ہوتا ہے شب و روز تماشہ میرے آگے

سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا۔
سابق صدرِ پاکستان جنرل پرویز مشرف  پر  مقدمات میں سردی گرمی،  حامد میر پر حملہ، ذرائع ابلاغ کی بے راہ روی اور    جنگ گروپ آف پاکستان پر پابندی؛  وزیرAttack on Karachi Airport اعظم نواز شریف کا دورہ ِ بھارت اور وہاں ذاتی خواہشات کی تکمیل؛ الطاف حسین کی گرفتاری اور پھر ضمانت پر رہائی؛ کراچی ائرپورٹ پر دہشتگردوں کا حملہ اور پاکستانی قانون نافظ کرنے والے اداروں کی لاچاری میڈیا کی غیر ذمہ دارانہ کوریج اور سیاسی پنڈتوں کا فوٹو سیشن؛ طالبان کی بڑھتی ہوئی ملک گیر دہشتگردی اور حکومت  کی منافقانہ پالیسی ؛ عمران خان کا سیاسی اتار چڑھائو؛ شیخ رشید اور علامہ طاہر القادری  کی حکومت گرانے  اور سیاسی اکھاڑے  کی تیاریاں؛  وغیرہ  وغیرہ   پر مرزا اسد اللہ بیگ عرف غالب کا شعر یا د آگیا؛
بازیچہ اطفال ہے دنیا  میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشہ میرے آگے
جب کوئی قوم تباہی کے منطقی انجام کو پہنچنے لگتی ہے تو ایک ایسا معاشرہ جنم لیتا ہے جہاں غلط کو صحح اور صحح کو غلط  سمجھا جانے لگتا ہے، جرائم پیشہ لوگ معاشرہ کے معززین  اور جال ساز قوم کے ہیرہ بن جاتے ہیں۔ عوام فرقہ واریت  اور گرہ بندیوں میں تقسیم ہو جاتی ہے، معاشرہ کا  سنگین  جرم معمول بن جاتا ہے،  قومی غیرت نا پید  ہو جاتی ہے، انسانی اقدار کی جگہ منافقت لے لیتی ہے،   ذاتی لالچ   اور  خواہشات کی تکمیل لوگوں کو بڑے  سے بڑا جرم کرنے پر مجبورکر دیتی ہے اور پھر ایک ایک کرکے ریاست کے بنیادی ستون تباہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔  بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ سب نشانیاں آج پاکستان میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
 پاکستان کی یہ تاریخ رہی ہے کہ جب بھی پاکستان میں ایک نام نہاد جمہوری نظام  جو ایک مخصوص اشرافیہ، جاگیرداری اور قبائیلی معاشرہ کی ترجمانی کرتاہےکی حکمرانی رہی ہے پاکستان کو نقصان پہنچا ہے۔ پچھلے چھ سالوں میں کی نام نہاد جمہوری نظام میں پاکستان کو جتنا نقصان پہنچان ہے ۱۹۷۱ کے دولخت ہونے کے بعدسے  اتنا نہیں پہنچا۔ آج پاکستان میں عوامی مقامات، تعلیمی اداروں، ہسپتالوں سے لیکر ائیرپورٹ، قانون نافظ کرنے والے اداروں کے ہیڈکوارٹرز کچھ بھی محفوظ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ملک کے دارالخلافہ یا پارلیمنٹ ہائوس پر اب تک کوئی بڑا دہشتگردی کا واقعہ پیش نہیں آیا تو صرف اسِ لئے کہ دہشتگردوں نے ابھی تک ان مقامات کو اپنا حدف نہیں بنایا  ہے۔ملک کے سب سے بڑے کراچی ائیرپورٹ پر حملہ سے اسِ بات کی دلیل  ہے۔
سیاست اور جمہوریت کے نام پر پاکستان کی  نام نہاد دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نواز شریف گروپ اور پاکستان پیپلز پارٹی زرداری گروپ نے نا صرف عدلیہ، پولس ، خفیہ ایجنسیوں بلکہ تمام سرکاری اداروں کو تباہ کر دیا ہے  اور ریاست کو اربوں ڈالرز کے قرض نے نیچے دبا دیا ہے۔عوام میں اسِ حد تک احساسِ محرومی اور بددلی پیدا کر دی ہے کہ برسرِ اقتدار ٹولہ  نااہلی، دھاندلی، بد عنوانی کی کسی حد سے بھی گزر  جائیں لوگوں نے  تباہی کو اپنا مقدر سمجھ لیا ہے۔ کسی بھی ملک  کی تباہی کی  یہ سنگین نشانیاں ہیں۔ اسِ طرح کی مایوسی اور بددلی  معاشرہ میں اسُ وقت جنم لیتی ہے یا تو جب وہ معاشرہ مکمل طور پر تباہ ہونے جار ہا ہو اور دوسری قومیں اس پر قابض ہونے والی ہوں یا پھر اسُ ملک میں خونی انقلاب کے نقارے بجنے والے ہوں۔  
آج پاکستان میں سیاست نے فرقہ  واریت کی شکل اختیار کر لی ہے۔ لوگ اپنی سیاسی وابسطگیوں کا اظہار اسِ طرح سے کر رہے جیسے یہ ان کے ایمان کا حصہ ہو۔ دنیا  کی  مستحکم  جمہوری ریاستوں میں سیاستدانوں کا احتساب  انکے اپنے سیاسی کارکن اور  ووٹرز کرتے ہیں۔ سیاسی جماعت اگر اپنے  منشور میں کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے  میں ناکام ہوجائے تو   اس جماعت سے وابسطہ  کارکن  اسُ  جماعت  کوچھوڑ کر دوسری سیاسی جماعت کی جانب  دیکھتے ہیں جن کی کارکردگی بہتر ہو۔حقیقی  جمہوری معاشرہ میں عوام کی کسی بھی جماعت یا انکے قائدین سے وابسطگی زبان، نسل، مذہب، فرقہ یا علاقہ یا پھر ذاتی مفادات کی بنیاد پر نہیں بلکہ سیاسی ، سماجی، معاشرتی، معاشی اور قومی مفادات کے ایجنڈے کی  بنیاد پر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر آسٹریلیا میں دو بڑی قومی جماعتیں ہیں، لیبر پارٹی اور لبرل پارٹی یہاںووٹرز ساری زندگی کسی ایک پارٹی سے نہیں جڑے رہتے یہی وجہ ہے کہ کبھی لبیر اور کبھی لبرل بر سرِ اقتدار رہتی ہے، جو پارٹی اپناانتخابی منشور نافظ کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے انکے اپنے ووٹرز انکو اگلے انتخاب میں ووٹ نہیں دیتے۔
بڑھ دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ  پاکستان میں نا تو سیاسی جماعتیں اسِ قسم کی ہیں ، نا ہی انکے قائد اور نا ہی عوام کے سوچنے کا انداز جمہوری ہے۔ پاکستان کی  کسی بھی سیاسی جماعت نے آج اپنے سیاسی یا انتخابی منشور میں کئے گئے وعدوں کو پورا نہیں کیا، پاکستان میں کسی بھی سیاسی جماعت نے اپنی  جماعت کے اندر سیاسی عمل  نافظ نہیں کیا، پاکستان میں ہر بڑا سیاستدان آمریت کی گود سے جنم لیکر سیاستدان بنا ہے یا پھر حالات و واقعات کا فائدہ اٹھا کر اور یا پھر اپنی زمینداری اور سرداری  کے بل بوتے پر قوم کا قائد بن بیٹھا ہے۔ آج سے ۴۳ سال  پہلے پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا  مگر کیا پاکستانی قوم نے اس سے کوئی سبق سیکھا ، ہر گز نہیں کیونکہ انہیں کارندوں کے جانشینوں کوآج قوم سر پر بٹھائے ہوئے ہیں جو پاکستان توڑنے کے جرم میں بل واسطہ یا بلا واسطہ ملوث تھے۔ کیاکسی سیاسی لیڈر نے قوم کو کوئی  منزل دکھائی ہے صرف اور صرف مسائل اور ایک دوسرے پر الزامات  کا رونا رونے کے علاوہ اور اپنے محلات، بینک بیلنس اور بیرونِ ملک قیام کے۔  یہی وجہ ہےکہ پاکستان کی عوام نے بھی سیاست کو وہی کچھ سمجھا ہے جو  ان ِ سیاست کے  نام پر  دھوکہ دہی  کا تماشہ دکھانے والوں نے انہیں سکھایا ہے۔آج پاکستان کے سیاستدانوں کا شمار دنیا کے امیر ترین لوگوں میں اور  عوام  کا شمار غریب ترین میں ہوتا ہے۔ آج پاکستان کی عوام میں قومی احساس  و جذبات صرف اور صرف شوشل  میڈیا پر پھر سڑکوں اور پریس کلبوں کے باہر انہیں سیاسی مداریوں کے پرچار کی حد تک کیوں رہ گیا ہے  کیونکہ یہ عوام اب انِ سیاسی مداریوں کے شکنجے میں پھنس چکی ہے ، پوری قوم کو انِ سیاسی مداریوں میں مختلف گروہوں میں تقسیم کرکے اپنے جال میں قید کر لیا ہے۔
آج لوگ بڑے فخر سے یہ بات کرتے ہیں کہ پاکستان میں میڈیا آزاد ہے اور ملک میں ایک جمہوری نظا م نافظ ہے۔ مگرحقیقت یہ ہے کہ اگر دنیا کے ان ممالک کے ذرائع ابلاغ  کا جائزہ لیا جائے جو ریاستی طاقت سےآزاد ہے  تو وہاں نظر آتا ہے کہ صحافت کے سنہری اصولوں کی پاسداری کی جاتی ہے ، حساس قومی معاملات پر ذمہ داری کا مظاہرہ کی جاتا ہے، عام و خاص آدمی کے نجی  معاملات کا احترام کیا جاتا ہے، صحافتی برادری اور ادارے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں، ذاتی و کاروباری دوڑ میں ایک دوسرے کی پگڑیاں نہیں اچھالتے۔مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان میں کیا کوئی ادارہ قومی ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ پاکستان کی عدلیہ کا حال دیکھ  کر رونا آتا ہے، کیا کسی مہذب ملک میں عدلیہ کے جج سیاست اور میڈیا کو اپنے سرگرمیوں کا حصہ بناتے ہیں؟ آج پاکستان کے اہم قومی ستون ایک دوسرے کو طاقت دکھانے کے بل پر ہیں۔
 یہاں میں پاکستان کے کسی ایک سیاسی لیڈر یا سیاسی جماعت کو اپنی تحریر  کا عنوان نہیں بنانا چاہتا مگر آج جب میں ان سیاسی قائدین کا عوامی کردار دیکھتا ہوں اور پھر عوام سے ان کی ایمانی محبت دیکھتا ہوں تو مجھے رونا آتا ہے اور پھر یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید یہ پاکستانی قوم پر عذاب ہے، کیونکہ بہت سارے آج کے سیاسی قائدین ایسے ہیں جن کو میں نے ذاتی طور پاکستان میں پا پھر پاکستان سے باہر بہت قریب سے دیکھا ہے انکے اسُ چہرہ کو بھی دیکھا ہے جو بند کمرہ میں ہوتا ہے اور اس چہرہ کو بھی جو عوام میں ہوتا ہے۔ پاکستان اور پاکستان کی عوام کی بد قسمتی یہ ہے کہ یہ سیاسی مداری  بڑی کامیابی سے بندکمروں کی جوڑ توڑ اور عوامی  ڈرامہ کرنے میں کامیاب ہیں۔
اگر پاکستان بچانا ہے تو یہ سب کچھ نہیں چلے گا۔ پاکستان کی عوام اگر چاہتی ہے کہ انکے بچے اور اگلی نسلیں آزاد معاشرہ میں سانس لیں  ۔ اگر پاکستان کی عوام  چاہتی ہے کہ انکے بچوں کو انکے بنیادی حقوق ملیں، تعلیم، صحت ، روزگار میسیر ہو۔ پاکستان کی عوام اگر چاہتی ہے کہ دنیا میں پاکستان کا کھویا ہوا  وقار واپس آئے۔ پاکستان  سود اور قرضوں سے آزاد ہو۔ پاکستان کی سرحدیں محفوظ ہوں۔ پاکستان میں عام آدمی کی عزت محفوظ ہو۔ مائوں،  بیٹیاں اور بہوئوں کی عزتیں محفوظ ہوں اور وہ  آزادی سے شاہراہوں پر چل سکیں۔ اگر پاکستان  کی عوام چاہتی ہے پاکستان کے نوجوان کا مستقبل تابناک ہو۔ تو پاکستانی عوام کو مایوسی  اور بددلی کی لعنت سے باہر نکلنا ہوگا۔سب سے پہلے لوگوں کو اپنے سیاسی قائدین کا احستاب کرنا ہوگا۔ ان سے پوچھنے کی ہمت کرنی ہوگی کہ آج تک ان کے قائدین نے انکو دیا کیا ہے صرف اور صرف امید، مایوسی اور وعدہ خلافی کے۔ بڑے  افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اگر آج جھوٹے، فریبی اور نااہل لوگ اسمبلیوں میں بیٹھے پاکستانی قوم کا پیسہ عیاشیوں میں لٹا رہے ہیں تو اس میں قصور صرف اور صرف پاکستانی عوام کا ہے۔ پاکستانی عوام نے پاکستانیت کو ایک طرف رکھ کر علاقائی، لسانی اور فرقہ واریت کی بنیاد پر اپنے آپ کو تقسیم کر لیا ہے۔ جس کا فائدہ صرف اور صرف انِ نااہل سیاسی و مذہبی  قائدین پر  ہے۔ اسِ میں کوئی شک نہیں کہ اب بھی چند ایسے قائدین ہیں جن پر قوم بھروسہ کر سکتی ہے اور ان کو ذمہ ادر بنا سکتی ہے کہ وہ پاکستانی عوام کو ایک  پرچم تلے اکٹھا کر سکیں اور ملک میں ایک مضبوط اور ایسا ریاستی نظام رائج کر سکیں جس کی بنیاد مساوات، عدل و انصاف اور قانون کی حکمرانی  ہو۔ مگر شرط یہ ہے کہ ہر پاکستانی کو اپنی قومی ذمہ داری اور پاکستان کا قرض سمجھتے ہوئے  ایماندرای سے ایسے قائدین کا  چنائو خود کرنا ہوگا۔   پاکستانی عوام کو ایک ایسے انقلاب کے لئے نکلنا ہوگا جو موجودہ بدعنوانی کے نظام کا خاتمہ کرے۔ پاکستان میں جاری  نام نہاد جمہوری نظام سے ملک کو پاک کرے اور ملک میں حقیقی عوامی نظام انصاف و عدل کی بنیاد پر نافظ ہو۔  پاکستان پر قابض انِ تمام جالساز سیاستدانوں اور انکے خاندانوں سے ملک کو پاک  کردے۔ پاکستان کی دولت کو لوٹنے اور باہر لیجا کر باہر کے بینکوں اور ملکوں میں سرمایہ کاری کو انصاف کے کٹھرے میں لاکر فی الفور سزائیں سنائی جائیں۔

Recommended For You

About the Author: Tribune

1 Comment

  1. Pingback: price of viagra

Comments are closed.