت تک سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم رہے گی۔کسِ نے کسِ نے ساتھ کیا کھیل کھیلا یہ ہر ذی شعور اور سیاسی سوچ رکھنے والا سمجھ سکتا ہے۔مگر افسوس سے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اردو بولنے والے جن کے خون میں پاکستانی نظریہ شامل ہے ان کے ہاتھ سے قلم چھین کر قلاشنکوف دیدی گئی۔ چُن چُن کر اردو بولنے والے دانشوروں ، ادیبوں، صحافیوں ، مفکروں کو قتل کر دیا گیا یا پاکستان چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔ کسِ نے یہ کھیل کھیلا اور کیوں کھیلا اور کس کو اس کا فائدہ ہوا یہ ہر ذی شعور آدمی سمجھ سکتا ہے۔
الطاف حسین صاحب نے کہا کہ اگر اسلام آباد کے ریڈ زون میں الطاف حسین جلسہ کرتا تو اس کے لوگوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جاتی۔ تو کیا الطاف حسین صاحب کو یہ معلوم نہیں کہ عمران خان کی تحریک انصاف کے قائدین میں کتنے اردوبولنے ہیں جنکا تعلق کراچی سے ہے۔ تحریک انصاف کا سیکریٹری جنرل عارف علوی صاحب جن میں سرے فہرست ہیں۔ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کی جماعت میں بیشتر سندھ سے اردو بولنے والے ہیں۔ اور پھر کل تک تو آپکے ایم کیو ایم کے کارکن دھرنے میں کھانا لیکر جا رہے تھے پھر اچانک آمد و رفت بند کیوں ہوگئی کہیں اسِ کے پیچھے ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے تعلقات تو کہیں۔ کہیں پر نگاہیں کہیں پر نشانہ۔ الطاف حسین صاحب دنیا بدل رہی ہے۔ سندھ میں اردو بولنے والوں کی ایک نسل جوان ہوگئی ہے جنہوں صرف بندوق، موت کے سائے، بے روزگاری اور جہالت کی زندگی کے سوا کچھ نہیں دیکھا یہ اسی طبقہ کی نسل تھے جن کے بارے میں پورے پاکستان میں یہ کہا جاتا تھا کہ یہ پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ آج اگر انِ کے پاس تعلیم نہیں ہے، اعلی نوکریاں نہیں ہے، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کسے نہیں معلوم کہ کراچی اور حیدرآباد میں اگر الطاف حسین کے خلاف کوئی اردو بولنے والا بات کرے گا تو اسے بوری میں ڈال کر موت کی نیند سلا دیا جائے گا۔
قائد اپنی عوام کے سامنے روتا نہیں ہے اور نہ عوام کو رُلاتا بلکہ ان کو حوصلہ دیتا ہے۔ ایم کیو ایم کو سیاست کے میدان میں آئے اور پھر سندھ اور مرکز میں زیادہ تر حکومت کا حصہ رہے کم و بیش تیس سال کا عرصہ ہو گیا اور کتنا وقت چائیے ہوتا ہےلوگوں کے حالات اور مسائل بہتر کرنے کے لئ؟ اور پھر سندھ کے اردو بولنے والوں کا مسلہ کیا تھا۔ صرف اور صرف یہ کہ ان کے ساتھ سرکاری نوکریوں اور تعلیمی اداروں میں تعصب نہ برتا جائے اور کوٹہ سسٹم جیسی لعنت کو ختم کیا جائے جس پر کہ نا تو ایم کیوایم نے کبھی دھرنا دیا اور نا ہی صوبے بھر میں ہڑتالیں کیں ،اور نا ہی ایوانوں سے استعفی دیئے جبکہ کئی مرتبہ کوٹہ سسٹم کی معیاد میں تو سیع ایم کیوایم کے اراکین کے ہوتے ہوئے ایوان سے منظوری کی گئی۔ پچھلے پندرہ سال سے ایم کیو ایم کا اردو بولنے والا گورنر سندھ میں قائم ہے ، پچیس قومیں سیٹیں قومی اسمبلی میں اور چالیس کے قریب سندھ اسمبلی میں پچھلے بیس سال سے ہونے کے باوجود بھی آپ نے آپ کے اردو بولنے والوں کے منشور پر کتنا عملدرآمد کرایا۔ کیا شہر ِ قائد میں صفائی کرانا ، چندہ جمع کرکےایمبولینس خریدنا اور آئے دنِ ٹیلیفون پر خطاب کرنے سے اردو بولنے والوں کی زندگیوں میں بہار آجاتی۔ بات بہت کڑوی ہے اور مجھے پتہ ہے کہ جس طرح سے آپ نے اپنے کارکنوں کی تربیت دی ہے وہ اسِ مضمون پر میرے خلاف خرافات شروع کردیں گے مگر اسی طبقہ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اور اعلی تعلیم، دانش اور تجزیہ نگار ہونے کے باعث بہت شرمندہ ہوں۔آج ہزاروں اردو بولنے والوں کا قتل کراکے، مسائل کو جوں کا توں رکھ کر، اور ایک پوری اردو بولنے والی نسل کو اپنے پیچھے لگا کر آپ لوگوں سے یہ کہہ رہے ہیں میں آپ کا گناہ گار ہوں اور آپ جس کو چاہے اپنا قائد بنا لیں میں اب اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں سکتا تو الطاف حسین صاحب جانے سے پہلے اسِ قوم کے نوجوانوں کو یہ بھی بتا دیں کہ آپ کی ذمہ داریاں کیاتھیں اور آپ کی تحریک آخر ہے کیا اور کسِ کے لیے ہے؟ کیونکہ کبھی آپ مہاجروں کے لیڈر ہوتے ہیں، کبھی آپ سندھیوں کے لئے لیڈر ہوتےہیں۔ آپ نے اپنی تحریک لوگوں کو پاجامہ اور کرتا پہنا کر شروع کی اور پھر انکو اجرک اور سندھی ٹوپی پہنا دی۔ کبھی آپ غریب بلوچوں کی بات کرتے ہیں، کبھی آپ کشمیر یوں کی آزادی کی بات کرتے ہیں، کبھی آپ پنجاب کے مظلوم طبقہ کی بات کرتےہیں۔ کبھی آپ سرائیکی صوبے کی بات کرتے ہیں، کبھی آپ غیور پٹھانوں کی بات کرتے ہیں اور پھر آپ یو ٹرن لیکر کبھی بہاریوں کی بات کرتے ہیں اور پھر جب کچھ نہیں بن رہا ہو تو پھر مہاجروں کے حقوق پر آجاتے ہیں۔ کبھی آپ فوج کی تعریف کرتے ہیں اور ان سے مدد بھی مانگتے ہیں اور کبھی آپ فوج اور اس کے خفیہ اداروں پر نالاں ہوتے ہیں، کیا یہی آپ کی تحریک کے مقاصد ہیں؟