سندھ میں بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں شروع کی جا رہی ہیں اور سندھ کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی مومنٹ نے حسب معمول اور ماضی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے سندھ میں کئی دھائیوں سے جاری لسانی کارڈ کا استعمال کرنے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں ۔الطاف حسین اور آصف زرداری جو ایک وقت میں ایک دوسرے کو اپنا بھائی کہتےہیں اور دوسرے وقت میں خلاف بیانات داغتے ہیں نے اب ایک دوسرے کے خلاف بیانات دیکر سندھ میں لوگوں سے ووٹ حاصل کرنے کے لئے میدان سجانا شروع کر دیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے وجود سے ہی سندھ میں لسانی کارڈ کا استعمال کیا ہےجس کا ذکر میں اپنے مضامین میں بارہا کر چکا ہوں۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر سے لیکر آصف علی زرداری اور اب افسوس کے ساتھ انکے اکلوٹے اور نو نہال بیٹے نےبھی وہی پرانا سندھی زبان اور سندھیت کا کارڈ استعمال کرنا شروع کر دیا ہے ۔ جسکی وجہ صرف یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ میں سوائے لوٹ مار کے کچھ نہیں کیا۔ سندھ کے دہی علاقوں میں عام آدمی کی حالت پیپلز پارٹی کے وجود سے پہلے جو تھی اس سے بھی بدتر ہے۔ اگر اس جماعت کے لوگوں نے اپنے ووٹرز او ر اپنے علاقے کے لوگوں کے لئے کچھ کیا ہوتا تو یہ ضرور وہ باتیں لوگوں سے ووٹ حاصل کرنے کے لئے کرتے مگر سوائے اس کے کہ سندھ کو تقسیم نہیں ہونے دیاجائے گا، سندھیوں کے حق کی حفاظت کریں گے،سندھ سندھیوں کا ہے وغیرہ وغیرہ یا پھر ہم نے قربانیاں دیں، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر کو شہید کیا گیا، ہم جیل جانے سے نہیں ڈرتے ہم پر ہمیشہ مقدمات بنائے جاتے ہیں وغیرہ وغیر ہ کے علاہ کچھ نہیں۔ پیپلز پارٹی کے قائدین کا اپنے ذاتی مفادات اور لوٹ مار کرنے کا طریقہ واردات ہی یہ ہے کہ ملک میں لوٹ مار کرو، قتل و غارت گری کرائو اور اس کے نتیجے میں اگر مقدمات قائم ہوں ، پھانسی ہو یا جیل ہو تو یہ کہوکہ ہم نے سیاسی قربانیاں دی ہیں اور دیتے رہیں گے ۔ یعنی اگر ان کے پاس حکومت ہے تو انکے وزراہ اور پالیمانی اراکین کے پاس ہر قسم کی لوٹ مار اور پیسہ کمانے کا لائسنس ہے اور اگر ان کو روکا گیا تو وہ سیاسی ظلم ہوگا۔
دوسری جانب متحدہ قومی مومنٹ ہے جس نےاپنے قیام سے آج تک اردو بولنےوالوں کو صرف لفظ مہاجر کے کچھ نہیں دیا۔ الطاف حسین صاحب جنہوں نے کرُتا پاجامہ پہن کر، سندھی قوم پرستوں سے اپنی حفاظت کے لئے گارڈز لیکر اور پانچویں قومیت مہاجر قومیت کا نعرہ سندھ کے اردو بولنےوالوں سے لگوا کر مہاجر قومی مومنٹ شروع کی ، پھر حالات اور وجوہات کا نام لیکر اپنی جماعت کا نام مہاجر مومنٹ سے قومی مومنٹ میں تبدیل کر دیا اور کرُتا پاجامہ سے اجرک سندھی ٹوپی اور شلوار قمیض پہن کراُسی پیپلز پارٹی کے قائدین کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا جنہوں نے اردو بولنے والوں کو کوٹہ سسٹم کے ذریعہ دیوار سے لگایا ۔ الطاف حسین نے بے نظیر سے لیکر آصف علی زرداری تک پیپلز پارٹی کو حکومت بنانے میں انکا ساتھ دیا اور جب جب ایم کیو ایم کا گراف عوام میں کچھ نیچے جاتا دکھائی دیتا ہے پیپلز پارٹی سے علیحدگی اور پیپلز پارٹی کے قائدین کے خلاف بیانات اور یہی طریقہ واردات آصف علی زرداری اور اب بلاول زرداری اپنانے جارہے ہیں! کیا پچھلی تین دھائیوںمیں پیپلز پارٹی کو پاور میں لانے کے بدلے میں الطاف حسین نے اردو بولنے والوں کا کوئی ایک مسلہ بھی پیپلز پارٹی سے منوایا؟ جواب ہے نہیں !سوائے بدلے میں چند بے سود قسم کی وزارتیں اور جو کچھ ایم کیو ایم کے کارندے کرنا چاہتے اسکی چھوٹ ۔ آج اگر ایم کیو ایم کا سندھ میں مضبوط نیٹ ورک ہے ، اسلحہ ہے، کئی اراکین پارلیمنٹ کروڑ وں کے بزنس کے مالک ہیں تو اسکی وجہ پیپلز پارٹی کا اقتدار میں رہ کر ایم کیوایم کو چھوٹ دینا ہے۔
آج سندھ کی زمینی حقیقت یہ ہے کہ یہ دو جماعتیں سندھ میں کم وہ بیش ۱۹۸۸سے لیکرآج تک قابض ہیں ایک جماعت کا سندھ کے دہی علاقوں پر راج ہے تو دوسری کا سندھ کے شہری علاقوں پر، دونوں علاقوں کے شہریوں کی حالت بدریج بد سے بدتر ہے۔ سندھ میں شہری اور دھی دونوں جگہوں میں تعلیم، صحت، روزگار، امن و امان کی حالت کسی تیسرے درجہ کے افریقی ریاست سے بھی بدتر ہے۔ معاشی ، معاشرتی اور سیاسی طور پر نئی نسل کو منفی سوچ اور غلط کاموں کی طرف لگا دیا گیا ہے۔ آج دونوں جماعتوں کے پہلی صف کے لیڈران کاروائیوں کے ڈر سےپاکستان سے بھاگ چکے ہیں اور کچھ بھاگنے کے راستے ڈھونڈ رہے ہیں، امریکہ، برطانیہ اور دوبئی ان کی پناہ گاہیں ہیں اور پاکستان انکی پیسہ اورطاقت کمانے کی منڈی۔
الطاف حسین کو سندھ کے اردو بولنے والوں کی نئی نسل نے سوائے ٹی وی کہ نہیں دیکھا کیونکہ جب سے وہ پاکستان علاج کا کہ کر گئے تھے واپس نہیں آئے ، ٹی وی اور ٹیلیفون پر تقریریں سن کر نئی نسل میں ایک خیالاتی آئیڈیل کے تصور کوجنم دیا گیا۔ ’الطاف حسین ہمارے روحانی باپ‘ ، ’ہمیں منزل نہیں رہنما چائیے ‘ جیسے مفہوم اور تصورات کو متعارف کرایا گیا ۔ اسِ طرح کے خیالات وہ لوگ اور گروہ کرتےہیں جو سیاست سے ہٹ کر لوگوں کو محکوم بنا کر ایک ریاستی طاقت قائم کر نا چاہتےہیں۔ ورنہ مہذب معاشرہ میں سیاستدان صرف سیاستدان ہوتا ہے اور اگر وہ واقعی سیاستدان ہے اور اپنے ووٹرز سے سنجیدہ ہے تو انکے لئے معاشرہ میں مثبت تبدیلی لاتا ہے۔ اپنے سیاسی پیروکاروں کے لئے امن و بھائی چارے کی فضا قائم کرتا ہے۔
دوسری جانب آصف علی زردای ہے آج میں اگر یہاں کسی سیاسی شخصیت سے آصف علی زرداری کے بارے میں پوچھتا ہوں تو وہ کہتا ہے کہ اچھا وہ جسکو مسٹر ٹین پرسنٹ کہتے تھے ۔ پاکستان کے سیاسی مفاد پرستوں نے اسکو ملک کا صدر بنایا تاکہ سب کی لوٹ مار اور غلط کاموں پردہ ڈل جائے ۔اگر چور کو گھر کی چوکیداری دے دوگے تو پھر آپ کے لئے چوری کرنے میں آسانی ہوگی ۔ یہ صاحب آج کل پانچ ہزار ڈالر یومیہ پر ایک ہوٹل میں لندن میں قیام پذیر ہیں اور جواز یہ بیان کرتے ہیں کہ انکا آجکل علاج ہو رہاہے۔ پھر یہ کسی وقت بھی دوبئی چلے جاتےہیں اور وہاں پر سندھ کے وزیر ِاعلی قائم علی شاہ کو جب چاہے بلالیتے ہیں۔ جی ہاں یہ قائم علی شاہ وہی شخص ہے جو ۱۹۸۸ میں بے نظیر اور الطاف حسین کے درمیان جو محاہدہ ہوا تھا اس میں پیپلز پارٹی کی کمیٹی میں شامل تھا۔
خدارا سوچئے یہ کون لوگ ہیں اور کسِ طرح سے سندھ کی عوام کو پچھلی تین دھائیوں سے بے وقوف بنا رہے ہیں۔ کیا دنیا کے کسی اور ملک میں اس طرح کے لیڈر اور نظام پایا جاتا ہے؟
پچھلے پانچ سالوںمیں کتنی مرتبہ ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی کو چھوڑا ہے اور الطاف حسین نے آصف زرداری کو، پھر کتنی مرتبہ ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی سے ساتھ چلنے کا وعدہ کیا ہے اور کتنی مرتبہ الطاف حسین اور آصف علی زرداری نے ایک دوسرے کو لندن میں گلے لگایا ہے۔ کیا کبھی اپنی زندگی میں آپ نے کسی اور شخص کو اسِ طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ کیا آپ نے خود کسی کے ساتھ ایسا رشتہ رکھا ہے ؟یہ سوال سندھ کی عوام سے پوچھنا چاہتا ہوں۔ کیا یہ لوگ سندھ میں آپ کو مزید زندہ رہنے دینگے؟ہاں اگر اسی طرح سے آپ انکے غلام بننا چاہتے ہیں اور آپ کو کوئی منزل نہیں چائیے اور انِ جیسے رہنما چاہیں تو پھر انِ ہی پیچھے لگے رہیے یہ آپ کی اگلی نسل میں بھی وہی زہر بھر دیں گے جو انہوں نے آپ میں بھر دیا ہے۔
لحاظہ خدارا، انِ دوں جماعتوں سے خود بھی اور سندھ کو آزاد کریں اور خود فیصلہ کریں سندھ میں حکومت کرنےکا حق اور اختیار کسِ کو ہونا چائیے جو نا صرف آپکے لئے عزت، بھائی چارے، معاشرتی آزادی، عدل و انصاف اور امن و امان کا ضامن ہو۔
سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا