بقلم ریحان شکیل
کل ایک بار پھر وطن عزیز دہشت گردوں کی لپیٹ میں رہا اور ایک بار پھر اپنی بے بسی پر رونا آیا . کراچی ائیرپورٹ پر دہشت گردوں کا حملہ اور اسے قبل پاک ایران سرحد تافتان پر شیعہ زائرین پر خود کش حملہ اور فائرنگ جسکے نتیجے میں لگ بھگ ٢٣ زائرین اور سیکورٹی اہلکاروں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیئے . ان دونوں حملوں میں ایک بات مشترکہ ہے اور وہ یہ کے ان حملوں میں پاکستانی مارے گئے . نقصان پاکستان کا ہوا جوان ہمارے شہید ہوئے اور آج لاشیں ہمارے گھر سے ہی اٹھ رہی ہیں . لیکن ہم ابھی تک غفلت کی میٹھی نیند سورہے ہیں .
ان حملوں کی جتنی مذمّت کی جائے کم ہے لیکن ان حملوں سے زیادہ پر مذمّت اور قابل افسوس ہمارا بحیثیت قوم اپنا کردار ہے .
کراچی ائرپورٹ پر حملے کے فوری بعد سوشل میڈیا پر بھی جنگ چھڑ گئ , جہاں ہمارے فوجی جوان دہشت گردوں کو انکے ناپاک عزائم سمیت جہنم واصل کرنے میں مصروف تھے ہم زندہ قوم سوشل میڈیا پر الزام تراشی کی قومی چیمپئن شپ کھیلنے میں مصروف تھے . کچھ حضرات انڈیا کو الزام ٹھرا رہے تھے اور کچھ جوشیلے حضرات نے تو پاک آرمی کو بھی برا بھلا کہنے سے دریغ نہیں کیا . بدقسمتی سے ہمارا ملک تو حالت جنگ میں گھرا ہوا ہے ہی لیکن ہم بحثیت قوم خاص کر اس ملک کے نوجوان حضرات اپنے اپنے سیاسی لیڈر کی پیروکاری کرتے ہوئے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی ایک دوسرے پر الزام تراشی کی جنگ میں مصروف ہیں.سوشل میڈیا پر ہر کوئی بچہ کچا اپنے اندر ایک انقلابی جذبہ رکھتا ہے اور مجاہد بنا ہوا ہے . لیکن یہ غصّہ یہ انقلابی سوچ اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف ہی آزمائی جارہی ہے . اگر آپ میرے سیاسی مخالف ہیں یا آپکے نظریات مجھسے مختلف ہیں تو صاحب آپکی خیر نہیں . میں اپنی تمام تر تخلیقی صلاحیات کو بروے کار لاتے ہوئے ہر ممکن شواہد اور دستاویزات اکٹھی کرکے آپکی عزت اچھال کر ہی دم لونگا . حالت زار تو یہ ہے کے ایک دوسرے کو مشکل میں دیکھ کر جشن منایا جاتا ہے اور مٹھایاں تقسیم کی جاتی ہیں . جس طرح سے ملک میں روزگار , امن اور معاشی استحکام کا بحران ہے ہماری صفوں میں اتحاد , بھائی چارہ اور برداشت کا فقدان ہے . ہم ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے سے قاصر ہیں . ہم اپنے ہی بھائی کو مصیبت میں دیکھ کر خوشیاں مناتے ہیں اور اسکی جگ ہنسائی کرتے ہیں .
یقین ,اتحاد , تنظیم محکم یہ وہ رہنما اصول ہیں جو ہمیں بانی پاکستان محمّد علی جناح نے سکھلاے تھے لیکن انکے اصولوں کی اور انکے دیے ہوئے اس ملک کی ہم یہ قدر کرہے ہیں ? ہم اچھائی اور برائی میں فرق سمجھنے سے قاصر ہیں . دشمن ہم پر سامنے سے کھل کر حملے کرہا ہے اور ہم ظلم سہتے ہوئے اسکی نشاندہی کرنے سے محتاط ہیں صرف اسلئے کے ہم اپنی سیاسی وفاداریاں نبھا رہیں ہیں . اور شاید اپنی باری تک چپ رہینگے . ہماری حیاتی کا مقصد ہی ایک دوسرے کو نیچا دکھانا بن گیا ہے ملک کے ساتھ جو بھی ہو حکومت ہماری پارٹی کی ہونی چاہیے . الیکشن میں کامیابی صرف ہمارا حق ہے لیکن دوسرے کی جیت اسکا وجود نہ قابل برداشت ہے .
کچھ حضرات ایسے بھی ہیں جنکے چہرے دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے کے جب طالبان نے کل کے حملوں کی ذمداری قبول کی گویا انکے اپنے عزیز و اقارب حملہ آوروں میں شامل ہوں . میرا سوال یہ ہے کے جو آپکو ہلاک کرکے قبول کرتے ہیں انسے اتنی محبّت ?اور اپنے ملک میں بسنے والوں سے اپنی ہی محافظوں سے چپقلش ہمارے بیمار ذہنوں کی نشانددہی کرتی ہے .
سابق صدر پاکستان اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل رٹائرڈ پرویز مشرّف صاحب نے اپنے بیشتر انٹرویوز میں یہ بات کہی کے extremism ایک سوچ کا نام ہے اور ہماری جنگ اس سوچ سے ہے . اگر ملک بچانا ہے تو ہمیں اپنی سوچ تبدیل کرنی ہوگی . اپنا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنا ہوگا . تبدیلی جلسوں , جلوسوں اور نعروں سے نہیں آئے گی …تبدیلی ہمیں اپنے اخلاق میں لانی ہوگی …اپنی سوچ میں لانی ہوگی اپنے سیاسی لیڈران کی اندھا دھن پیروی بند کرنی ہوگی .الله نے ہمیں بھی دماغ دیا ہے سوچنے کے لئے اور دل دیا ہے محبّت کرنے کے لئے اسکا استعمال مثبت انداز میں ملک کی تعمیر کے لئے کرنا ہوگا .
بچپن سے پڑھتے آرہے ہیں کے نبی کریم محمّد صل الله علیھ وسّلم کا فرمان ہے کے کسی عربی کو کسی عجمی اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں .اسی طرح سے کے جو قوم اپنے حالات خود نہیں بدلتی خدا اسکے حالات نہیں بدلتا . اب ان باتوں پر عمل کرنے کا وقت ہے . اپنے اندر برداشت پیدا کرنے کی ضرورت ہے . اپنی سیاسی ترجیحات کو بالاۓ تک رکھتے ہوئے اس ملک میں بسنے والی ہر قومیت کی عزت کرنا ہوگی . اپنے کردار کو مثالی بنانا ہوگا . اپنے اندر برداشت اور ایثار و محبّت کا جذبہ جگانا ہوگا . ہمیں اپنی سرحدوں اور املاک کی حفاظت کیلئے اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا پڑیگا . ہماری جنگ شدت پسندی کے خلاف ہے . ہمیں ہر اس جماعت سے ہر اس فرد واحد سے لا تعلق ہونا پڑیگا جسکی حکمت عملی اور تنگ نظری ملک کی ترقی کی راہ میں حائل ہے .
ہمارے سیاست دان اور موجودا حکمران کچھ اہل ہوتے تو آج ہمارے ملک میں جان کی کچھ قدر و قیمت ہوتی . کتنے ہی افراد دہشد ت گردی کی نظر ہوگئے . کتنے چراغ گل ہوگئے . کتنے ہی گھر اجڑ گئے کس حکمران نے اپنی غفلت قبول کرتے ہوۓ اپنی کرسی چھوڑی ? انکا مقصد صرف اقتدار کا حصول ہے اور کچھ نہیں . ہمیں انکی سوچ کی غلامی آزاد ہونا پڑیگا . ہمیں اپنی اصلاح کا آغاز آج سے ہی کرنا ہوگا … اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے . ہمیں اس ملک کو دہشت گردی کے بحران سے نکالنا ہوگا اسے پہلے کے کوئی بہار سے آکر یہ کام کرے
1 Comment
Comments are closed.