سولہ دسمبر سقوط ڈھاکہ تاریخ کا ایک المناک دنِ جسے ہم یاد کرنا نہیں چاہتے
بقلم سید عتیق الحسن
سولہ دسمبر پاکستان کی تاریخ کا بدترین دنِ ہے۔ اسِ دنِ مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہو گیا تھا اور جو بنگلادیش کی شکل میں دنیا کے نقشہ پر آج موجود ہے۔ 16 دسمبر 1971 کو نظریہ پاکستان اور بانیانِ پاکستان کی عظیم جدوجہد کو دفن کر دیا گیا۔
تیس دسمبر 1906 میں ڈھاکہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیا دایک تعلیمی کانفرنس میں رکھی گئی جس کی سربراہی بنگالی قائد اور ڈھاکہ کے نواب سلیم اللہ نے کی۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھنے میں کئی مسلمان قائد شامل تھے جن میں سرِ فہرست نواب سلیم اللہ، نواب خواجہ ناظم الدین، نواب وقارالملک، حکیم اجمل خان، سر آغا خان سوئم،اور محمد علی جناح شامل تھے۔1913 تک محمد علی جناح کانگریس کے بھی اہم لیڈر رہے اور کانگریس میں رہتے ہوئے مسلمانوں کے بنیادی حقوق کو ہندوستان کے آئین کا حصہ بنانے کی جدوجہد کرتے رہے ۔ پھر 1913 میں محمد علی جناح نے اندازہ لگا لیا کہ کانگریس کے ہندو سیاسی پنڈت صرف ہیلے بہانوں سے کام لے رہے ہیں اور اسُ وقت کا انتظار کر رہے ہیں جب ہندوستان سے انگریز حکمران اقتدار چھوڑ کر جائیں اور ہندو اکثریت کی ہندوستان پر حکومت قا ئم اور مسلمان ہندوستان میں کبھی اقتدار کا خواب نہ دیکھیں۔
محمد علی جناح نے کانگریس کو خیر آباد کہا اور 1913 میں مکمل طور پر آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوکر مسلم لیگ کی صدارت سنبھال لی۔ اس کے بعد سے محمد علی جناح کی سربراہی میں آل انڈیا مسلم لیگ نے مسلمانوں کے بنیادی حقوق کی تحریک پورے ہندوستان میں شروع کردی۔ مسلمانوں کے بنیادی حقوق حاصل کرنے اور اسکو ہندوستان کے آئین کا حصہ بنانے کی تحریک تقریباً تین دھائیوں پر محیط تھی جو بالآخر مسلمانوں کے لئے ایک الگ ریاست کے قیام کی تحریک میں تبدیل ہو گئی۔ یہاں یہ بات تاریخ کا حصہ ہے کہ مسلمانوں کی تحریک اور قیام پاکستان کی جدو جہد زور و شور سے مشرقی بنگال، یو پی، حیدرآباد دکن، بہار، بھوپال میں چلائی گئی اسکے بعد مغربی پنجاب جو آج پاکستان میں شامل ہے، بمبئی پریزیڈینسی جس میں کراچی شامل تھا میں جاری رہی، سندھ میں کوئی عوامی تحریک پاکستان کے لئے سڑکوں پر نہیں آئی سوائے چند سندھ کی نامور مسلمان شخصیات کے جو پاکستان کے قیام کے بعد ثابت ہوا کہ اپنے مفاد ات کی حفاظت کے لئے قائد اعظم کے ساتھ کھڑے شامل ہوئے تھے۔مشرقی بنگال کے لوگ بہت زیادہ سیاسی فہم رکھتے تھے اور محمد علی جناح کے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل بنگالی سیاستدانوں نے بڑے زور شور سے پاکستان کی تحریک مشرقی بنگال میں (جو قیام پاکستان کے وقت مشرقی پاکستان بنا) چلائی۔ بنگال میں چلنے والی تحریک میں بڑی تعداد بنگالی نوجوانون کی تھی۔ شیخ مجیب الرحمن بھی اس وقت نوجوان تھے اور آل انڈیا مسلم لیگ اسٹوڈینٹس فیڈریشن کے بانیوں میں سے تھے۔ محمد علی جناح شیخ مجیب الرحمن کی مسلمانوں کے مسائل میں غیر معمولی دلچسپی پر انکو بہت پسند کرتے تھے، یہی وجہ تھی کہ محمد علی جناح نے شیخ مجیب الرحمن کو مسلمان نوجوانوں کو اکٹھا کرنے اور مسلم لیگ میں شامل ہوکر کام کرنے کی ذمہ واری دی۔
میں جب آل انڈیا مسلم لیگ کا کنوینشن لاہور کے َمنٹو پارک جسے بعد میں اقبال پارک کا نام دیا گیامیں ہوا تو اسُ کنوینشن میں اکثریت میں بنگالی قائدین بنگال سے چل کر لاہور آئے اورکنوینشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور قراردادِ پاکستان کی کامیابی کا حصہ بنے، انِ شخصیات میں اے کے فضل الحق، نواب وقار الملک کمبوہ،حسین شہید سہروردی،خواجہ نظام الدین،محمد علی بوگرہ تھے۔ اس کے بعد یوپی، پنجاب، اور بمبئی سے تعلق رکھنے والے قائدین تھے جن میں محمد علی جناح اور سر آغا خان سوئم شامل تھے۔یہاں یہ بات قابل غو ر ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ کنوینشن میں کوئی لیڈر سندھ یا فرنٹیر سے نہیں تھا اور بلوچستان تو پاکستان بننے کے بعد پاکستان میں شامل ہوا تھا۔خیر تحریک پاکستان، قیام پاکستان اور اسکے بعد ہونے والے سیاسی حالات کی داستان بہت لمبی ہے، مگرمیں یہاں 16 د سمبر سقوطِ ڈھاکہ کے حوالے سے کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے نہایت ہی صاف الفاظ میں یہ کہ دیا تھا کہ پاکستان ایک اسلامی فلاحی اور جمہوری ریاست ہوگا جہاں مختلف رنگ، نسل، ثقافت، اور زبان کے لوگ صرف پاکستانی شناخت کےساتھ پاکستان کے شہری ہونگے۔ پاکستان دنیا کے لئے ایک اسلامی مملکت کاماڈل اسٹیٹ ہوگا۔ پاکستان میں دنیا کے ہر مسلمان کے لئے جگہ ہوگی اور اسکو پاکستان میں خوش آمدید کہا جائے گا۔پاکستان عالم اسلام کا ایک قلعہ ہوگا جہاں ہر رنگ و نسل اور مذہب کے شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہونگے۔ مگر 1948 میں قائد اعظم کے انتقال کے بعد ایسا نہ ہو سکا۔ 1949میں قائد اعظم کے سب قریبی ساتھی اور پہلے وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان نے قرار دادِ مقاصد تیارکیا۔ پاکستان کا آئین اس دستاویز کے آئینہ میں تیار ہوتا تھا۔
پھر 1956 میں پاکستان کا آئین مرتکب کیا گیا اور مارچ 1956 میں یہ آئین پارلیمان سے پاس ہو گیا۔ مگر اسِ آئین میں کچھ سقم تھے جس سے مشرقی پاکستان کی قیادت خوش نہیں تھی۔ مثال کے طور پر مشرقی پاکستان کی قیادت چاہتی تھی کہ اردو کے ساتھ بنگالی کو بھی قومی زبان کا درجہ دیا جائے۔بحرکیف مشرقی اور مغربی پاکستان کے سیاسی قائدین کے درمیان پاکستان بننے کے بعد معاملات اور تناظات طول پکڑتے جا رہے تھے۔ شیخ مجیب الرحمن نے مسلم چھوڑ کر مشرقی پاکستان کی نومولود جماعت عوامی لیگ میں شمولیت اختیار کر لی اور بعد میں اس کے صدر بن گئے۔ شیخ مجیب الرحمن مشرقی اور مغربی پاکستان میں کنفیڈریشن چاہتے تھے، وہ مشرقی پاکستان کی مختلف شعبوں میں خود مختاری چاہتے تھے، وہ نہیں چاہتے تھے کہ مشرقی پاکستان کسی بھی فیلڈ میں مغربی پاکستان کے حکمرانوں کا زیر اثر رہے۔ بارحال کئی چیزیں مجیب الرحمن کی مانی جا سکتی تھیں اور باقی چیزوں پر مجیب الرحمن اور مشرقی پاکستان کے لیڈارن کے ساتھ مغربی پاکستان کے لیڈران میز پر مذاکرات کے ذریعہ کسی سمجھوتہ تک پہنچ سکتے تھے۔
بارحال 1957 میں اسمبلی میں حالات خراب ہونے لگے، مغربی اور مشرقی پاکستان کے ارکان میں اختلافات بڑھتے گئے رنجشیں جنم لیتی گئیں اور پارلیمان کو چلانا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ اس وقت مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے چودھری محمد علی پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم تھے اور اسکندر مرزا جن کا تعلق بنگال سے تھا پاکستان کے پہلے صدر تھے۔ 1958 میں اس وقت کے آرمی چیف جن کا تقرر خود اسکندر مرزا نے کیا تھا، اسمبلی کے حالات اور سیاسی بحران کی وجہ سے ملک کا نظم و سخق سنبھالنے کے اسکندر مرزا نے جنرل ایوب خان سے فوج لگانے کا کہا ، ایوب خان نے فوج کو ملک میں نافظ کر دیا مگر پھر جمہوری حکومت کا خاتمہ کر دیا اور پاکستان میں پہلا مارشل لا نافظ کر دیا۔
شیخ مجیب الرحمن سمیت مشرقی پاکستان کے لیڈران نے جنرل ایوب خان کی مارشل لاحکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ یوں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان تناؤ اور بڑھ گیا۔ مگر اس وقت بھی کچھ ایسے سینئر قائدین تھے جو دونوں ملکوں کے لیڈران کو ایک صفحہ پر لا سکتے تھے اور پاکستان کی استحکام کی خاطر کوئی حل نکال سکتے تھے۔ مگر ایوب خان نے اپنے اقتدار کو طول دینے اور
اقتدار پر قابض رہنے کے لئے سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا اور پاکستان کنوینشن مسلم لیگ کے نام سے ایک سیاسی جماعت میدان میں اتار دی۔ ایوب خان نے اس وقت کے ایک نوجوان ذوالفقار علی بھٹوکو جو اسکندر مرزا کی کیبنٹ میں سب سے نیا اور نوجوان سیاستدان تھا پاکستان کنوینشن مسلم لیگ جوائن کرنے کی دعوت دی اور کنوینشن مسلم لیگ کو فعال بنانے کے لئے با اثر سیاستدانوں، پنجاب کے جاگیرداروں، سندھ کے وڈیروں اور سرحد کے قبائلی لیڈران کو کنوینشن مسلم لیگ میں لانے کا کام سونپا۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک موقع پرست انسان تھا، اس نے جنرل ایوب خان کو ڈیڈی کہنا شروع کر دیا اور ایوب خان کی چاپالوسی کرکے کنوینشن مسلم لیگ کے سیکٹریری جنرل کی پوزیشن سنبھال لی۔
پھر 1964میں ایوب خان نے ملک میں انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا اور پاکستان مسلم لیگ جس کی سربراہ فاطمہ جناح تھیں کے خلاف الیکشن کی تیاری شروع کردی۔ اس الیکشن میں فاطمہ جناح کو ہرانے کا پورا جامع پروگرام تیا رکیا گیا۔ فاطمہ جناح پر
سنگین اور شرمناک الزام لگائے گئے اور بالآخر فاطمہ جناح اور پاکستان کی تخلیق کرنے والی جماعت پاکستان مسلم لیگ کو ہرایاگیا۔ واضح رہے اس الیکشن میں فاطمہ جناح کے ساتھ مجیب الرحمن اور مشرقی پاکستان کے بہت سارے سیاستدان ساتھ تھے جبکہ کنوینشن مسلم میں با اثر پنجاب کے جاگیردار، سندھ کے وڈیرے اور سرحد کے سردار تھے۔الیکشن جیتنے کے بعد جنرل ایوب خان سول لباس پہن کر پاکستان کے سول صدر بن گئے۔ مشرقی پاکستان کے سیاستدانوں بشمول مجیب الرحمن کے ساتھ تعلقات مزید خراب ہو گئے۔ پھر ایوب خان نے مجیب الرحمن کو جیل میں ڈال دیا۔مجیب کی عوامی لیگ مشرقی پاکستان میں مضبوط ہوتی جا رہی تھی اور بنگالی مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کے بینر تلے جمع ہو رہے تھے۔ادھر ذوالفقار علی بھٹو نے جب یہ دیکھا کہ ایوب خان کی مخالفت بڑھ رہی ہے اور مغربی پاکستان میں بھی ایوب خان کا اقتدار آگے چلتا نظر نہیں آرہا تو 1967 میں خاموشی سے کنویشن مسلم لیگ اور پاکستان مسلم لیگ میں سے کچھ سیاستدانوں کواپنے ساتھ ملا کر لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پر ایک نئی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی قائم کی گئی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو اسلام کے بر خلاف سیکولرازم سے متاثر ہوکر اسلام ہمارا دین اور سیکولرازم ہماری معیشت کے نظریہ کے تحت بنایا گیا اور پھر روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر پنجاب اور سندھ کے کسانوں اور مزدوروں کو ذوالفقار علی بھٹو نے سنہرے خواب دکھائے۔ ذوالفقار علی بھٹو دوہری شخصیت کا مالک تھا ایک طرف تو وہ اسلام کا نعرہ لگاتا تھا اور ساتھ ہی روس اور کمیونیزم کے نظام سے متاثر تھا۔
مشرقی پاکستان میں سیاسی حالات خراب ہو رہے تھے بنگالی مجیب الرحمن کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے اور عوامی لیگ مشرقی پاکستان میں ایک مضبوط جماعت بن کر ابھر رہی تھی۔ مغربی پاکستان میں صدر ایوب خان کے خلاف احتجاج شروع ہوگئے۔ کراچی، لاہور اور کئی شہروں میں مستقل
ہنگاموں کے بعد ایوب خان نے صدارت سے استعفی دیدیا اور اقتدار جرنل یححی خان کے حوالے کر دیا۔ یححی خان نے ملک میں مارشل لا نافظ کردیا۔ یححی خان کو ملک کے انتظامی امور میں کوئی دلچسپی نہیں تھی وہ ایک عیاش جرنیل تھا۔ خیر یححی خان نے 1970 میں مشرقی اور مغربی پاکستان میں نئے انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا۔ یہ انتخابات بہت شفاف ہوئے۔ تمام جماعتوں نےمیں اس میں حصہ لیا۔شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں تاریخی فتح حاصل کی اور مشرقی پاکستان کی 162 نشستوں میں سے 160 نشستوں پر عوامی لیگ نے کامیابی حاصل کی، اسکے علاوہ خواتین کی سات سیٹوں میں سے سات پرعوامی لیگ نے کامیابی حاصل کی۔ مغربی پاکستان میں 138 نشستوں میں ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی نے 81 نشستوں پر فتح حاصل کی عورتوں کی پانچ نشستوں پر بھی جیت حاصل کی۔ لحاظہ انتخابات کے تنائج کے نتیجہ میں جرنل یححی خان کو اقتدار
شیخ مجیب الرحمن اور اسکی عوامی لیگ کے حوالے کر دینا چائیے تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ مجیب الرحمن نے دھمکی دی کہ جمہوریت کا تقاضہ ہے کہ پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا جائے اور اکثریتی جماعت عوامی لیگ کو حکومت بنانے کی دوعوت دی جائے۔ مگر ایسا نہیں کیا گیا کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو نے فوج کو دھمکیاں دینی شروع کردیں تھیں کہ اگر اقتدار عوامی لیگ کو دیا گیا اور مشرقی پاکستان کے پاس حکومت گئی تو وہ اس کو ہر گز قبول نہیں کریں گے۔ مجیب الرحمن نے جنرل یححی خان سے کہا پارلیمنٹ کا اجلاس ڈھاکہ میں فوری طور پر منعقد کیا جائے۔ مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے عوام سڑکوں پر آگئے۔ مجیب الرحمن نے مشرقی پاکستان بھر میں آرمی کی حکومت کے خلاف تحریک چلائی اور یححی خان کو دھکمی دی کہ اگرپارلیمنٹ کا اجلاس نہیں بلایا گیا اور اقتدار کی منتقلی انتخابات کے تنائج کے تحت نہیں کی گئی تو مشرقی پاکستان کے عوام اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا حق رکھتے ہیں اور ہم پھر مغربی پاکستان سے آزادی کی تحریک چلائیں گے۔ مجیب الرحمن کی اس ڈیمانڈ پر بھارت کی اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے مجیب الرحمن کا ساتھ دینے کا اعلان کردیا، اور مشرقی پاکستان کی سرحد پر حملہ کر دیا۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ ہوئی۔ مشرقی پاکستان میں بھارتی فوج نے عوامی لیگ کے اصلحہ بردار مکتی باہنی کے ساتھ مل کر پاک فوج کے خلاف جنگ کی اور چند ہفتوں میں ہی پاکستان کی فوج کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا۔ پھر 16دسمبر 1971 کومشرقی پاکستان میں تعئنات پاکستانی فوج کے چیف جنرل امیر عبداللہ خان نیازی نے بھارتی لیفیٹنٹ جرنیل جگجیت سنگھ اروڑہ کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے۔ یہ سانحہ بھارت کے ہاتھوں شکست اورمشرقی پاکستان کی علیحدی کا سانحہ نہیں تھابلکہ انُ لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں اور قائد اعظم محمد علی جناح کے نظریات اور نظریہ پاکستان کا خاتمہ تھا۔ ہم نے مشرقی پاکستان ہی نہیں کھویا بلکہ ایک نظریہ جس کی بنیاد پر دنیا میں مسلمانوں کی ایک عظیم ریاست پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کا خواب چکنہ چور ہوگیا۔
آج پاکستان تو قائم ہے اور ہم پاکستانی عوام یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ پاکستان ہمیشہ قائم رہے گا مگر تلخ اور شرمناک زمینی حقیقت یہ ہے کہ یہ وہ پاکستان نہیں رہا جس کا خواب برصغیر کے مسلمانوں نے دیکھا تھا۔ آج اسِ پاکستان میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے اقوال اور اصولوں کا پامال کیا جاتا ہے۔ آج عملی طور پر کوئی پاکستانی نہیں بلکہ پنجابی، سندھی، بلوچی، پٹھان، سرائیکی، مہاجر وغیرہ وغیرہ ہیں۔
ہم چھ ستمبر یوم دفاع تو بڑے فخر سے مناتے ہیں مگر سقوطَ ڈھاکہ 16 دسمبر کو ایک سیاہ باب کے طور پر یاد نہیں کرتے اور اس سے ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ آج پاکستان کو لوٹنے والے لیڈر ان ہیں۔ پاکستان کے نظریات کی دھجیاں بکھیرنے والے اعوان اعلی میں بیٹھے ہیں۔ جب پاکستان وجود میں آیا تو پاکستانی روپیہ امریکی ڈالر اور برطانوی پانڈ سے بڑا تھا، آج پاکستانی روپیہ بنگلادش کے ٹکہ سے بدتر ہے۔ آج ہماری معیشت بنگلادیش، نیپال، اور بھارت سے زیاد خراب ہے۔ آج ہم عالمی مالیاتی اداروں کے مقروض ہیں اور ان قرضوں کا سود ادا کرنے کیلئے دوسرے ملکوں سے بھیک مانگتے ہیں۔ یہ سب ہمارے کرتوتوں کی سز ا اور ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے۔
سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیاء