پاکستان: بانیان کے خواب،  زمینی  حقیقت،خان  کی بدقسمتی

از قلم سید عتیق الحسن

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے تحریک پاکستان کے آخری دنوں میں ایک افسوسناک حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ “میری جیب میں چند کھوٹے سکے ہیں”۔ ان کا

سید عتیق الحسن

اشارہ اُن پنجاب کے جاگیرداروں، سندھ کے وڈیروں اور  شمال مغربی قبائلی سرداروں کی طرف تھا جو تحریک پاکستان کے اختتامی مراحل میں سیاسی فائدہ اٹھانے کی غرض  سے مسلم لیگ میں شامل ہوگئے تھے۔ یہ افراد تحریک پاکستان کے اصل مقصد سے نا آشنا تھے اور اپنی جاگیردارانہ  قبائیلی ذہنیت کی وجہ سے قومی فیصلوں پر منفی اثر ڈال رہے تھے۔ مشرقی پاکستان الگ ہونے کی بڑی وجہ یہ ہی تھی  جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

پاکستان کے قیام کے بعد بھی یہی جاگیردارانہ اور قبائیلی  رویہ  آج بھی سیاست پر غالب رہا  ہے،  پھر سونے پر سہاگہ پاکستانی جرنیلوں نے بھی انہیں جاگیرداروں اور قبائلی سرداروں کے ساتھ چلنے میں اپنی بقا اور ریاست پر کنٹرول کرنے کی حکمت عملی بنایا۔ اسی پالیسی   نے بنگالی سیاستدانوں کو ناراض کر دیا۔ بنگالی رہنما  نظریاتی اور تحریکی سوچ رکھتے تھے، جبکہ پنجاب اور سندھ کے سیاستدان جاگیردارانہ نظام کے حامی تھے یہ ہی نظام فوج کے آمرانہ رویہ سے بھی ہم آہنگی رکھتا تھا ، یہی فرق بعد میں مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کی ایک بڑی وجہ بنا، اور ممکنہ تقسیم کے مراحل کا سلسلہ آج بھی جاری  ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ، وہ مذہبی جماعتیں جو تحریک پاکستان اور نظریہ پاکستان کے مخالف تھیں، قیام پاکستان کے بعد ملکی سیاست میں شامل ہو گئیں۔ ان جماعتوں کا رویہ  آج بھی منافقانہ  اور  نظریہ پاکستان کے خلاف ہے۔ مفتی محمود، جو فضل الرحمان کے والد تھے، نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر کہا  تھا، “شکر ہے ہم پاکستان بننے کے جرم میں شریک نہیں تھے”۔ یہ رویہ اُس وقت بھی موجود تھا اور آج بھی سیاست میں منافقت کو پروان چڑھا رہا ہے۔

قائداعظم پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے، جہاں عدل و انصاف اور بنیادی انسانی حقوق اسلامی اصولوں کے مطابق ہوں۔ لیکن بعض مذہبی عناصر نے اس مقصد کو غلط رخ دینے کی کوشش کی اور ایسے نعرے لگوائے جو قائداعظم کے وژن کا حصہ نہیں تھے۔ مثال کے طور پر  پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کا نعرہ قائد اعظم کا نعرہ نہیں تھا، اس نعرے کی موجد جماعت اسلامی تھی جو پاکستان کے نظریہ اور بانی پاکستان کے خلاف رہی اور جب پاکستان بن گیا تو پاکستان میں جماعت اسلامی پاکستان قائم کر لی۔یہ ہی حال مفتی محمود کی جمعیت علماء اسلام پاکستان کا تھا اور فضل الرحمن کی منافقت آج بھی جاری ہے۔ یہ عمران خان کا دشمن ہے مگر پی ٹی آئی کے صف اول کے قائدین اسے اپنا بزرگ رہنما سمجھتے ہیں۔ آج یہ ہی نعرہ اب پاکستان تحریک انصاف کے نعروں کا حصہ بن گیا ہے۔

 قائداعظم کا خواب ایک ایسا ملک تھا جہاں تمام مذاہب کے لوگوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں، قانون کی  بالا دستی  ہو، عدل و انصاف کا بول بالا ہو اور ہر شہری کو بلا تفریق بنیادی انسانی حقوق حاصل ہوں۔ جہاں ذرائع ابلاغ آزاد ہو اور عام انسان کو آزادی رائے کی آزادی ہو۔

آج عمران خان کو بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔ عمران خان پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے  ہیں ، جہاں کرپشن، اقرباپروری، اور ناانصافی کا خاتمہ ہو۔ بدقسمتی سے، پی ٹی آئی کی صفوں میں بھی ایسے مفاد پرست افراد شامل ہو گئے جو اس نظریے کو کمزور کر رہے ہیں۔ یہ افراد تحریک انصاف کو روایتی سیاست کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہیں، جہاں اقتدار کا محور صرف ذاتی مفاد اور پارلیمنٹ کی طاقت کا حصول ہو اور فوج کی سر پرستی حاصل ہو۔

عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں سے کچھ سنجیدگی سے  عمران خان  نظریے اور تحریک کے ساتھ کھڑے ہیں، لیکن بہت سے لوگ ایسے ہیں جو صرف اپنے فائدے کی فکر میں ہیں۔ یہ عناصر عمران خان کو جیل سے نکالنے کی بجائے ان کے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔  یہ عناصر فضل الرحمن ، اور اچک زئی جیسی شخصیات کو عمران خان سے جیل میں ملوانا اس لئے چاہتے ہیں کہ عمران کو اسکے اصل تحریکی نظریہ سے ہٹایا جا سکے اور روائتی اور بدعنوان پارلیمانی نظام کا حصہ دار بنایا جائے۔ یہ لوگ جانتے ہیں کہ اگر کسی بھی طرح سے عمران خان کو اس پر راضی کر لیا تو تحریک انصاف کی مقبولیت میں کمی آجے گی اور ان کی جماعتوں اور فوج کی ریاست میں حصہ داری رہے گی۔

پارٹی میں موجود حقیقی کارکنان یا تو غدار قرار دے کر نکال دیے گئے یا خود مستعفی ہونے پر مجبور ہو گئے او ر یا پھر ملک چھوڑ کر چلے آگئے۔ آنے والے وقتوں میں کچھ اور پی ٹی آئی کے حقیقی ساتھی پارٹی چھوڑ کر ملک چھوڑ کر جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔

عوام کی حالت بھی افسوسناک ہے۔ عوام آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان کے حقیقی دشمن کون ہیں اور دوست کون۔ ہر کوئی پاکستان زندہ باد کے نعرے تو لگاتا ہے، لیکن عملی طور پر قربانی دینے کو کوئی تیار نہیں۔ جو لوگ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں، وہ جیلوں میں ہیں، جبکہ باقی عوام محض تماشائی بنی ہوئی ہے۔

آج عوام کی امیدیں امریکہ کے نئے صدر ڈولنڈ ٹرمپ پر لگی ہوئی ہیں، کہ وہ آ کر عمران خان کو رہا کروائےگا۔ یہ وہی عوام ہیں جو بھول گئے ہیں کہ 1971 میں امریکہ نے مشرقی پاکستان کو بچانے کا وعدہ کیا تھا، لیکن ساتواں بحری بیڑا کبھی نہیں آیا اور پاکستان دو لخت ہوگیا ۔ اس وقت بھی عوام امریکہ کی حمایت میں خوش گمان ہیں، اور آج بھی اسی فریب میں مبتلا ہیں۔زمینی حقیقت یہ ہے  مغربی طاقتیں، روس ، چین اور بھارت سب مسلمان ریاستوں کو طاقتور دیکھنا نہیں چاہتی، اس پر سب ایک صفحہ پر قائم ہیں۔ لبیا، عراق، مصر اور اب شام کا حال دیکھ لیا۔ اب ترکی، ایران اور جلد ہی پاکستان کا نمبر ہے اسکی وجہ مسلمان خود ہیں کیونکہ انکی یہ تاریخ رہی ہے کہ یہ کبھی ایک نہیں ہو سکتے اور مسلم امہ بس ایک خواب ہے اور خواب ہی رہے گا۔

پاکستان کے موجودہ حالات انتہائی خطرناک ہیں۔ امریکہ، یورپ، اور بھارت ایک صفحے پر ہیں اور پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو غیر مؤثر بنانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ یہ کام شاید ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کے دوران انجام دیا جائے۔ دوسری طرف، پاکستانی مقتدرہ ادارے اور جعلی حکومت نے پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کر دیا ہے۔

چین، ایران،  ترکی اور مشرق وسطہ کے دوست ممالک بھی پاکستان کے ساتھ مخلص نہیں جسکی وجہ پاکستان  کے ریاست کے مالک مقتدرہ اداروں کی منافقانہ خارجہ پالیسی ہے ۔ یہ ممالک  اب پاکستان پر بھروسہ کرنے کے قابل نہیں رہے۔ جب تک عوام اپنے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو پہچان کر ان کے خلاف متحد نہیں ہوں گے، تب تک پاکستان کی بقا ممکن نہیں۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام حقیقی قیادت کو پہچانیں اور اس کے ساتھ کھڑے ہوں۔ اگر عوام نے یہ موقع کھو دیا، تو شاید دوسرا عمران خان کبھی نہ مل سکے، اور پاکستان کی سرحدیں بھی محفوظ نہ رہ سکیں۔

سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا

Recommended For You

About the Author: Tribune