ندیم ندوی: عقل کہتی ہے وہ کام ہی کیا جس کو کرنے کے بعد ڈھنڈورا نہ پیٹا جائے۔شائد اسی بات کو لوگ میری کم عقلی گردانتے ہیں۔ مجھے شائد آپ نے پہچانا نہیں ۔ میں ہوں کمیونٹی کی خدمت کا عزم لے کر اٹھنے والا آپ کا اپنا ’’ عوامی خادم‘‘۔
مجھے اپنی تصویر میں مونا لیزا کی مسکراہٹ ، ڈیانا کی خوبصورتی اور ساحر کا گلیمر نظر آتا ہے۔ جبھی میں چاہتا ہوں مجھ سے یا عوام سے منسوب ہر جریدے میں جہاں جہاں جسقدر بھی گنجائش نکلتی ہواسے میرے طلسماتی عکس سے پُر کردیا جاوے۔ تاکہ عوام یہ گنگنانے پہ مجبور ہوجائے،
جدھر دیکھوں تیری تصویر نظر آتی ہے
میں عوام کا درد سمجھتاہوں۔ اب عوام کو بھی چاہیے کہ میرا درد سمجھے۔ آخر تالی دونوں ہاتھوں سے ہی تو پیٹی جاتی ہے۔ میں عوام کے درمیان رہتاہوں خواہ عوام جریدے میں ہی کیوں نہ ہو۔میں عوام سے ہوں اور عوام مجھ سے۔ یہ کوئی طبیعاتی کلیہ نہیں صرف ایک فلسفہ ہے۔ اور بے چاری عوام پہلے ہی کونسے فلسفے سمجھ سکی ہے ۔جو میں نیا بوجھ اس کے کاندھوں پہ ڈالوں۔
لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ میں سب کچھ نام اونچا کرنے کے لئے کرتاہوں۔ لوگ پاگل ہیں جو ایسا سوچتے ہیں۔ نام تو اس سفر کی پہلی اٹھان ہوا کرتی ہے۔ لوگ یہ بھی کہتے ہیں میں کمیونٹی میں پنپنے والے مسائل کی طرف کم توجہ دیتاہوں۔ لوگ نہ جانے کیوں اس ننھی سی جان سے کیا کچھ توقع لگائے بیٹھے ہیں۔ اور پھر برسوں سے ڈیڑھ صفحات پر ہر ہفتے چھپنے والے ’’ آپ کے مسائل اور انکا حل‘‘ جیسی کاوشوں کو کیوں بھول جاتے ہیں۔ لوگوں کی کم توجہی سے میری کردار کشی فقط قلمی دشمنی ہے۔
دیارِ غیر میں بسنے والی عوام کا تو کوئی حال ہی نہیں۔ یہاں پر عوام خادمانِ عوام کو لڑوانے میں مصروف ہے۔ ہم اپنی بساط خود بچھاتے ہیں اور خود ہی لپیٹتے ہیں۔ عوام کی پزیرائی سے زیادہ حسب مخالف خدام کے زہریلے سروں سے نبرد آزما ہونا پڑتاہے۔ عوام تعاون کو طاعون پڑھتی اور سمجھتی ہے۔ تبھی اس کے قریب بھی نہیں پھٹکتی۔ عوامی خدمتگار وں کے بھی حلقے سجے ہوتے ہیں۔ کچھ تو بہت ہی ہلکے ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کو سراہتے ہوئے اپنی خدمات کا بھرم رکھ لیتے ہیں۔
ہم قومی دنوں پر میلے بھی سجاتے ہیں۔ ہمارے میلوں میں فی الوقت عوام خا نہ پری کے طور پر استعمال ہوتی ہے اور وہ بھی شکم پری کے لئے۔ عوام تو ہماری اوقات جان چکی ہے مگر ہم عوامی اوقات جاننے سے قاصر رہے ہیں۔ ہم عوامی خدمت کا جذبہ لئے وقت سے کئی گھنٹوں قبل عوام کا استقبال کرنے میلے میں موجود ہوتے ہیں مگر عوام باراتیوں کی طرح دیر آئید کو درست آئید سمجھتی ہے۔ یہ نہیں سمجھیں گے یاپھر یہ تب سمجھیں گے جب
یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہونگے افسوس ہم نہ ہونگے
مجھ جیسے کئی خدام کی وابستگی اپنے دیس میں موجو د قوم کے غمخواروں سے بھی ہے۔شائد یہاں رہتے ہوئے ان کی سوچیں بدل چکی ہیں یا پھر قومی خزانے تک رسائی ممکن نہیں۔
مجھ پر الزام ہے کہ میری گردن میں تناؤ کی وجہ میری گوروں کے ساتھ کھنچوائی ہوئی تصاویر ہیں۔ یہ سراسر الزام ہے۔ ہم تو اپنی خدمات کے صلے میں ملنے والے تمغات کے لئے گردن تیار کررہے ہوتے ہیں۔اور پھر ان تصاویر کی بہتات کی وجہ یہ بھی ہے کہ تصاویر لفظوں سے ہزار گنا زیادہ وزن رکھتیں ہیں اور پھر گورے کونسا اردو پڑھنا جانتے ہیں۔مجھ جیسے قومی خادم کے بارے میں جاننے کا حق ان کو بھی ہے۔
مجھے چڑھ ہے ان لوگوں سے جو میری خدمات کے جذبے کو خود نمائی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ہم کوئی چور ہیں جو چوری چھپے واردات کریں ہم تو مردانہ وار خدمات کے قائل ہیں۔ جبھی مساجد میں بھی اللہ اور رسول ﷺ کے بعد ہمارے نام کی بازگشت گونجتی ہے۔ہم عوامی خدمات کے جذبات سے سرشار ہیں۔ بلکہ ہم اس سلسلے میں بہت اوپر تک جا پہونچے ہیں۔ اور اسی طرح کئی اور بھی اوپر آچکے ہیں ۔ کبھی ہم ان سے اوپر ہوتے ہیں اور کبھی وہ۔۔۔
رشتہءِ اٹوٹ کی جگہ سوٹ اور بھائی بندی کی جگہ ٹائی بندی میرے حلیے کا خاصہ ہے۔ سیاہ چشمہ لگا کر عوام سے نگاہیں نہ ملانا حاسدوں کی الزام ہے۔ عوام کی اردو خراب ہے۔ سیاہ چشم اور طوطا چشم میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہمارا سیاہ چشمہ تو ہماری عجزو انکساری کی دلیل ہے۔ آخر ہم عوام کے خادم ہیں ہم عوام کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر کیسے بات کر سکتے ہیں۔
خادم کو اجازت دیجئے۔ اللہ نگہبان