سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیاء؛ پاکستان میں پولس اور خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے تیسرے درجہ کا تشددانِ اداروں کے سسٹم کا ایک حصہ ہے جو کہ کسی بھی طور ناصرف غیر قانونی ہے بلکہ غیر انسانی عمل بھی ہے۔ انسانوں پرتشدد کی اجازت نہ کوئی مذہب دیتا ہے اور نہ ہی کسی ملک کا کوئی قانون پھر کیوں انسانوں پر انسان تشدد کرتے ہیں؟ جب کسی ریاست میں نا انصافی، جبر، ظلم اور غیر منصفانہ نظام ہوگا تووہاں نا اہل اور جرائم پیشہ افراد ریاست کے اہم اور ذمہ دار عہدوں پر فائز ہو نگے اور جب اسِ طرح کا ماحول جنم لیگا تو پھر حکومت کے اپنے اداروں میں بھی جرائم جنم لیں گے۔ پولس اور خفیہ ایجنسیوں کے اہل کار اگر اپنی ذمہ داریوں کے نیتجہ میں کسی شہری پر تشدد کرتے ہیں تو یہ بالکل دہشتگردی کے مترادف ہے اور اسِ کی سزا بھی وہی ہونی چایئے جو دہشتگردوں کے لئے قانون میں درج ہے۔ پاکستان میں ایک دہشتگردی تو دہشتگرد عوام میں اور عوامی مقامات پر کر رہے ہیں مگر دوسری دہشتگردی اُن اداروں کے اندر ہو رہی ہے جو دہشتگردی کی روک تھام کے لئے بنائے گئے ہیں۔ کسی انسان کو کسی بھی الزام کے نیتجہ میں گرفتار کرکے پولس تھانے یا خفیہ مقام پر لیجاناپھر اُس پر تشدد کرکے یہ معلوم کرنا کہ اس نے جرُم کیا ہے یا نہیں یا پھر اُس پر تشدد کرکے اپنے مطلب کا بیان قلم بند کرانا ایک بڑی دہشتگردی ہے۔ ریاستی اہل کاروں کی جانب سے ملزموں پر تشدد کرکے آج تک دنیا میں کوئی بھی معاشرہ سدھارا نہیں گیا اور نہ ہی جرائم کا مکمل اور دیرپا خاتمہ کیا گیا ۔ جب امریکہ کے شہر نیویارک میں دنیا کی بدترین دہشتگردی کا واقعہ 11 ستمبر 2011 کو ہواجس کے بعد امریکی خفیہ ایجنسیوں اور فوجی اہل کاروں نے اندھا دھند دہشگردی کے الزام میں افغانستان سے سینکڑوں شہریوں کو اٹھا کر گوانتانامو بے کے بد ترین قید خانوں میں قید کرکے دنیا کا بد ترین ٹارچر کیا ، کیا اس کے بعد دنیا سے بالالخصوص افغانستان سے دہشتگردی ختم ہوگئی نہیں، بلکہ اس کے بعد یہ دہشتگردی افغانسان سے نکل آج دنیا کے بیشتر ممالک میں پھیل چکی ہے۔ پاکستان کے قیام کی وجہ یہ تھی کہ اسِ ملک میں اسلام کے اصولوں کی روشنی میں ایک منصفانہ نظام قائم کیا جائے گا جہاں ملک کے ہر فرد کے لئے قانون برابر ہوگا۔ جرُم ہر معاشرہ میں پائے جاتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی ریاست سے جرائم کو سو فیصد ختم نہیں کیا جا سکتا ورنہ اگر ایسا ہوتا تو کسی بھی ملک میں جرائم کو سو فیصد ختم کرنے کے بعد وہاں کی جیلیں، پولس تھانے اور پولس محکمہ کو بند کر دیا جاتا کہ نہ تو اب پولس کی ضرورت رہی اور نہ ہی جیلوں کی کیونکہ کہ ریاست سے جرائم ختم ہو گئے ہیں۔ مگر یہ ممکن نہیں کیونکہ انسان کی فطرت میں یہ شامل ہے کہ اگر اسُ کو بالکل آزادی دے دی جائے اور کسی قانون اور سزا کا خوف نہ ہو تو انسان شیطانی یا غیر انسانی کام کر سکتا ہے۔کیا انُ ممالک میں جہاں تیسرے درجہ کا تشدد نہیں کیا جاتا جرائم نہیں ہوتے اور اگر ہوتے ہیں تو کیا مجرم تفتیش کے دوران اپنے جرم کا اعتراف نہیں کرتے؟ پولس اور خفیہ ایجنسیاں انِ ممالک میں بھی ہیں مگر یہاں پولس اور خفیہ ایجنسیوں کے اہل کار اپنے اعلی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے ذریعہ ملزم سے تفتیش کرکے وہ معلومات حاصل کر لیتے جس کی روشنی میں یہ معلوم کیا جاسکے کہ گرفتار شخص مجرم ہے یا بے گناہ۔ مگر پاکستان جہاں آج آوہ کا آوہ ہی بگڑہ ہوا ہے پولس اور خفیہ ایجنسیوں کا بہت براُ حال ہے وہاں افسوس اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ اب پاکستانی افواج کے زیلی ادارے پاکستان رینجرز میں سے بھی غیر انسانی تشدد کی نا صرف خبریں آرہی ہیں بلکہ رینجرز کی تحویل میں ہلاکتیں بھی ہو رہی ہیں۔ حالیہ خبروں کے مطابق رینجرز کی تحویل میں ایسے شہریوں کی اطلاعات مل رہیں جن پر تیسرے یا چوتھے درجہ کا غیر انسانی تشدد کیا گیا جس کی بہت ہی شرمناک مثال حال ہی میں متحدہ قومی مومنٹ کے ایک سرگرم کارکن آفتاب احمد کی پر تشدد ہلاکت ہے۔ میڈیا اور شوشل میڈیا پر دکھائی جائے والی مرحوم آفتاب احمد کی لاش کو دیکھ کر یقینا لوگوں پر ہیبت تاری ہوگئی کہ کیا کوئی انسان کسی دوسرے انسان پر اسِ طرح کا تشدد کر سکتا ہے ۔ تقینا جن لوگوں نے آفتاب احمد پر جس طرح کا تشدد کیا وہ دماغی طور پر ٹھیک نہیں ہو سکتے اور نہ ہی ایک ذمہ دار نوکری کرنے کے لائق ہو سکتے ہیں ۔ مگر آفتاب احمد تو صرف ایک واقعہ ہے جو منظر عام پر نہ جانے کیسے آگیا، نہ جانے کتنے لوگ روزانہ پاکستان میں پولس، خفیہ ایجنسیوں اور رینجرز کے ہاتھوں تشدد اور پر اسرار موت کا شکار ہو رہے ہیں۔ آج سے چند سال پہلے کراچی ہی میں رینجرز نے ایک نوجوان کو دنِ دہاڑے عام شاہراہ پر گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا جس کی وڈیو پوری دنیا میں کروڑوں لوگوں نے دیکھی کیا اسِ عمل سے پاکستان کی بد نامی نہیں ہو ئی ؟ مگر سوال یہ ہے کیا اسُ واقعہ کے بعد اسِ بات کو یقینی بنایا گیا کہ آئندہ اسِ قسم کے ظالمانہ اور غیر انسانی واقعات نہ ہوں، ہر گز نہیں اگر ایسا کیا گیا ہوتا تو آفتاب احمد کو اسِ طرح سے غیر انسانی تشدد کے بعد ہلاک نہ کیا گیا ہوتا۔ کسی انسان نے چاہے کتنا ہی بڑا جرم کیوں نہ کیا ہو کوئی قانون یا مذہب اسِ کی اجازت کسی کو نہیں دینا کہ وہ ملزم پر کسی بھی قسم کا جسمانی یا دماغی تشدد کرے۔ مگر کیا کیا جائے بدقسمتی سے پاکستان کے نظام کو برباد کرنے میں عام آدمی سے لیکر ملک کے سب سے اعلی عہدہ پر بیٹھا شخص شامل ہے۔ جس ملک کا وزیر اعظم اپنے ملک سے دولت سمیت کراربوں روپے کی جائداد یورپ میں بنا چکا ہو اور عوام اس کے جلسوں میں ہزاروں کی تعداد میں شریک ہوکر اس کے گیت گا رہی ہو تو وہاں پر اسِ قسم کا ظلم اور غیر انسانی حرکات نہ ہوں ممکن نہیں۔