:سید عتیق الحسن
پاکستان کے حکمران اور عوام پاکستان کی بدحالی اوربڑھتے ہوئے جرائم کا ذمہ دار عالمی طاقتوں، امریکہ، پڑوسی ممالک وغیرہ وغیرہ کوٹہراتے ہیں۔شاید میری یہ باتیں پاکستان کے نوجوانوں کو انوکھی اور حیرانکن لگیں مگر وہ لوگ جو 70 اور 80 کی دھائی میں طالبعلم تھے،مختلف شعبوں میں کام کر رہے تھے یا پھر معاشرے کے کسی اہم منصب پر فائز اپنی ذمہ داریاں سر انجام دے رہےتھے ماضی کی ان حقیقتوں سےانکار نہیں کریں گے جن کا ذکر میں اس مضمون میں قلم بند کر رہا ہوں۔ آئیے ؛ دنیا کو کو موردِ الزام ٹھہرانے سے پہلے اپنی گریبان میں جھانکیں اور دیکھیں کہ کیا یہ کہیں ہماری ہی کی ہوئی غلطیوں ، خطاوں ، لاپروائیوں یا پھر بے حسی کا فسانہ تو نہیں کیونکہ بے شک وہ خالقِ مطلق جو سب کا مالک ہے انصاف کرنے والا ہے۔
یہ کوئی بہت پرانے زمانے کی داستان نہیں بلکہ آج سے چند دھائیوں تک کی حقیقتیں ہیں جب پاکستان میں تہذیب، تمدن، عزت،تعلیم، شہری حقوق اور قومی تشخص جیسے معاشرتی عناصر پاکستان کے مجموعی معاشرہ کا زیور ہوا کرتے تھے۔
اگر تعلیم کی بات کریں توآسٹریلیا کی طرح شہر کے ہر علاقےمیں کونسل کی ایک لائبریری ہوتی تھی۔ جس میں زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق کتابیں سے آراستہ ہوتی تھی جن کو پڑھنے کے لئے کرائے پر گھر بھی لے جایا سکتا تھا یا پھر لائبریری میں موجودکمرہ ِمطالعہ میں بیٹھ کر استفادہ حاصل کیا جا تا تھا۔ اسِ لائبریری میں مشہور مقامی اور بین الاقوامی اخبار ات اور رسالے بھی دستیاب ہوتے تھے جس کے لئے ایک الگ جگہ ہوتی تھی جہاں لوگ روزانہ فارغ اوقات میں بیٹھ کرمطالعہ کرتے تھے اور پھر لائبریری سے منسلک کسی کیفے یا چائے کے کھوکے پر بیٹھ پر تعمیری بحث و مباحثہ کرتے پائے جاتے تھے۔ شہر میں ایک پاکستان سینٹر ہوا کرتا تھا جس میں شہرکی بڑی لائبریری ہوتی تھی جس میں اسکول سے لیکر یونیورسٹی کے طلبا کے لئے ہر شعبہ سے متعلق کتابیں میسیر ہوا کرتی تھیں۔ پاکستان سینڑ کا مقابلا شہر میں موجود برٹشِ(برطانوی) سینٹر یا امریکن سینٹر سے کیا جا تا تھا۔ پاکستان سینڑ میں بالخصوص قومی دنوں کے موقعوں پر قومی تشخص اور قومی و معاشرتی عنوانات پر بڑے تعمیری پروگرام منعقد ہوا کرتے تھے۔ان سرگرمیوں سے نوجوانوں کی فکری نشو و نما ہوتی تھی اور ان میں قومی ذمہ داری جنم لیتی تھی۔
سرکاری پرائمری اور ہائی اسکولوں میں اردو، فارسی ، عربی اور انگلش پڑھائی جاتی تھی اور بہت سے اسکولوں میں یہ لازمی مضامین ہوتے تھے۔ جس اسکول میں میں نے تعلیم حاصل کی وہاں ہمیں عربی اور فارسی میں سے کسی ایک مضمون کو لازمی پاس کرنا ہوتا تھا اور جبکہ اردو اور انگلش نصاب کے لازمی مضامین تھے۔
اگر صحت و صفائی کی بات کریں تو شہر کے ہر علاقے میں باقاعدگی سے بلدیہ کی طرف سے مچھر اور خطرناک کیڑے مکوڑے مارنے کے لئے شہر میں باقاعدگی سے سپرے کیا جاتا تھا۔ پرائمری اسکولوں میں محکمہ صحت کی طرف سے معمول کے طبی معائنہ کے لئے ڈاکٹرز آیا کرتے تھے جو بچوں کا معائنہ کیا کرتے تھے۔ سرکاری ہسپتالوں میں بہترین علاج ہوا کرتا تھا جو بالکل مفت تھا۔ ایمرجنسی کا بہترین نظام تھا، ہسپتالوں کی اپنی ایمبولینس سروسز ہوا کرتی تھی جو فوری طور پر ہر علاقے میں ہنگامی بنیادوں پر پہنچ جاتی تھیں۔
اگر کھیلوں کی بات کریں تو آسٹریلیا کی طرح ہر علاقے میں کھیلوں کے میدان ہوتے تھے۔ جمعہ یا اتوار کو باقاعدگی سے کھیلوں کی سرگرمیاں ہر میدان میں نظر آتی تھیں ۔ علاقے کی نامور شخصیات مختلف کھیلوں کے کلب کی سرپرستی کرتی تھیں۔شہر کے مختلف علاقوں میں خوبصورت پارک ہوا کرتے تھے جن میں لوگ اپنی اہل و خانہ کے ساتھ شام کے اوقات میں اپنے ساتھ کھانا لے کر جایا کرتے تھے، پھر مختلف لوگ مل جل ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے ، عورتیں اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں تبادلہ خیال پیش کر تی تھی، بچے کھیل و کود میں مشغول پائے جاتے تھے اور مرد حضراب علاقے، شہر کو ملک کے سماجی، معاشرتی اور سیاسی معلامات پر بحث کیا کرتے تھے۔
شہر میں ادبی، فنی ، تعمیری اور مختلف معاشرتی سرگرمیوں کی بات کریں تو بڑے بڑےعالمی مشاعرے، تقریری مقابلے، قرعات تلاوتِ قران اور نعتیہ مقابلے، اسٹیج ٹھیٹر، پاکستانی فلم فیسٹول غرض کہ ہر طرح کی سرگرمیاں سال کے مختلف اوقات میں جاری و ساری رہتی تھیں جن میں لوگ اپنی دلچسپی کے مطابق بڑھ چڑھ کر بڑےذوق و شوق سے شریک ہوا کرتے تھے۔
اگر پولس کے نظام کی بات کریں تو علاقے یا شہر کی پولس میں مقامی پولس افسران ہوا کرتے تھے، شہر اور علاقے کے معززین سے پولس افسران کا سلسلہ وار رابطہ معمول کی میٹنگ کے ذریعہ رہتا تھا۔ غرض کہ شہری اور محلہ کمیٹی کا علاقے کے تھانے سے رابطہ ہوا کرتا تھا۔ علاقے کے چھوٹے موٹے جرائم سے نمٹنے کے لئے محلہ کمیٹی کے افراد اور علاقے کے تھانے کے افسران بیٹھ کر ان پر قابو پانے کے راستے نکالا کرتے تھے۔ شہری اور محلہ کمیٹی کے افراد رضاکارانہ طور پر انِ سرگرمیوں میں حصہ لیا کرتے تھے۔ اور شہر اور محلہ کے مسائل کو اپنے گھر کے مسائل سمجھتے تھے۔میرے والد ، سید شفیق الحسن مرحوم،حیدرآباد سندھ کی شہری کمیٹی کے سرگرم رکن رہے جو اپنے آپ کو فخر سے ایک سماجی کارکن کہتے تھے۔
اگر سرکاری محکموں میں کام کرنے والا عملہ و افسران کی بات کریں تو ہر محکمہ میں تقرریاں قابلیت کی بنیاد پر ہوا کرتی تھی۔ نہ کوئی زبان کا مسلہ تھا ، نہ فرقہ کا اور نہ ہی علاقے کا جو اہل ہوتا تھا وہی منصب پاتا تھا۔
اگر شہر کی ٹرانسپورٹ کی بات کریں تو شہر میں لوگ زیادہ تر سرکاری ٹرانسپورٹ پر انحصار کرتے تھے۔ میرے شہر حیدرآباد سندھ میں ڈبل ڈیکر بس چلا کرتی تھی جو لندن، پیرس اور مشہور بین الاقوامی شہروں میں اب بھی چلا کرتی ہیں۔ کراچی میں لندن اور میلبورن کی طرح ٹریم چلا کرتی تھی جو شہر کی اہم شاہراہوں سے گزرتی ہوئی شہرکے مرکز پر ختم ہوتی تھی۔
کیونکہ اس وقت ریڈیو ہی الیکٹرانک میڈیا تھا لحاظہ لوگ بڑے ذوق و شوق سے ریڈیو سنا کرتے تھے۔ ریڈیو پر فن و موسیقی کے علاوہ تعمیری اور قومی تشخص کے پروگرام پیش کئے جاتے تھے۔ میں خود طلبا کے لئے ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے پروگرام بزمِ طلبا کا حصہ رہا ۔
اگر نوجوانوں کے فارغ الاوقات مصروفیات کی بات کریں تو شہر میں فن و موسیقی کے کلب ہوا کرتے تھے جہاں سے بڑے بڑے گلوکار اور فلمی دنیا سےتعلق رکھنے والے آرٹسٹ پیدا ہوئے ہیں۔ شہر میں قومی اور مذہبی دنوں پر قومی یکجہتی، قومی تشخص اور معاشرتی ذمہ داریوں کے حوالے سے تعمیری پروگرام شہر کی انجمنیں، مقامی حکومت اور مختلف فلاح و بہبود کے ادارے مل کر منعقد کیا کرتے تھے۔ لوگ انِ پروگراموں میں شریک ہونے اور ان کو کامیاب بنانے کے لئے مہینوں پہلے سے تیاریاں کرتے تھے۔
شہر، صوبے اور ملک میں روزگار اور مراعات کے حوالے سے جامہ پروگرام ہو کرتے تھے۔ لوگ بے روزگار نظر نہیں آتے تھے۔ شہر کا نوجوان ہو یا بزرگ سب میانہ روی کے ساتھ خوش تھے۔ لوگ صبر اور استقامت کے سنہری اصول پر عمل پیرا تھے۔چاہے لوگ تعلیم یافتہ ہوں یا ان پڑھ مذہب و انسانیت ان میں عملی طور پر نظر آ تی تھی۔
آج پاکستان میں دنیا میں ایجاد ہوئی ہر ٹیکنالوجی موجود ہے۔ بے شمار انٹرنیشنل ٹی وی چینلز ہیں۔ ہر مرد ، عورت اور بچے کے ہاتھ میں موبائل فون ہے۔ کمپیوٹرز کی ریل پیل ہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں رنگین اخبارات ہیں۔ ہر سطح کے بے شمار تعلیمی ادارے موجود ہیں۔ تھانے موجود ہیں، عدالتیں موجود ہیں، سرکاری محکمہ اور بڑھ گئے ہیں، سرکاری وزارتیں اور بڑھ گئیں ہیں۔ سیاسی جماعتیں بڑھ گئیں ہیں، سیاسی لیڈران سینکڑوں کی تعداد میں پیدا ہو گئے ہیں۔مگر کیا وجہ ہے کہ شہروں اور قصبوں سے لائبریریاں ختم ہوگئیں، کھیلوں کے میدان برباد ہوگئے ، پارک و باغات نشے کے آدی افراد سے آباد ہیں۔ انصاف کی بات تو بہت دور آج تھانے میں شریف آدمی جاتے ہوئے ڈرتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ آج مسجدیں تو نمازیوں سے بھری نظر آتی ہیں مگر اسلام کے سنہری اصول کہیں نظر نہیں آتے۔ کیا وجہ ہے کہ ٹی وی چینیلز سے سینکڑوں ٹاک شوز میں ملک و قوم کے بہتر مستقبل کی باتیں کی جاتی ہیں ، بے شمار مذہبی پروگرامز پیش جارہے ہیں مگر ریاست اور رعایا دونوں ہی بربادی کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کو تو بہت آزاد کر دیا مگر عام آدمی کی آواز سننے والا کوئی نہیں۔ کیا وجہ ہے کہ پولس تو موجود ہے، تھانے موجود ہیں اور عدالتیں کھلی ہیں مگر امن وسکون، انسانی حفاظت اور انصاف کہیں نظر نہیں آتا۔ کیا وجہ ہے کہ آج کم سنِ بچیوں کے ساتھ اجتماعی زیادتیاں ہو رہی ہیں، میڈیا دلِ ہلا دینے والی پورٹنگ کے ذریعہ اپنی ریٹنگ بڑھا رہا ہے مگر حکمرانوں کے چہروں پر کوئی شرمندگی نہیں اور وہی جھوٹے اور فریبی دعوےجاری و ساری ہیں!کیا وجہ ہے کہ حکمران اور سیاسی مداریوں کو چند ہفتے پہلے کئے گئے عوام سے کئے گئے وعدے یاد نہیں مگر لوگ انہیں سیاسی مداریوں کی پوجا کرتے نظر آرہے ہیں ؟
کیا یہ سب کچھ بین الاقوامی طاقتوں اور پڑوسی ملکوں نے کیا ہے۔ آج کیوں ایک عام آدمی اور سب سے بڑے منصب پر بیٹھا ہوا حکمران دونوں کا ضمیر مر چکا ہے۔ کیا یہ سب امریکہ ، برطانیہ یا یہودیوں کی سازشوں کا نتیجہ ہے؟ جب تک ہم سچ نہیں کہیں گے اور سچ سننے کا حوصلہ نہیں رکھیں گے سچ کو اپنی زندگیوں میں قائم بھی نہیں کر سکیں گے۔ آج میرے جیسے ادنی لکھنے والے کے پاس وہ الفاظ نہیں جن کی مدد سے میں پاکستان میں جاری ان گھناونے جرائم کو قلمبند کر سکوں جو ہر روز ہو رہے ہیں۔
آوئ سچ بولیں؛
مہذب دنیا ، ترقی یافتہ اور خوشحال ریاستوں میں تو ٹیکنالوجی کی ریل پیل کے ساتھ شہر کی لائبریریاں ختم نہیں ہوئیں، وہاں تو شہر کی پولس خود جرائم کو شکار نہیں ہوئی، وہاں تو شہر کے میدان اور باغات تو ویران نہیں ہوئے۔ پھر اسلامی جمہوریت پاکستان میں یہ سب کچھ کیوں ہوا۔ یقیناً جدید دورکی جدید ٹیکنالوجی نے ریاستوں اور قوموں کو معاشرتی طور پر مضبوط، خوشحال اورا من و سکون کا گہوارا بنایا ہے۔ پھر اسلامی جمہوریہ پاکستان جو بنا ہی مسلمانوں کو انکے بنیادی حقوق دینے کےلئے تھا آج دنیا میں سب سے زیادہ غیر محفوظ اور جرائم کی دوڑ میں سر فہرست ہے۔
آج پاکستان کے حکمران اور عوام سب دوسروں پر معاشرے کے تباہ ہونے کی ذمہ داریاں ڈالتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ سب پاکستان کی تباہی میں شراکت دار ہیں۔ آج کا پاکستان اسُ پاکستان سے بالکل مختلف نظر آتا ہے جو 1940 کی قرارداد میں منظور کیا گیا تھا اور جسکا وجود 1947 میں آیا تھا۔ بلکہ میں یہ سطریں بڑے افسوس کے ساتھ قلم بند کر رہا ہوں کہ آج مولانا ابولکلام آزاد کی وہ باتیں سچ ثابت ہو رہی جو انہوں نے شورش کاشمیری کے جریدے چٹان کے دیے گئے انٹرویو میں 1946 میں کہا تھا اور جس کو شورش کاشمیری نے اپنی کتاب ابولکلام آزاد میں بھی رقم کیا۔ ابوالکلام آزاد نے دو ہفتہ پر محیط اس تفصیلی انٹرویو میں پاکستانی کی جغرافیائی بناوٹ یعنی مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں سندھ، پنجاب، بلوچستان اور شمالی پختون علاقوں کے پس منظر میں پاکستان کے بارے میں کہا تھا کہ محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کے بعد اور جب اسلام کے نعروں کو جوش تھم جائے گا مشرقی پاکستان پاکستان سے الگ ہو جائے گا کیونکہ وہاں کے لوگوں کا رہن سہن، سوچ، زبان اور کلچر میں مختلف ہے ۔ مغربی پاکستان میں موجود صوبوں کے جاگیردار غیر ملکی طاقتوں کے ہاتھوں اپنے مفادات کے لئے پاکستان کو استعمال کریں گےجیسے کے عرب سر زمین پر ہو رہا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے بانی محمد علی جناح کی وفات کے بعد لیاقت علی خان کو قتل کر دیا گیا اور پھر ویسا کچھ ہوا جیسا ابولکلام آزاد نے کہا تھا۔ آج پاکستان ایک ایسی قیادت کو ترس رہا ہے جو پاکستان کی سوئی ہوئی قوم کو جگا سکے اور پاکستان کی تقسیم شدہ عوام کو ایک پاکستان کےپرچم تلے لا سکے۔ جو پاکستان میں ایک ایسا انقلاب لا سکے جو پاکستان سے جاگیردارانہ نظام اور سوچ کو مٹا سکے اور عوام کو جگا سکے۔ جو پاکستان میں ایسے نظام کی بنیاد ڈالے جو بلا کسی رنگ ونسل، زبان، فرقہ اور علاقہ سے پاک ہو۔ جہاں ہر چھوٹے بڑے کے لئے ایک ہی قانون اور سزا ہو ۔جہاں ایسا نہ ہو کہ ایک وڈیرے کا بیٹا تو سرے عام قتل کرکے دندناتا پھرے اور غریب کے ساتھ ظلم و زیادتیوں کا مقدمہ بھی درج نہ ہو۔ جہاں لوگوں کی عزت محفوظ ہو اور یکساں بنیادی حقوق ملیں۔
اگر ایسا نہیں ہو تا تو پاکستان میں جاری جرائم، لوٹ مار، قتل و غارت گری اور نفرتیں اور بڑھیں گی کیونکہ یہ پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کے مقاصد کو پورا کر رہے ہیں جو اپنے خاندانوں کی حکمرانی قائم رکھنے کے لئے پاکستان میں نئے صوبوں کی مخالفت تو کریں گے مگرنئی سرحدیں بنانے سے چونکیں گے۔
(سیدعتیق الحسن سڈنی میں مقیم صحافی اور کالم نگار ہیں)
13 Comments
Comments are closed.