:سید عتیق الحسن
آج پاکستان میں لوگوں کو نہ پینے کا صاف پانی درکار ہے، نہ بجلی اور نہ چولہہ جلانے کے لئے گیس ۔ نہ ریل گاڑی وقت پر چلتی ہے، نہ جہاز وقت پر پرواز کرتا ہے ۔ نہ کارخانے چل پاتے ہیں اور نہ لوگوں کے پاس زندہ رہنے کے لئے روزگار میسر ہے۔ نہ عوام کو سرکاری ٹرانسپورٹ دستیاب ہے نہ گاڑیوں کے لئے پیٹرول یا گیس۔کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہے اور لوگ خود کشیاں کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں ۔ ہر روز قتل و غارتگری، ٹارگیٹ کلنگ، بم دھماکے اور مرنے والوں کی گنتی میڈیا کی معمول کی بریکنگ نیوز بن گئیں ہیں۔ لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کرنے میں تو سرکار مکمل طور پر ناکام ہو ہی چکی تھی اب علاج کے طور پر کے طور پر موبائل اور موٹر سائیکلوں کی سواریوں پر بھی پابندی عائد کی جا رہی ہے۔ اگر انِ نا اہل حکمرانوں کا کا روبار یوں ہی گرم رہا تو ہو سکتا ہے کہہ یہ لوگ یہ بھی حکم سادر کردیں کہ اب ہفتہ میں دو یا تین دنِ کوئی بھی سڑک پر نہیں چلے گا کیونکہ اس سے ٹارگیٹ کلنگ کا خطرہ ہے۔ کیا پاکستانی عوام کے لئے دنیا میں رسوا ہونے کے لئے کافی نہیں ۔آج پاکستان کو دنیا کے سامنے ایک فیل ریاست بنا دیا گیا ہے اور حکمران بڑے فخر سے دعوی کر تے ہیں کہ وہ پہلی مرتبہ جمہوریت کے پانچ سال مکمل کرنے جا رہے ہیں۔ کیا اسی طرح سے ملک چلا کرتے ہیں۔ بے شرمی اور ہٹ دھرمی کی عظیم مثال یہ ہے کہ حکومتی کارندے اور سیاستدان یہ دعوی کرتے نظر آتے ہیں کہ انہوں نے ان تمام چیزوں کے بدلے پاکستان کو جمہوریت دی ہے۔ اگر پاکستان میں اسی طرح سے جمہوریت زندہ رہنی ہے تو اگلے دس سال کا ریکارڈ بنانے کے ساتھ ہی اسِ ملک کی نیلامی بھی شاید کرنی پڑے یا پھر ممکن ہے بین الاقوامی طاقتیں اسے خود آزاد نہ چھوڑیں ۔ پاکستان کے حکمران ، سیاسی پنڈت اور خود عوام بھی اسُ وقت بھی یہ راگ الاپ رہے تھے کہ ملک اسِ طرح سے ٹوٹا نہیں کرتے جب مشرقی پاکستان علیحدگی کے قریب جا رہا تھا پھر پاکستان عوام نے وہ ذلت آمیز منظر بھی دیکھے جب پاکستان کے ایک لاکھ سے زیادہ فوجیوں نے بھارتی فوج کے ہاتھوں اور مشرقی پاکستان کی عوام کے سامنے نہ صرف ہتھیار ڈالے بلکے جرنیلوں نے اپنے تمغے اتار کر بھارتی جر نیلوں کو سلام پیش کیا۔آج کوئی بھی اسِ پر ماتم کرتا نظر نہیں آتا۔آج پاکستانی عوام پھر اسیُ خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ بلوچستان ہم سے الگ نہیں ہو سکتا، کراچی ٹوٹ نہیں سکتا ، پاکستان میں امریکی فوجیں اتر نہیں سکتی ، ہم سے ہماری نیوکلئیر طاقت چھینی جا نہیں سکتی ؟ مگر آج جو کراچی، کوئٹہ یا پشاوہ میں کچھ ہو رہا ہے کیا صرف چار سال پہلے تک اس کے بارے میں تصور کیا جا سکتا ہے۔ سب کچھ ممکن ہے اگر پاکستانی عوام اسی طرح خوش فہمی میں مبتلا ر ہی یا پھر اپنے ضمیر کو نہیں جگایا۔ اگر پاکستانی عوام ذات، نسل، فرقہ ، زبان اور ذات برادری کی بنیاد پر انِ ملک کو لوٹنے والوں سیاسی مداریوں کو اقتدار میں بٹھاتی رہی تو اللہ نہ کرے وہ دنِ بھی آجائے گا جو اسِ سے پہلے اسی طرح کی قوموں پر آیا ہے۔ افسوس اسِ بات کا ہے کہ آج پاکستانی قوم اپنے باپ دادا کے دئیے ہونے خون ، جان و مال کے نظرانوں کو فراموش کرکے انِ لٹیروں کو برداشت کر رہی ہے جو پاکستان کی حکمرانی کو اپنے خاندان کی وراثت سمجھتے ہیں۔ کل باپ آج بیٹے والی سیاست کیا یہ جمہوری عمل ہے؟ اسِ سوال کا جواب پاکستانی عوام کو دینا پڑیگا!کیا یہ جمہوریت کا عمل ہے ؟ کیا یہ جمہوریت کے نام پر موروثی حکمرانی نہیں ہے۔ یہ جمہوریت نہیں بلکہ اقتدار حاصل کرنے کے لئے ایک طریقہ کار ہے ان لوگوں کا جو سیاست کو اپنا کاروبار سمجھتے ہیں اور عوام کو اس کاروبا ر کے گاہک۔یہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کونسی چیز کب بیچنی ہے اور کسِ طرح سے بیچنی ہے۔لحاظہ اگر پاکستانی عوام اسی طرح سے ان کے گاہک بننا چاہتی ہے تو رونا کسِ بات کا بس وقت کا انتظار کرو کہ کھیل کب اپنے منظقی انجام کو پہنچے ۔ اور اگر پاکستانی عوام کو پاکستان، اپنی خود مختاری ، آزادی اور جان و مال سے لگاؤ ہے تو انِ تما م چوروں سے جان چھڑانی ہوگی اسِ سے پہلے کے بہت دیر ہوجائے۔ پاکستانی قوم کو انِ لٹیروں ، جدی پشتی سیاسی مداریوں اور فرقہ، زبان اور نسل کی بنیاد پر سیاست کرنے والوں سے آزادی لینی ہوگی۔ جس کے لئے غیر معمولی اور انقلابی اقدامات کرنے ہونگے۔
ملک کی تمام موجودہ سیاسی اور مذہبی جماعتیں چاہے اقتدار میں ہوں یا حزبِ اختلاف میں یہ ثابت کر چکی ہیں کہ وہ پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لئے نا اہل ہیں۔ پاکستان کو ان سیاسی پارٹیوں کے پنڈتوں کی نہیں بلکہ ایک قومی معمار کی ضرورت ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح سے پاکستان کے بنانے والا قومی معمار و قائد اعظم محمد علی جناح تھاجس نے ایک عظیم ملک مسلمانوں کو دیا۔ آج پاکستان کو ایک ایسے قومی ہیرو کی ضرورت ہے جو ملک میں انقلابی تبدیلی لے کر آنے کا اہل ہو۔ پاکستان کو بچانے کے لئے جن بنیادی انقلابی تبدیلیوں کی فوری ضرورت ہے ان میں؛
1) ہر قسم کے اصلحہ کے لائنس چاہے کسی بھی بڑے آدمی کے پاس کیوں نہ ہو فی الفور پابندی عائدکرکے تمام موجودہ لائنس کینسل کر دینے چائیں
2 ) کسی شخص کے پاس سے کسی بھی قسم کا اصلحہ بر آمد ہو تو فوری عدالت میں کم سے کم سات سال کی قید با مشقت ہونی چائیے
3) کسی بھی ایسے شخص پر جو اعلی سرکاری یا سیاسی عہدہ پر فائز ہو غیر ملکی بنک اکاؤنٹ رکھنے پر پابندی ہونی چائیے
4) کسی بھی شخص کو ملک کا اعلی عہدہ یا اسمبلی کا ممبر بننے کے لئے حلف اٹھانے سے پہلے غیر ملکی شہریت سے دست بردار ہونا چائیے
5) جب تک ملک اور عوام کو اصلحہ سے پاک نہیں جاتا ہر قسم کی سیاسی و مذہبی عوامی جلسے اور جلوسوں پر پابندی ہونی چائیے۔
6) تمام سیاسی پارٹیوں کو نئے سرے سے پارٹی رجسٹریشن کرانی چائیے ، جس کے لئے لازمی شرط ہونی چائیے کہ اس پارٹی نے اپنی ممبر شپ اور پارٹی میں الیکشن کرایاہو اور اس کا ریکارڈ وہ رجسٹریشن کے وقت جمع کرائے
7) ملک میں فوری طور پر لینڈ ریفارم (زرعی زمین کی اصلاحات) ہونا چائیے جس کے تحت کوئی بھی زمیندار یا وڈیرہ سو ایکڑ سے زیادہ زمین اپنے پاس نہیں رکھ سکتا ۔تمام موجودہ زمینداروں کو یہ ثابت کرنا پڑیگا کہ ان کے پاس یہ زرعی زمینیں کہاں سے آئیں اور اگر یہ جدی پشتی زمینیں انگریزوں سے وفاداری کے بدلے میں عطا کی گئیں تو اب پاکستانی سرکار کا حصہ ہونا یئے تھیں لحاظہ ان کا نیلام ہونا چایئے اور پیسہ سرکاری خزانے میں جمع ہوتا چائیے۔
8) تمام ایسی سیاسی جماعتوں پر جن کا منشور مذہبی فرقہ واریت، لسانی گروبندی یا علاقائی بنیادوں پر بنایا گیا ہے فوری طور پر پابندی ہونی چائیے ۔اگر کسی سیاسی یا مذہبی پارٹی کے ذمہ دار فراد یا آفس سے کوئی اصلحہ برآمد ہو تو اس پارٹی کی رجسٹریشن کینسل ہونی چائیے
9) ملک کی عدالتوں کو حکومت کی مداخلت سے مکمل آزاد ہونا چائیے اور ججوں کی تقریوں صرف اور صرف عدلیہ کا اندرونی مسلہ ہونا چائیے اور جو میرٹ پر ہونا چائیے
10) ملک میں کسی بھی قسم کا نافظ کوٹہ سسٹم چاہے وہ سرکاری نوکر یوں یا اعلی تعلیمی اداروں میں داخلہ سے متعلق ہو فوری طور پر ختم ہونا چائیے اور ہر شخص کو صرف اور صرف اہلیت اور میرٹ کی بنیاد پر اس کا حق ملنا چائیے۔ بالالخصوص پولس اور قانون نافظ کرنے والے اداروں کے عہدوں کی تقریریاں صرف اور صرف میرٹ پر ہونی چائیں۔
11) ملک میں نئے انتظامی یونٹ، کونسلیں، ضلع یا صوبہ بنانا صرف اور صرف انتظامی معاملات کو سامنے رکھ کر ہونا چائیے ناکہ کوئی سیاسی معاملات یا مفادات کو۔
12) ملک میں تمام ٹیکس چوروں کے لئے سخت سے سخت قانون بنانے چائیے۔ ٹیکس کی شرح کم کرکے ٹیکس کو آسان اور قابل ادائیگی بنانا چائے۔ تمام موجودہ سیاستدانوں کے پچھلے دس سال کے اکاوئٹس دوبارہ آڈٹ ہونے چائیے اور گھپلے پائے جانے کی صورت میں سخت سزا ملنی چائیے۔
13)کسی بھی ریٹائرڈ افوجی افسر پر سیاست میں شامل ہونے اور اعلی عہدہ رکھنے پر پابندی ہونی چائیے جب تک کہہ یہ فوجی افسر اپنے ریٹارمنٹ کی مراعات قومی خزانے سے حاصل کر رہا ہے۔
14) کسی فوجی افسر کو کسی بھی قسم کے سول عہدہ پر فائز پر پابندی ہونی چائیے۔فوجیوں پر بھی ٹیکس کی ادائیگی لازمی اور شفاف ہونی چائیے۔
15) پاکستان کے محکمہ خارجہ بالالخصوص سفارتکاروں پر دوسرے ملک کی شہریت حاصل کرنے یا اپنی ملازمت کے دوران دوسرے ملک میں مستقل رہائش اختیار کرنے کی کوشش پر سزا ملنی چائیے اور نوکری سے فوراً فارغ کر نا چاہیے۔ نیز ان پر کسی سیاسی پارٹی کے لئے کام کرنے کا ثابت ہونے پر فوری نوکری سے نکال باہر کرنا چائیے۔
یہ کوئی ایسے فیصلہ نہیں جو کہ کئے نہیں جاسکتے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی عوام یہ سب کچھ دیکھنا چاہتی ہے یا نہیں۔ اس کے لئے پاکستانی عوام کو اپنے ضمیر کی آواز سننی ہوگی۔ آج پاکستان اپنی عوام سے کچھ مانگ رہا بشرطیکہ عوام اس آواز کو سنیں۔
اگر پاکستان ہوگا تو عوام عزت اور آزادی سے رہ سکیں گے اوریہ اسی وقت ممکن ہے جب صرف اور صرف پاکستان کی سالمیت اور عام آدمی کی زندگی کو بہتر بنانے کو سامنے رکھ کر فیصلے کئے جائیں۔ پاکستان کے عوام کب تک سیاستدانوں، فوجیوں اور کرپٹ افسرانوں کو برا بھلا کہتے رہیں گے اور ساتھ ساتھ ان ہی اپنے اوپر مسلحط کرتے رہیں گے۔ اگر کوئی پاکستان کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کر سکتا ہے تو وہ عوامی طاقت ہے بشرطیکہ عوامی طاقت ایک سچے قومی ہیرو کی قیادت میں ایک نیا سفر شروع کرے۔ اب یہ عوام کا کام ہے کہ وہ کیسے اپنا ہیرو چنتے ہیں۔
www.sahassan.com