:سید عتیق الحسن
پاکستان پیپلز پارٹی کے 28 سالہ چئیر پرسن بلاول زرداری نے سندھ کی نئی کابینہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ ہر کام میرٹ پر کریں انہوں نے مزید کہا کہ سندھ کو کرپشن سے پاک کیا جائے ۔ بلاول زرداری 1988 میں اُس وقت پیدا ہوئے جس وقت کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں میں مہاجروں کے ساتھ آگ اور خون کا کھیل کھیلا جارہا تھا ۔ آج جو سندھ حکومت پر قابض ہیں ان میں کچھ چہرے تو وہیں ہیں اور کچھ انکی اولادیں ہیں جو اسُ وقت مہاجروں کے خلاف آپریشن کا حصہ تھے۔ بلاول زرداری نے میرٹ کی بات ہے مگر اسِ نوجوان کو شاید یہ پتہ نہیں کہ اگر سندھ میں کسی نے میرٹ کا خون کیا ہے تو وہ انکے نانا اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو تھے جس نے سندھ کو شہری اور دھی کا نام لیکر لسانی بنیادوں پر تقسیم کیا۔ بلاول بھٹو کو شاید معلوم نہیں کہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی تعریف کے مطابق سندھی صرف وہ ہے جو سندھی زبان بولتا ہے ، اسیِ لئے قیامِ پاکستان سے آج تک سندھ کا وزیر اعلی سندھی زبان بولنے والے کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں آیا ۔ کیا یہ ایک اتفاق ہو سکتا ہے یا پھر یہ کہ سندھی زبان بولنے والوں کے علاوہ سندھ میں کوئی ایک شخص بھی اسِ قابل نہیں کہ اسُ کو سندھ کا یہ عہدہ دے دیا جاتا اور ثابت کیا جاتا کہ سندھ میں جو بھی آباد ہیں سب سندھی ہیں اور برابر ہیں ۔ اسِ حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ سندھ ایک کثیر الثافت صو بہ ہے جس میں سندھی اور غیر سندھی زبان بولنے والے تقریبا آدھے آدھے کے تناسب سے موجود ہیں۔
مغرب کے ماحول میں پرورش پانے والے بلاول بھٹو نے یہ بھی نہیں سیکھا کہ حقیقی جمہوریت کسی حکومت یا جماعت میں اسُ وقت تک نافظ نہیں کی
سکتی جب تک میرٹ پر یقین نہ ہو۔ لفظ صرف سیاسی بیان کے لئے استعمال کرنے والوں کو شرم سے ڈوب مرنا چائیے!
بلاول زرداری کو یہ بھی معلوم نہیں کہ جس جماعت میں وہ پیدا ہوئے ہیں اسُ جماعت کے اپنے اندر جمہوریت اس کے قیام سے لیکر آج تک نافظ نہیں ۔ آمریت اور حاکمیت کی زندہ مثال بلاول زرداری بد قسمتی سے خود تم ہو۔ تم میں ایسی کیا قابلیت تھی پاکستان پیپلز پارٹی کے 25 سال کی عمر میں چئیر مین بننے کے سوائے اسِ کے کہ تم بے نظیر اور آصف علی زرداری کی اولاد ہو۔ تمہیں نہ میرٹ اور نہ ہی جمہوریت کی بات زیب دیتی ہے۔ اگر پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد میرٹ اور جمہوری عمل پرہوتی تو آج تم کم سےکم پیپلز پارٹی کے چیر پرسن نہ ہوتے اور نہ ہی تمھارے والد کو پاکستان جیسی پاک زمین کا صدر بنایا گیا ہوتا۔ آج سندھ میں نئے وزیر اعلی سے لیکر وزیر و مشیر اکثریت میں وہ ہیں جن کے باپ یا ماں بھی وزیرو مشیر تھے۔ خود مراد علی شاہ کے والد عبداللہ شاہ بھی سندھ کے وزیر اعلی رہ چکے ہیں۔
بلاول زرداری کو شاید یہ بھی معلوم نہیں کہ دوبئی پاکستان یا سندھ کا دارالخلافہ یا لاڑکانہ کا جڑواں شہر نہیں بلکہ امراء کے لئے بین الاقومی عیاشی کا اڈا ہے جہاں دنیا بھر کی عیاشی کےسوا اور کچھ نہیں، لحاظہ تمھارے والد محترم نےاپنے مزاج کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی اور سندھ کو چلانے کے لئے کراچی، حیدرآباد یا کسی اور سندھ کے بڑے شہر کا انتخاب نہیں کیا بلکہ دنیا کے مہنگے ترین اور عیاش ترین شہر کا انتخاب کیا ہے۔
ا ب آئیے بلاول زرداری کے کرپشن کے خلاف بیان کی طرف تو بلاول زرداری کو شاید یہ بھی معلوم نہیں کہ انکے والد اگر کسی وجہ سے دنیا میں مشہور ہوئے تو وہ نام تھا، “مسٹر 10 پرسنٹ”۔ مجھے یہاں ایک واقع یاد آگیا۔ جب آصف علی زرداری کو بد قسمتی سے پاکستان کی تمام پارلیمنٹ میں بیٹھی جماعتوں نے صدر پاکستان منتخب کیا تو یہاں آسٹریلیا میں ایک سینئر سیاستدان اور رکن قومی اسمبلی نے مجھے کیمبرہ سے فون کیا اور کہا کہ وہ کنفرم کرنا چاہتے ہیں کہ کیا یہ آصف علی زرداری جو پاکستان کا نیا صدر بنا ہے وہی ہے جو بے نظیر بھٹو کا شوہر تھا میں نے کہا بالکل وہی ہے تواس نے کہا کہ میں اپنے ساتھی رکن پارلیمنٹ سے شرط ہار گیا کیونکہ مجھے یقین تھا کہ یہ وہ آصف علی زرداری نہیں ہو سکتا کیونکہ پاکستان کی عوام کسِ طرح سے آصف علی زرداری کو پاکستان کا صدر بنا سکتی ہے جو 10 پرسنٹ کے نام سے بد نام زمانہ ہو ، پھر انِ معمر آسٹریلوی سیاستدان نے مجھ سے آصف علی زرداری کے 10پرسنٹ کے حوالے سے ایک واقعہ بھی شئیر کیا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ آصف علی زرداری نے آسٹریلیا میں ایک کانٹریکٹ حاصل کرنے کے لئے ایک آسٹریلوی اہم شخصیت کو 10 فیصد کمیشن کی پیشکش کی تھی جس پر آصف علی زرداری کو منہ کی کھانی پڑی تھی ۔
بلاول زرداری کو شاید یہ بھی معلوم نہیں کہ سندھ کی جس نئی کابینہ پر انہوں نے مہر لگائی ہے انُ میں کئی پر اسِ وقت بھی نیب میں کرپشن کے مقدمات رجسٹرڈہیں۔ بلاول زرداری نے نئی کابینہ کی تبدیلی کی وجہ بڑے جوش و جذبہ یہ بتائی کہ وہ سندھ کی عوام کی حالت بہتر بنانا چاہتے ہیں، سندھ کو کرپشن فری صوبہ بنانا چاہتے ہیں اور سندھ میں امن لانا چاہتے ہیں، مگر بلاول زرداری نے یہ نہیں بتایا اگر یہ نئی کابینہ سندھ کی تقدیر بدلے گی، میرٹ پر کام کرے گی اور سندھ سے کرپشن ختم کریگی تو پھر پچھے 30 سالوں سے قائم علی شاہ کسِ طرح سندھ حکومت میں کیا کر رہے تھے؟ یہ پچھلے انتخابات کے تین سال بعد اور اگلے انتخابات سے دو سال پہلے سب کچھ کیوں دیا آرہا ہے۔ کیا آپ کی چالاکیوں کے آگے سب بے وقوف ہیں؟ پاکستان میں کسِ شریف آدمی کو نہیں پتہ کہ اگر کسی جماعت نے پاکستان میں کرپشن کے کلچر کا آغاز کیا تو وہ پاکستان پیپلز پارٹی ہے۔ سندھ میں اگر کسی جماعت نے تقسیم کی سیاست شروع کی تو وہ پاکستان پیپلز پارٹی ہے جس کے معاشرتی جرائم کی فہرست اسِ مضمون میں میں نہیں سما سکتا۔ سونے پر سہاگہ یہ ہے کہہ سندھ کی دوسری بڑی سیاسی جماعت اور کراچی کا 85 فیصد مینڈیٹ کا دعوی کرنے والی متحدہ قومی مومنٹ نے سندھ اسمبلی میں نئے وزیر کے انتخابات میں حصہ ہی نہ لینے کا فیصلہ کیا اور نہ صرف بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی۔ وزیر اعلی کے انتخاب کا بائیکاٹ بھی کیا اور پورے عمل میں اجلاس میں بیٹھے بھی رہے ، نہ صرف بیٹھے رہے بلکہ جانے اور آنے والے وزیر اعلی کی تعریفوں کے پل باندھ دئیے۔ نہ ہی امیدوار کھڑا کیا اور ہی کسی کھڑے امیدوار کو ووٹ دیا مگر پھر بھی اسپیکر صاحب نے روف صدیقی کو جیل سے بلا لیا اور نہ صرف یہ کہ انکو ووٹنگ کے عمل میں حصہ لینے کے لئے بلایا گیا جب کہ ایم کیو ایم نے اسِ عمل میں حصہ بھی نہیں لینا تھا اور پھر روف صدیقی صاحب کو ایک لمبی تقریر کی اجازت بھی دی گئی ، پھر موصوف نے نہ تو انُ پر اور ان کے ساتھیوں پر مقدمات بنانے اورجیل میں ڈالنے پر کوئی احتجاجی تقریر کی بلکہ روف صدیقی صاحب نے اسپیکر، نئے اور پرانے وزیر اعلی تعریفوں کے پل قران اور حدیثوں کے روشنی میں باندھ دئیے ، لگ یوں رہا تھا کہ جیسے روف صدیقی صاحب کو جیل سے ایوان میں صرف تقریر کے لئے ہی بلایا گیا تھا اور یہ محاہدہ میں کا ایک حصہ تھا۔ بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی ۔ ایم کیو ایم کے پارلیمانی قائد نے بھی قائم علی شاہ کی تعریفوں کے پل باندھ دئیے۔ عام آدمی اسِ سارے کھیل کو سمجھ سکتا ہو یا نہیں مگر ایک سیاسی سمجھ رکھنےوالا ذی شعور انسان یہ سب تماشہ دیکھ رہا ہے۔
میں نے بہت پہلے ایک تبصرہ میں قلم بند کیا تھا کہ سندھ میں ایک بدعنوان سیاسی نظام کو مضبوط کر دیا ہے کہ جس میں پاکستان پیپلز پارٹی نے بڑی چالاکی اور دور اندیشی کے ساتھ ایم کیو ایم کی طاقت کو مختلف طریقوں سےاپنے ساتھ ملانے کے عمل کو جاری و ساری رکھا ہوا ہے کیونکہ جب تک ایم کیو ایم کا پیپلز پارٹی کا ساتھ ہوگا اسُ وقت تک پیپلز پارٹی سندھ میں اپنا قبضہ قائم رکھے گی ۔ آج متحدہ قومی مومنٹ کو یہ بات کیوں یاد نہیں کہ نئے وزیر علی مراد علی شاہ وہی شخصیت ہیں جن کے والد بےنظیر کے دور حکومت میں یعنی 1993 میں سندھ کے وزیر اعلی تھے جب بے نظیر کی حکومت نے ایم کیو ایم کےخلاف بد ترین آپریشن کیا اور ایم کیو ایم کے سینکڑوں کارکنوں کو ماورائے عدالت قتل کیا۔یہ صاف نظر آرہا ہے کہ مراد علی شاہ کو ایم کیو ایم سے ایک ڈیل کے بعد وزیراعلی لایا گیا ہے اور اب لوگ عنقریب دیکھیں گےکہ مراد علی شاہ کی اسِ حکومت میں ایک دو بےمعنی وزارتیں ایم کیو ایم کو خیرات میں دے دیں جائیں گی اور نیز ان پر قائم مقدمات بتدریج ختم کر دئیے جایئں گے ۔ یاد رہے جب اسِ نئے وزیر اعلی اور نئی کابینہ کا فیصلہ دوبئی میں کیا جارہا تھا تو نواز شریف کے ہم زلف اسحاق ڈار کو بھی دوبئی بلایا گیا تھا، رحمن ملک بھی دوبئی لندن کی ایک اہم شخصیت کی نمائندگی کر رہے تھے وغیرہ وغیرہ۔ کیا یہ سب 2018 کے اگلے انتخابات کی تیاریاں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب باتیں سندھ کا عام آدمی بلا تفریق سمجھ رہا ہے اس کا فیصلہ آنے والے عنقریب حالات ہی فیصلہ کریں گے؟