رپورٹ؛ سید عتیق الحسن
پاکستانی ایسٹیبلشمنٹ، بیوروکروسی اور عدلیہ نے عوام میں اپنی گرتی ہوئی ساتھ کو سامنے رکھ کر بیرونی طاقتوں کے صلح مشوروں سے ایک نئی سیاسی پارٹی اور قائد کو پاکستان کی سیاست میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میرے ذرائع کے مطابق اس نئی پارٹی کے قائد کا تعلق کراچی سے ہوگا مگر الطاف حسین کسی طور بھی نہیں ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج، ایجنسیز ، بیوروکریسی اور عدلیہ نے اب اسِ نتیجہ پر پہنچ چکی ہے کہ عمران خان کی سیاسی مہم کی وجہ سے ریاست کے یہ ستون عوام میں اپنی مقبولیت کھو چکے ہیں۔ مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور پاکستان ڈیموکریٹک الائنس میں شامل تمام دوسری جماعتیں عوام میں مقبولیت کھو چکی ہیں اور اگلے انتخابات میں انِ جماعتوں کو بری طرح شکست ہوگی مگر ساتھ ہی ریاست کے یہ ادارے اسِ بات پر متفق ہیں کہ عمران خان کو کسی بھی طور اگلے الیکشن میں حصہ نہیں لینے دینا ۔ لحاظہ ایک طرف تو تحریک انصاف میں ڈراڑ ڈال کر تقسیم کیا جائے گا اور دوسری طرف ایک نئی جماعت کو پاکستان کی قومی سیاست میں اتارا جائے گا۔ اس نئی جماعت کو ریاستی اداروں ، امریکہ ، برطانیہ اور عرب ریاستوں کی مکمل حمایت حاصل ہوگی۔ نئی جماعت کی قومی تشکیل اور قومی انتخابات کی مہم سازی کے لئے امریکہ سے سرمایہ ریاستی اداروں کو فراہم کیا جائے گا۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ریاستی ادارے اب اسِ نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی جماعتیں اور انکے لیڈران سوائے عمران خان کے عوام میں غیر مقبول ہو چکے ہیں لحاظہ ان پر مزید پیسہ اور وقت لگانا کسی طور پر فائدہ مند ثابت نہیں ہوگا۔ لحاظہ نئی پارٹی اور نیا سیاسی قائد کو میدان میں اتارنا ہی حل ہے ۔ نئی سیاسی پارٹی کا قائد کراچی سے ہونے کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی نئی سیاسی تحریک چلانے کےلئے کراچی کو استعمال کرنا ضروری ہے۔
اس کام کے لئے ریاستی اداروں کو ایک سے دو سال لگ سکتے ہیں لحاظہ اگلے قومی انتخابات بھی اگلے ایک سے دو سال کے درمیان ہونگے جب تک موجودہ لولی لنگڑی حکومت کو ہی ریاست کو گھسیٹنا پڑے گا اور اسِ دوران عمران خان اور پی ٹی آئی کو غیر مقبول کرنے کے مشن پر کام کیا جائے گا۔