.بقلم سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا
محب الوطن، صحافی، کالم نگار، تجزیہ نگار ، دانشوراور پاکستان کا درد رکھنے والے سیاستدان ہمیشہ سے پاکستان کی لاج، وقار اور عزت کی خاطر انُ حرکتوں کو پاکستانی عوام اور دنیا کے سامنے لانے سے پرہیز کرتے رہے جن سے پاکستان کی جگ ہنسائی ہو وطن عزیز کی سلامتی کو ممکنہ خطرہ ہو۔ مگر اب شاید وقت گزر گیا جو ملک کے اقتدار پر قابض ہیں انہوں نے ہی پاکستان کی جگ ہنسائی اور بدنامی اپنی حرکتوں سے کرنی شروع کردی ہے تو پھر محب الوطن دانشوروں، صحافیوں ، کالم نگاروں اور تجزیہ نگاروں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ تمام اشاروں کنایوں کو ایک طرف رکھ کر وہ حقائق سامنے لائیں جن کی ہمیشہ پردہ پوشی کی جاتی رہی ہے۔
پاکستانی قوم کو ہمیشہ سے یہ سبق پڑھایا گیا کہ پاکستانی فوج نے ہمیشہ ملک کی حفاظت کی ہے اور فوج کا احترام و عزت کرنا پاکستان کی عزت و وقار کے لئےسب پر لازم ہے۔ بات تو بالکل ٹھیک ہے اور دنیا کے ہر ملک کے عوام اپنے دفاعی اداروں کی عزت کرتے ہیں مگر جتنی عزت اور احترام پاکستانی اپنے دفاعی اداروں کی کرتے رہے ہیں شاید ہی کسی اور ملک کی عوام نے اپنے دفاعی اداروں کی ہوگی ۔
آج پاکستان معاشی ، سیاسی اور دفاعی سطح پر ایسے مقام پر کھڑا ہے کہ کسی وقت بھی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی خبر کی طرح کہانی دوھرائی جا سکتی ہے۔ پاکستان کا اقتدار ایسے عناصر کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے جو بنیادی طور پر نظریہ پاکستان اورپاکستان کی سالمیت و استحکام کے دشمن ہیں۔ جی ہاں یہ کون سی طاقت ہے جس نے چوروں، ملزموں ، مجرموں اور ملک دشمنوں کو پاکستان کا دیوالیہ ہونے اور بیرونی طاقتوں کے ہاتھوں گروی رکھنےکے منصوبہ پر عمل در آمد کیا ہے؟ آج پاکستان کے دانشور، صحافی، کالم نگار، ٹی وی اینکرز اور محب الوطن سیاستدانوں کی اکثریت جانتی ہے مگر ہمیشہ کی طرح خاموش ہے۔ محب الوطن پاکستانی سمجھتے ہیں کہ اگر حقیقتوں کو سامنے لایا گیا تو ایک تو یہ ریاستی طاقتیں انُ افرادکو اسِ دنیا سے فارغ کر دیں گیں نیز یہ کہ پاکستان کا وقار مجروح ہوگا اور بدنامی بھی ہوگی ۔ مگر اب اس سے زیادہ بدنامی کیا ہوگی جو انِ طاقتوں نےپاکستان کے ساتھ کی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ حرکتیں تو پاکستان میں پچھلے ستر سالوں سے جاری ہیں اور انہیں حرکتوں کی وجہ سے بنگالیوں کو غدار قرار دیکر ایک اکثریتی جماعت کو حکومت نہیں دی گئی ،جس کے نتیجہ میں مشرقی پاکستان کو پاکستان سے جدا کر دیا گیا۔موت اور زندگی تو اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وطن کی حفاظت کرنا ہر محب الوطن پاکستانی کی ذمہ داری ہے لحاظہ کیا انُ ریاستی طاقتوں کے کرتوتوں پر خاموش رہنے سے پاکستان کے استحکام کے خلاف سازش سے نمٹا جا سکے گا! ہر گز نہیں تو پھر اب وقت آگیا ہےکہ ہم ہر اسُ سازش اور کاروائی کے اصل مجرموں کو سامنے لائیں تاکہ ہم اپنی نئی نسل کو پاکستان کی دردناک کہانی بتا سکیں۔ آج شاید ہمارے پاس بس ایک آخری موقع ہے کہ ہم وطن عزیز کو بچا سکیں تاکہ ہماری نئی نسل ایک حقیقی آزاد ریاست میں سانس لے سکیں ۔
میں اپنے ماضی کے کئی تجزیوں میں پاکستان کے ساتھ کئے گئے ظلم و ستم کی داستانیں قلم بند کر چکا ہوں ، مگر میں بھی دوسرے محب الوطن تجزیہ نگاروں اور صحافیوں کی طرح اشاروں کنایوں میں بات کرتا رہا ہوں اور انُ ریاستی طاقتوں کی طرف اشارہ کرتا رہا ہوں جو پچھلے ستر سالوں سے پاکستان پر قابض ہیں۔ مگر اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کی بقا کر خاطر حقیقت کو کھل کر بغیر کسی لگی لپٹی کےپاکستان کی سالمیت اور جمہوری نظام کے خلاف سازشوں کو بے نقاب کرنا ہوگا اور ان عناصر کو بے نقاب کرنا ہوگا جنہوں قائد اعظم محمد علی جناح کے پاکستان اور نظریہ پاکستان کو تار تار کرکے پاکستان کو معاشی ، سیاسی اورجمہوری طور پر ختم کر دیا ہے۔
پہلی چیز تو یہ ہے کہ جب ہم پاکستانی فوج کی طرف انگلیاں اٹھاتے ہیں تو ہمارا مقصد پاکستان کے دلیر اور جان فشاں سپاہی اور فوجی افسر نہیں ہوتے بلکہ وہ انفرادی جرنیل ہوتے ہیں جو پاکستان کی حکومتی نظام میں مداخلت کرتے رہے ہیں اور اپنا آمرانہ نظام پاکستان پر مسلحط کئے ہوئے ہیں ۔ اور یہ سب کچھ اسِ لئے کرتے ہیں کہ یہ شروع سے ہی برطانوی سامراج اور امریکہ کے غلام ہیں۔ یہ برطانیہ اور امریکہ کے کہنے پر ملک کے مزید ٹکڑے کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔
پاکستان کی بائیس کروڑ عوام پاک افواج کی عزت کرتی ہے مگر انُ جرنیلوں کی دل میں کوئی عزت نہیں جنہوں نے بنگلادیش بنانے میں، ملک میں صوبائیت کو فروغ دینے میں، حقیقی جمہوری نظام کے نفاظ میں رکاوٹ ، اور پاکستان کے قبائلی ، جاگیرداری اور کرپٹ عناصر کے ساتھ مل کر ملک میں نام نہاد جمہوریت کے نام پر ملک کو معاشی، سیاسی اور جمہوری سطح پر تباہ حال کرنے اور عوام پر ریاستی جبر ڈھانے میں کوئی کثر نہ چھوڑی ہے۔
آج پاکستان کے اقتدار میں ملزموں، مجرموں اور بدعنوان عناصر کو حکومت میں بٹھا کر اِن جرنیلوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ ہی ان بد کردار لوگوں کے محافظ ہیں اور ٹھگوں کو حکومت کے اعلی عہدوں پر بٹھا کر اپنی ریاستی طاقت کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔آج ایک چلتی ہوئی حکومت کو سرے عام دھاندلی سے فارغ کر دیا گیا کیوں؟ اسِ لئے کہ اسُ حکومت کے وزیر اعظم نے آرمی کے سربراہ کی بات ماننے اور امریکہ کی طرف سے بنائی گئی سازش کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھا۔
عمران خان کی رواں دواں حکومت کو ہٹا کر مجرموں کو اقتدار میں بٹھانے کی حرکت پاکستان میں پہلی مرتبہ نہیں کی گئی بلکہ اسِ کی تاریخ پچھلے ستر سال پر محیط ہے۔ آئیے ماضی ماضی میں جھانکتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اسِ کا سرا کہاں سے ملتا ہے اور کسِ طرح سے انِ جرنیلوں نے اپنے مغربی آقائوں کے اشاروں پر نظریہ پاکستان اور مقاصد پاکستان کو دفن کیا۔
ہندوستان کی تقسیم کے وقت ہندوستان کی افواج کی بھی تقسیم ہوئی، ایک چھوٹا حصہ پاکستان کی افواج کے طور پر پاکستان کے حصہ میں آیا مگر پاکستانی فوج کا سربراہ ایک برطانوی فوجی جنرل سرفرینک میسروی کو بنایا گیا ، پھر ۱۹۴۸ کو ایک اور برطانوی جنرل سر ڈوگلس گریسی کو پاک فوج کا سربراہ بنایا گیا جو ۱۹۵۱تک برقرار رہا۔ دوسری جانب ہندوستان نے اپنا پہلا فوجی جنرل ایک ہندوستانی فیلڈ مارشل کوڈینڈیرا ماڈپپا کریپپا کو بنایا۔ واضح رہے کہ بانی قائد پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کے قیام کے بعد بہت علیل تھے اور
کوئٹہ میں اپنی زندگی کے آخری ایام گزار رہے تھے، حکومتی سرگرمیوں میں فیصلے کرنے میں قائد اعظم کو بہت کم شامل کیا جاتا تھا۔ قائد اعظم یہ چاہتے تھے کہ پاکستان کا دفاعی چیف
ایک پاکستانی ہو مگر برطانوی سامراج نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ اسُ وقت ایوب خان برطانوی فوج میں برگیڈئیر کے عہدہ پر فائز تھا۔ ایک موقع پر قائد اعظم نے کسی تقریب میں ایوب خان کو دیکھا اور پوچھا کہ یہ کسِ درجہ کا آرمی آفیسر ہے تو بتایا گیا کہ یہ برگیڈئیر ہے ، انگریز سامراج کا لاڈلہ ہے اور آنے والے دنوں میں جنرل کے عہدہ پر فائز ہو سکتا ہے ، قائد اعظم نے لیاقت علی خان سے کہا کہ اسِ سے ہوشیار رہیں یہ چالاک اور پاکستان سے زیادہ گوروں کا فرمانبردار لگتا ہے۔ قائد اعظم ۱۹۴۸ کو اسِ دنیا سے کوچ کر گئے اور اس کے ساتھ ہی قائد اعظم کے بتائے ہوئے راستے اور مشن کو بھی لپیٹنا شروع کر دیا گیا۔ ۱۷ جنوری ۱۹۵۱کو ایوب خان کو برطانوی سامراج نے ترقی دیکر جنرل فیلڈ مارشل بنایا گیا اورپاکستان کی فوج کا سپہ سالار بنا دیا گیا۔ جنرل ایوب خان برطانوی فوج کا ایک فرمانبردار فوجی آفیسر رہا تھا جو کہ اس نے پاکستان کا آرمی چیف بننے کے بعد بھی اپنی فرمابردی برطانوی سامراج سے نبھائی ۔ پاکستان کو امریکی بلاک میں شامل کیا جس کے بدلے میں امریکہ سے فوجی اصلحہ اور مالی امداد حاصل کی۔ یہاں سے ایک آزاد اسلامی ریاست کی امریکی غلامی شروع ہوتی ہے۔
پاکستان کی پارلیمان میں بنگالی ارکانِ پارلیمان میں مغربی پاکستان کے ارکان سے کہیں زیادہ تھا، انکے مطالبات نہیں مانے جا رہے تھے اور مشرقی پاکستان میں آئے دنِ احتجاج ہو رہے تھے۔ پاکستان کے صدر اسکندر مرزا جو خود ایک بنگالی تھے جنرل ایوب خان کو ملک میں ایمرجنسی نافظ کرنے کے لئے ۱۹۵۷ میں عارضی طور پر ملک کا نظم و ضبط قابو میں کرنے کے لئے بلایا مگر امریکہ کے اشارے پر ایک سال کے اندر ہی جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کا تختہ الٹ کر ۱۹۵۸ میں پاکستان میں پہلا مار شل لا نافظ کر دیا اور یو ںملک ایک جمہوری نظام سے فوجیوں کے ہاتھوں اور امریکہ کی غلامی میں چلا گیا جو آج تک قائم ہے۔
ہمیں یہ پڑھایا گیا کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان پانچ جنگیں لڑی گئیں جن میں پاک فوج نے فتوحات حاصل کیں۔ آئیے ذرا ان کا بھی پوسٹ مارٹم کر لیتے ہیں۔
ہمیں شروع سے یہ پڑھایا گیا اور بتایا گیا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلی جنگ کشمیر کی آزادی کےلئے ۱۹۴۸ میں ہوئی جس میں پاکستان کی فوج نے بھارت کی فوج کو شکست دی
اور آدھا کشمیر جو آج آزاد کشمیر ہے حاصل کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ جنگ وزیرستان اور پاکستان کے شمالی علاقوں کے مجاہدین نے کشمیریوں کے ساتھ مل کر بھارتی فوجیوں کے خلاف لڑی۔ کئی دنوں تک یہ جنگ جاری رہی اور مزید جاری رہتی تو پورےکشمیر کو مجاہدین نے آزاد کرا لینا تھا۔ پھر فوج نے بھی مجاہدین کے ساتھ جنگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ ہندوستان جنگ روکنے کے لئے اقوام متحدہ چلا گیا اور جنگ بندی کے لئے اقوام متحدہ سے اپیل کی۔ جنرل ایوب خان نے حامی بھر لی اور پھر کشمیر کی آزادی کے لئے ایک قرار دا د منظور کی گئی جس کے مطابق کشمیر میں عام رائے شماری کے ذریعہ کشمیروں کی رائے کے مطابق کشمیر کا فیصلہ ہوگا جو آج تک نہیں ہوسکا۔ لحاظہ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کشمیر کی اسُ جنگ میں پاک فوج کا کیا کردار تھا اور ایوب خان کس کا حکم کو بجا لا رہا تھا۔
جنرل ایوب خان نے ۱۹۵۸کوپاکستان میں مار شل لا نافظ کرکے پاکستان کی بانی جماعت پاکستان مسلم لیگ کے خلاف کام کرنا شروع کر دیا ۔ مادر ملت اور قائد اعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح جو اس وقت پاکستان مسلم لیگ کی صدر تھیں کے خلاف مہم شروع کردی۔ پاکستان مسلم لیگ کے خلاف پاکستان کنوینشن مسلم لیگ کی بنیاد ڈالی اور جنرل ایوب خان خود اس جماعت کا صدر بن گیا۔
جنرل ایوب خان نے برطانوی آقائوں کے اشاروں کو ملک کو چلایا اور پاکستان کو امریکی اتحادیوں میں شامل کر دیا۔ اور جب سے پاکستان میں فوجی جرنیلوں کے ذریعہ امریکہ پاکستان میں حکومت گرِاتا اور اپنی پسند کی ایک اور حکومت بناتا ہے۔
ادھر مشرقی پاکستان کی عوام ایوب خان کی مارشل لا سے خوش نہیں تھے۔ شیخ مجیب الرحمن جو پاکستان مسلم لیگ کا صفہ اول کا لیڈر تھا اور فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑا تھا، مشرقی پاکستان کی عوام کے مطالبات پر کوئی دھیان نہ دئیے جانے پر عوامی لیگ میں شامل ہوگیا اور پھر عوامی لیگ کا صدر بن کر بنگالیوں کے مطالبات پر عوامی لیگ کے پلیٹفارم سے سیاست شروع کر دی۔
جنرل ایوب خان نے مادر ملت فاطمہ جناح کے خلاف بھرپور مہم چلائی اور مادرِ ملت کی ذات کو بدنام کیا گیا۔ فاطمہ جناح کے خلاف ایسی شرمناک حرکتیں کیں جن کو کوئی بھی محب
وطن پاکستانی بیان نہیں کر سکتا۔ ایوب خان نے نام نہاد صدارتی انتخاب ۱۹۶۲ میں کرائے جس میں دھاندلی کرکے مادرِ ملت فاطمہ جناح کو ہرایا گیا۔ اس کے بعد ملک میں ایوب خان کے خلاف ہنگامے شروع ہو گئے۔ فاطمہ جناح پر عوامی جلسے کرنے پر پابندی لگادی گئی،انکی تقریروں اور انٹرویوز پر پابندی لگا دی گئی۔ فاطمہ جناح دلِ برداشتہ ہو گئیں تھی اور بیمار رہنے لگیں تھیں اور پھر فاطمہ جناح کا اچانک ایک دنِ انتقال ہو گیا۔ فاطمہ جناح کا پوسٹ مارٹم بھی نہیں کرایا گیا ۔ دیکھنے والے کہتے تھے کہ فاطمہ جناح کا چہرہ نیلا تھا اور گلے پر اس طرح کے نشانات تھے جیسے انکو گلا گھونٹ کے ماراگیا ہو۔ تو یہ تھے پاکستان کے پہلے مار شل لا ایڈمنسٹریٹر کے کارنامے۔
جنرل ایوب خان کے خلاف جب عوامی اختلاف بہت بڑھ گیا، ہر جگہ ایوب کتُا کے نعرے لگنے لگے تو ایوب خان استعفی دیکر اقتدار ایک اور فوجی جنرل یححی خان کو۱۹۶۹ دیکر چلے گئے اور یوں جنرل یححی خان پاکستان کا دوسرا مار شل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدر بن گیا۔
دوسری طرف مشرقی پاکستان میں مستقل احتجاج اور ہنگامے برپا تھے۔ مشرقی پاکستان کی عوام اپنے حقوق کی خاطر شیخ مجیب الرحمن کی قیادت میں عوامی لیگ کے پرچم کے نیچے جمع ہو رہی تھی۔ شیخ مجیب الرحمن کی مقبولیت مشرقی پاکستان میں سر اٹھا چکی تھی۔ عوام کے دبائو کی وجہ سے یححی خان نے ۱۹۷۰ میں ملک میں عام انتخابات کا اعلان کر دیا۔ ۷ دسمبر ٍ۹۷۰ ۱ کو مغربی اور مشرقی پاکستان میں عام انتخابات ہوئے جس کے نتائج کو حصہ لینے والی تمام جماعتوں نےقبول کیا۔
آپ انتخابات کے نتائج کو اوپر دیکھ سکتے ہیں کہ عوامی لیگ نے الیکشن سوئپ کیا اور اکثریت حاصل کی لحاظہ یححی خان کو چائیے تھا کہ عوامی لیگ کے قائد شیخ مجیب الرحمن کو
حکومت بنانے کے لئے دعوت دی جاتی مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ اکثریت سے جیتی ہوئی جماعت کو اقتدار دینے میں لیت و لالی سے کام لیا گیا۔ پارلیمنٹ کا اجلاس کئی ماہ نہیں بلایا گیا ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ فوجی جرنیل نہیں چاہتے تھے کہ ملک کا اقتدار بنگالیوں کے ہاتھ میں جائے اورمشرقی پاکستان کا اقتدار پر کنٹرول ہو۔ اسِ کے پیچھے اصل وجہ امریکہ اور برطانیہ ہندوستان کے ساتھ مل کر مشرقی پاکستان کو الگ کرنا چاہتا تھا اور ایسے حالات پیدا کرنا چاہتا تھا کہ مشرقی پاکستان کی عوام پاکستان کے خلاف ہوجائیں اور آزادی کی تحریک چلائیں۔
جنرل یححی خان نے امریکہ کے حکم پر صرف ۸۱ سیٹوں حاصل کرنے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور اسکے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار دینے کا پلان تیار کیا گیا اور عوامی لیگ کو طاقت کے ذریعہ مشرقی پاکستان سے ختم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ مشرقی پاکستان کی عوام ہار ماننے کے لئے تیار نہ تھی۔مشرقی پاکستان میں بدترین ہنگامے ہوئے۔ مختصراً یہ کہ فوج نے بنگالیوں پر فوجی آپریشن شروع کر دیا جس کے خلاف ہندوستان بھی میدان میں آگیا۔ فوجی آپریشن کے ذریعہ دس لاکھ سے زیادہ بنگالیوں کا قتل عام کیا گیا۔مگر پھر نتیجہ یہ نکلا کہ پاک فوج کو مشرقی پاکستان میں بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے اور جنرل نیازی نے ہندوستان کے جنرل اروڑہ سنگھ کے آگے شکست تسلیم کرکے ہتھیار ڈال دئیے۔ یہ دنیا کی تاریخ کا سب سے شرمناک واقعہ تھا کہ ایک لاکھ فوج کے ہوتے ہوئے شکست تسلیم کرلی جائے اور ہتھیار ڈال دئیے جائیں۔ یوں مشرقی پاکستان ختم ہوگیا اور بنگلادیش قائم ہوگیا۔ یہ تھا پاک فوج کا ایک اور تاریخ ساز کارنامہ جو پاکستا ن کے سیاہ باب کا ہمیشہ حصہ رہے گا۔ لحاظہ پاکستان ۱۹۷۱ دولخت ہو گیا۔ اس کے بعد ہونا تو یہ چائیے تھا کہ مغربی پاکستان جو اب پاکستان تھا دوبارہ انتخابات ہونے چائیے تھے کیونکہ ایک بڑی پارلیمانی اکثریت تو بنگلادیش کے قیام سے جدا ہو گئی تھی مگر ایسا نہیں کیا گیا، پلان اور وعدے کے مطابق جنرل یححی خان نے اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کو بحیثیت سویلین مار شل لا ایڈمنسٹریڑ سونپ دیا جو اس سے پہلے دنیا میں ایسا نہیں ہوا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کچھ دنِ سویلین مار شل لا ایڈمنسٹریٹر رہنے کے بعد ملک کے صدر بن گئے اور پھر پارلیمنٹ کا اجلاس بلا کر پاکستان کے خود ساختہ وزیر اعظم بن گئے۔ یہ پارلیمنٹ نا جائز تھی اور اسکی ہر کاروائی بھی نا جائز تھی۔ اسی اسمبلی نے ۱۹۷۳ میں پاکستان کا نیا آئین پاس کیا جو اصولی طور پر ایک نا جائز اسمبلی سے پاس کرایا گیا۔ اسِ آئین کے تحت آج تک پاکستان لولا لنگڑا چل رہا ہے ۔ جرنیلوں اور انکی نرسری سے بنائے گئے سیاستدانوں نے اسِ آئین میں جب چاہا اپنی مرضی سے اور اپنے فائدے کے لئے ترامیم کی اور آج یہ آئین جمہوریت کے نا م پر ایک دھبہ ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کو سیاست میں لانا والا جنرل ایوب خان تھا۔ سب سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کو ایوب خان نے اپنے مار شل لا کی پہلی کیبنٹ میں وزیر قدرتی وسائل بنایا۔ پھر کنوینشن مسلم لیگ بناکر ذوالفقار علی بھٹو کو کنوینشن مسلم لیگ کا سیکٹری جنرل بنایا اورجب دھاندلی شدہ انتخابات کے ذریعہ پاکستان مسلم لیگ کو شکست دیکر اپنی نام نہاد کنوینشن مسلم لیگ کی سول حکومت قائم کی تو ذوالفقار علی بھٹو کو وزیر خارجہ بنادیا گیا۔لحاظہ درحقیقت ذوالفقار علی بھٹو جسے پیپلز پارٹی کے لوگ قائد عوام کے لقب سے گردانتے ہیں ایک فوجی جرنیل کی پیداوار تھا۔ یہ تھا فوجی جرنیلوں کا ایک اور کار نامہ۔
جب ذوالفقار علی بھٹو نے ستر کی دھائی میں اپنی جمہوری حکومت قائم کی اور خارجہ پالیسی امریکہ سے ہٹ کر روس اور چین کی جانب بڑھائی تو امریکہ کو پسند نہ آیا اور پھر ایک اور جنرل ضیاالحق کے ذریعہ ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹ دیا گیا اور ملک میں پھر مار شل لا لگا دیا گیا۔ بھٹو پر نواب محمد احمد خان کے قتل کا مقدمہ چلایا گیا اور ۱۹۷۹ میں بھٹو کو قتل کے جرم میں پھانسی پر لٹکایا دیا گیا۔ یہ ایک اور کارنامہ فوج کے جرنیل کے ہاتھوں سر انجام پایا۔ جنرل ضیاالحق نے تین ماہ میں پاکستان میں انتخابات کے نام پر دس سال فوجی حکومت برقرار رکھی۔ جنرل ضیاالحق نے لاہور کی ایک کاروباری شخصیت میاں شریف کے بیٹے نواز شریف کو پاکستان کی سیاست میں متعارف کرایا جو اس سے پہلے لاہور چیمبر آف کامرس میں سرگرم تھا۔ ضیاالحق نے نواز شریف کو پنجاب کا وزیر اعلی بنایا۔ جنرل ضیا الحق نے ملک میں غیر سیاسی کلچر کو جنم دیا اور پہلے غیر سیاسی جماعتوں کے انتخابات کراکے اپنی پسند کی نام نہاد سول حکومت قائم کی۔یوں پاکستان میں جمہوریت کے نام پر غیر جمہوری اور غیر سیاسی نظا م جاری رہا۔
ضیاالحق کی حکومت کو امریکہ کی مکمل حمایت اور مالی مدد حاصل رہی۔ پاکستان میں اسلام نظام کے نام پر مذہب کو بیچا گیا۔ پھر جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو امریکہ کے حکم
پر افغان مجاہدین کے پاکستان کے شمالی علاقوں میں ٹریننگ کیمپ کھولے گئے۔ اس جنگ کا نتیجہ یہ نکلا کہ لاکھوں افغان مہاجرین نے پاکستان کارخُ کیا۔ پاکستان میں ہیروہین اور کلاشنکوف عام ہو گئی اور ملک میں کلاشنکوف کلچر کراچی سے لیکر پشاور تک قائم ہو گیا۔ یہ تھا پاکستانی جرنیلوں کا ایک اور کارنامہ۔
جب امریکی انتظامیہ کے ضیاالحق کے ساتھ مجاہدین کو لیکر کچھ تناظات شروع ہوئے تو ضیاالحق کو ایک طیارے حادثہ میں ہلاک کیا گیا جس میں سترا اور آرمی آفیسرز بمعہ امریکی سفیر کی موت واقع ہوئی۔ جنرل ضیاالحق کے بعد ایک اور فوجی جرنیل مرزا اسلم بیگ نے ملک کی قیادت سنبھالی اور ملک میں انتخاب کراکے بے نظیر بھٹو کو پاکستان کی سیاست میں متعارف کرایا گیا۔ ضیاالحق کا طیارہ کیسے تباہ ہوا، کس نے تباہ کیا کچھ پتہ نہ چل سکا بارحال یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ضیاالحق کے حادثہ کا فائدہ پاکستان پیپلز پارٹی کو ہوا ور بے نظیر کو پاکستان کی سیاست میں وزیر اعظم بناکر متعارف کرایا گیا۔ اس وقت کے کئی امریکی تجزیہ نگاروں نے لکھا کہ امریکہ ضیاالحق کو ہٹا نا چاہتا تھا اور بے نظیر سے ڈیل کرکے اسکو اقتدار میں لیکر آیا۔ لحاظہ امریکہ نے ایک مرتبہ پھر اپنی مرضی سے پاکستان میں حکومت تبدیل کی۔
اس کے بعد پاکستان کی عوام نے دیکھا کہ کسِ طرح سے نوے کی دھائی سے پاکستان میں دو کرپٹ خاندانوں، شریف خاندان اور زرداری خاندان فوجی جرنیلوں ، قبائلی سرداروں، چودھریوں
اور وڈیروں کے ساتھ مل کر پاکستان کو نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں۔ یہ سب ایک مافیہ ہے جس کی سر پرستی امریکہ، برطانیہ، ہندوستان اور اسرائیل کر رہےہیں۔ امریکہ کے کئی سنیٹرز یہ بات میڈیا انٹرویوز میں کہ چکے ہیں کہ ایران، شام، عراق، لبیا، اور کئی عرب اور افریقی ممالک کے بعد اب پاکستان کا نمبر ہے۔ آج جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے یہ امریکی اسکرپٹ کا حصہ ہے اور اس پر کامیابی سے امریکہ کام کر رہا ہے۔
اسِ وقت اگر کوئی پاکستان کو بچا سکتا ہے اور پاکستان میں موجود امریکہ کے زر خرید غلاموں سے نجات حاصل کر سکتا ہے تو وہ
صرف پاکستان کی عوام ہے۔ آج پاکستان کو سپر طاقتوں اور پاکستان میں موجود غداروں سے آزادی حاصل کرنے کے لئے ایک مرتبہ پھر بڑی قربانی دینی پڑیگی۔ پاکستان کی موجودہ
ریاستی طاقتیں طاقت کے ذریعہ امریکی ایجنڈا پورا کرنا چاہے گی لیکن اگر پاکستان کی بائیس کروڑ عوام ان غداروں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی ہوگئی تو پاکستان آزاد ہو جائے گا۔ میں عمران خان یا اسکی جماعت تحریک انصاف کا رکن نہیں مگر یہ جانتا ہوں کہ اسِ وقت پاکستان کی عوام کے پاس عمران خان کے علاوہ کوئی چوائس نہیں۔ عمران خان نا تجربہ کار ہو سکتا ہے مگر ملک سے غدار نہیں ہو سکتا۔ پاکستانیوں عمران خان کے پیچھے ایک ہوجائو۔ ان بدعنوان، نااہل، بدمعاشوں، مجرموں، قبائلی سرداروں، چودھریوں اور وڈیروں سے آزادی حاصل کرو۔ یہ ہی وقت کی ضرورت ہے اور پاکستان کی سلامتی کا راستہ ہے۔
سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا