سقوط ڈھاکہ سولہ دسمبر: ایک ناقابل فراموش سبق

بقلم سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا

آج 16 دسمبر سقوطِ ڈھاکہ کا دن ہے، وہ دن جب 1971 میں قائداعظم محمد علی جناح کا پاکستان دو لخت ہو گیاتھا۔ مشرقی پاکستان، جو بانیانِ پاکستان کی جدوجہد کا اٹوٹ حصہ تھا، مغربی پاکستان سے جدا ہو گیا۔ صرف 25 سال کی مختصر مدت میں پاکستان سے ایک اور ملک، بنگلہ دیش، دنیا کے نقشے پر ابھرا۔

دنیا حیران تھی کہ اسلامی دنیا کا سب سے بڑا ملک، جو ایک جدید اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے خواب کے ساتھ وجود میں آیا تھا، اس طرح آدھا کیسے ہو گیا۔ اسلامی دنیا میں افسوس کا ماحول تھا، لیکن مغربی پاکستان میں حالات روزمرہ کی زندگی کی طرح جاری رہے۔ جو لوگ اس سانحے پر سوگ منانا چاہتے تھے یا مشرقی پاکستان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف آواز بلند کرنا چاہتے تھے، ان پر سخت پابندیاں عائد تھیں۔

سیاسی حقائق اور تاریخ کی بے رحمی

مشرقی پاکستان میں گزشتہ کئی سالوں سے جاری سیاسی جدوجہد اور بنیادی حقوق کی مانگ پر مغربی پاکستان کے میڈیا میں مکمل پابندی تھی۔ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح، جو بانی پاکستان محمد علی جناح کی بہن اور مسلم لیگ کی صدر تھیں، کو گھر میں نظر بند رکھا گیا تھا۔ ان پر سیاسی بیانات دینے یا میڈیا میں ان کا ذکر کرنے تک کی پابندی تھی۔

یہی نہیں، اگر مشرقی پاکستان یا مہاجرین کے حقوق کے لیے کراچی میں آواز بلند کی جاتی تو جھوٹے مقدمات قائم کرکے جیلوں میں ڈال دیا جاتا۔ ایک موقع پر جنرل ایوب خان نے مہاجروں کو  ۔مہاجرو، تم بھارت چھوڑ کر کراچی آ تو گئے ہو، مگر یاد رکھو تمہارے لیے آگے بس سمندر ہے۔مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا

قومی قیادت کا قتل اور استحصال

شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ، جماعت اسلامی، مولانا شاہ احمد نورانی کی جمعیت علمائے اسلام، اور ولی خان کی عوامی نیشنل پارٹی نے مشرقی پاکستان کے عوام کے بنیادی حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔ فاطمہ جناح کے سیاسی موقف کی حمایت کرنے والی ان شخصیات کو جھوٹے مقدمات میں جیلوں میں ڈال دیا گیا۔

جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، اور ذوالفقار علی بھٹو کے ادوار میں مشرقی پاکستان کے جائز مطالبات کو مغربی پاکستان میں غداری سمجھا جاتا رہا۔ فاطمہ جناح پر بھی غداری کا الزام لگایا گیا۔ ان کے انتقال کے حوالے سے سرکاری موقف آج بھی مشکوک ہے، اور کہا جاتا ہے کہ انہیں قتل کیا گیا تھا، لیکن کسی قاتل کو کبھی سزا نہیں دی گئی۔

سقوطِ ڈھاکہ کے اثرات

سولہ دسمبر ہر سال آتا ہے اور خاموشی سے گزر جاتا ہے، لیکن نہ سوگ منایا جاتا ہے اور نہ ہی ماتم کیا جاتا ہے۔ جنہوں نے پاکستان کو دولخت کیا، وہ آج بھی اس سانحے کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے بنگالیوں کو “بھونکے بنگالی” کہہ کر ان کی تذلیل کی، اور معمار پاکستان بنگالیوں کو مغربی پاکستان کا دشمن سمجھا۔ آج بنگلہ دیش، وہی “بھونکے بنگالیوں” کا ملک، ترقی کی راہ پر گامزن ہے، اور پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی باتیں کی جا رہی ہیں تاکہ وہاں سے بھی کچھ بھیک  حاصل کی جا سکے۔

ظلم کا تسلسل

سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ محض ایک تاریخ کا حصہ نہیں رہا۔ پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے میں 150 معصوم بچوں کی شہادت نے بھی اسی سفاکی کی یاد تازہ کی۔ یہاں تک کہ سوالات اٹھائے جاتے ہیں کہ کیا اس حملے کے پیچھے بھی کچھ اندرونی سازشیں تھیں ؟ کیا اسِ خون کی ہولی کے پیچھے بھی وہی ایجنسیاں شامل تھیں جنہوں نے لیاقت علی خان، فاطمہ جناح اور پھر لاکھوں بنگالیوں کو بے دردی سے قتل کیا۔

موجودہ حالات اور عمران خان

آج عمران خان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو سقوطِ ڈھاکہ کے بعد سے پاکستان کی سیاست میں جاری ہے۔ یہ المیہ ہے کہ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں عوام اپنی فوج سے نفرت کر نے پر مجبور ہے۔ خیبر پختونخوا ہ اور بلوچستان کے عوام کے ساتھ ہونے والا ظلم بھی مشرقی پاکستان کی کہانی کا تسلسل معلوم ہوتا ہے۔

پاکستان کی فوج پر الزام ہے کہ وہ عالمی طاقتوں کے مفادات کے تحت کام کرتی ہے۔ خیبر پختونخوا ہ اور بلوچستان کو علیحدہ کرکے ان علاقوں کو فوجی اڈے میں تبدیل کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ پنجاب کے چودھری اور وڈیرے شاید اس تقسیم پر خوش ہوں گے، لیکن حقیقت میں یہ منصوبہ ملک کی بقا کے لیے سنگین خطرہ ہے۔

اختتامیہ

پاکستان کے قیام کو 77 سال گزر چکے ہیں، لیکن آج بھی عوام ان ہی مسائل کا شکار ہیں جو سقوطِ ڈھاکہ کا سبب بنے۔ اگر ہم نے تاریخ سے سبق نہ سیکھا تو وہ دن دور نہیں جب باقی ماندہ پاکستان بھی مختلف حصوں میں بٹ جائے گا۔

یاد رکھیں، سولہ   دسمبر محض ایک دن نہیں، بلکہ ایک سبق ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ناانصافی، عدم مساوات، اور ظلم کسی بھی قوم کو برباد کر سکتا ہے۔

سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا

Recommended For You

About the Author: Tribune