سید عیتق الحسن، سڈنی آسٹریلیاء
جب سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بنگلادیش میں بنگلادیشی وزیر اعظم حسینہ واجد کی موجودگی میں یہ دعوی کیا ہے کہ بنگلادیش کی آزادی کی تحریک میں بھارتی فوج نے مکتُی بھائنی کی مدد کی تھی پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت نیند سے جاگ اٹھی ہے۔ اب پاکستانی وزیر، سفیر، سیاستدان اور فوجی سپہ سالار بھارت کو للکار رہے ہیں کہ بھارت غلطی سے بھی پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھے ورنہ اس کا انجام بھارت کے لئے بہت براُ ہوگا کیونکہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایٹمی طاقت تو روس بھی تھا بلکہ دنیا کی سب سے بڑی ایٹمی ریاست تھا پھر ٹکڑے ٹکڑے کیسے ہو گیا۔ بھارت تو پاکستان کےقیام سے آج تک پاکستان کے ساتھ حالت جنگ میں ہے، کیا نریندر مودی نے پہلی مرتبہ پاکستان کے خلاف زبان کھولی ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم نے تو موُدی کے پاکستان، پاکستانیوں اور مسلمانوں کے خلاف زہر آمیز بیانات کے بعد بھارت جاکر یہ بیان دیا تھا کہ ہم سب ایک ہیں، ہمار ا کلچر ایک ہماری تاریخ ایک وغیر وغیرہ بس اگر فرق ہے تو صرف ایک لکیر کاہے، تو پھر نریندر مودی کے بیان سے پریشانی کیسی؟ اور پھر کیا پاکستانیوں کے لئے یہ ایک نیا انکشاف ہے جو نریندر مودی نے بنگادیش میں بیٹھ کر سنایا ہے۔ کس ذی شعور اور تاریخ سے آشنا کو معلوم نہیں کہ بھارت نے مشرقی پاکستان میں کیا کر دار ادا کیاتھا۔
اگر انسان خود مختار ہو تو کوئی اسکو محتاجی کی دھمکی نہیں دے سکتا۔جو لوگ اپنی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھتے اور نااہلیت کو اہلیت میں بدلنے کی کوشش نہیں کرتے دنیا انکو کسی خاطر میں نہیں لاتی۔
یہ کس طرح ممکن ہے کہ بھارتی قیادت پاکستان سے تو دشمنی رکھے اور جس سے پاکستان کا وجود ممکن ہوا ہو اس ُ سے دوستی کے دعوی کرے۔ آج کا بنگلادیش کل کا پاکستان تھا، اور آج کا پاکستان کل کا بھارت تھا۔ بقول بھارتی قیادت پاکستان بھارت کا اٹوٹ انگ ہے تو پھر بنگلادیش کیوں نہیں۔ بھارتی قیادت کے دعوی میں نا تو کوئ منطق ہے اور نہ ہی کوئ صداقت یہ ایک سستی اور وقتی ضرورت کے پیشی نظر دوستی حاصل کرنے کے لئے بیان تھا جس پر خود بھارت میں لوگ نریندر مودی پر لان تان کر رہے ہیں کیونکہ اس سے بھارت کی خارجہ امیج متاثر ہوئی ہے، اور پھر یہ دنیا ہی نہیں بلکہ بھارتی عوام بھی جانتی ہے کہ نریندر مودی کسِ ذہنیت کا نام ہے۔ دوہرے پن کے بیانات سے پڑوسیوں کے ساتھ رشتے مضبوط نہیں کئے جاتے ۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ جب آپ کے اپنے دھوکہ دیں تو دوسروں سے شکایت کیسی اور پھر جب آپ کا اپنا نظا م ہی بددیانتی اور ناانصافیوں کی داستان ہو تو دوسرو ں سے کس طرح سے وفاداریوں کی توقع کی جا سکتی ہے۔
پاکستانی سیاسی و فوجی قیادت کو نریندر مودی کے بیانات پر شعلہ بیانی کرنے کی بجائے اپنے گریبانوں میں جھانک کر یہ دیکھنا چاہیے کہ کہیں وہ ابھی تک وہی حرکتیں اور نظام تو نہیں چلا رہے جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان کے بنگالیوں نے جو پاکستان کی تحریک میں اُن سے آگے تھے علیحدگی لینے پر مجبور ہو گئے۔ اگر اپنے گھر میں گند بھر ا ہو تو پڑوسیوں کو صفائ کی تلقین کرنا زیب نہیں دیتا ، ورنہ پڑوسی آپ پر ہنتے ہیں۔
کسی بھی ریاست کی طاقت ایٹم بم نہیں ہوتی بلکہ اُس ریاست اور عوام کی معاشی و فلاحی خود مختاری اور قومی یکجہتی ہو تی ہے۔ آج آسٹریلیا سمیت دنی میں عظیم ممالک ہیں جن کے پاس ایٹم بم نہیں ہے مگر انکو اِس بات کا کوئی خوف نہیں کہ کوئی ملک اُن پر حاوی ہو سکتا ہے کیونکہ وہ ایٹی طاقت نہیں۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ کسی بھی ملک کی دفاعی صلاحیت مضبوط ہونی چاہئے ۔ مگر کوئی بھی ریاست اس مفروظہ پر نہیں چلائ جا سکتی کہ وہ معاشی طورپر قلاش ہو مگر دفاعی سطح پر خود کفیل۔
آج پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت بڑے فخر سے یہ بیان دیتی ہے کہ بھارت ہوش سے کام لے پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے تو پھر 1965 میں اپنے سے چار گناہ بڑی بھارتی فوج کو جنگ میں کیسے پسپہ کر دیا تھا اسُ وقت تو پاکستان کے پاس صرف گنتی کے جہاز اور ٹینک تھے۔ قومیں اپنی حفاظت اپنی معاشی، فلاحی و سیاسی خود مختاری سے کرتی ہیں، اسلحہ کے انبار لگانے سے نہیں۔ یہ ایٹم بم پاکستان کے کس کام کاجب کہ پاکستان کے دشمن تو خود پاکستان کے اندر گائوں اور شہروں میں پھیلے ہوئے ہیں۔
پھر سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کو بیرونی طاقتوں اور پڑوسی ممالک نے معاشی و فلاحی و سماجی طور پر تباہ کیا ہے۔آج اگر ایٹم بم کے وجود کو ایک طرف رکھ دیں تو کونسا ایسا عنصر ہے جس پر پاکستانی فخر کر سکتےہیں اور دعوی کر سکتےہیں کہ کوئی دشمن ان پر میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا؟
آج پاکستان کے مستقبل کو سب سے بڑا خطرہ اُن سیاسی مداریوں اور فرقہ وار مذہبی مولویوں سے ہے جنہوں نے پاکستانی عوام کو جسمانی نہیں بلکہ ذہنی طور پر بھی مفلوج کر دیا ہے۔ عوام کو فرقہ واریت، لسانیت اور صوبائیت کے نام پر تقسیم کر دیا ہے تو پھر کیوں ی نا بنگلادیش جیسی آوازیں پھر نہ اٹھیں؟ کونسا ایسا شہر ہے جہاں یہ اقتدار پر قابض لوگ دعوی کر سکتے ہیں کہ وہاں لوگوں کی جان و مال محفوظ ہے۔
اور پھر یہ کہ پاکستان کے سیاسی مداری جو پاکستان کے اقتدار پر پچھلے پچاس سالوں سے قابض ہیں ان میں اور نریندر مودی میں کیا فرق ہے۔ منافق نریندر مودی ہے اور نواز شریف اور زرداری بھی ۔ جھوٹ نریندر مودی بھی بڑی مکاری سے بولتا ہے اور جھو ٹ نواز شریف اور زرداری بھی، اپنے عوام سےوعدہ خلافی نریندر مودی بھی کرتا ہے اور نواز شریف اور زرداری بھی۔ ہاں شاید نریندر مودی نے دولت کے انیبار اپنے ملک سے باہر نہ جمع کئے ہوں مگر نواز شریف اور زرداری اینڈ کمپنییز نے ضرور کئے ہیں۔
آج جو پاکستا ن کے حالات ہیں یعنی چور بازاری، اقربہ پروری، جھوٹ، بے ایمانی، پیسے کی لوٹ مار کیا یہ سب بھی نریندر مودی نے پاکستان میں کروائ ہے؟
اِس کے شواہد دنیا کو مل رہے ہیں کہ بلوچستان، کراچی اور پاکستان کی مغربی سرحد پر تخریب کاری اور دہشتگردی کے پیچھے بھارت کی راء تنظیم ملوث ہے، اور یہ شواہد بھی مل رہے ہیں کہ پاکستان سے پاکستانی بھارت اور افغانستان جاکر دہشتگرد ی کی تربیت حاصل کرکے پاکستا ن دہشتگردی پھلانے لوٹ ہے ہیں ، اور پھر کراچی سے لیکر پشاور تک دہشتگردی کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں ۔ مگر سوال یہ ہے کہ انِ پاکستانیوں کو بھارتی ایجنسی راء کس طرح سے اسِ ب مشن پر تیار کر لیتی ہے کہ وہ اپنے ہی ملک کی عوام کے خلاف دہشگردی کریں۔
بات صاف ظاہر ہے، جب سے پاکستانیوں نے نظریہ پاکستان، قومی یکجہتی اور ملکی سالمیت پر اپنے ذاتی مفاد اور لالچ کو ترجیح دی ہے اور ایسے بد کردا ر اور بد عنوان افراد کو اپنا قائد چناُ ہے جو سیاست کے نام پر نا صرف پاکستان کو لوٹ رہے ہیں بلکہ عوام کو ذہنی طور پر بھی قومی یکجہتی کے فلسفہ سے دور کر رہے ہیں پاکستان کی حالت دنِ بدنِ غیر ہوتی جا رہی ہے۔
اگر آج نریندر مودی جیسے لیڈر بنگلادیش میں بیٹھ پر پاکستانیوں کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں تو پاکستانیوں کو یہ سوچنا چائیے کہ یہ زخم بھی انہوں نے اپنوں سے ہی لئے ہیں۔