کیا یہ پاکستان کی حقیقی آزادی اور خود مختاری کے نفاذ کا عمل ہے

سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا

آج پاکستان ایسے دوراہے پر کھڑا ہے کہ ایک طرف پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی کا خواب ہے تو دوسری طرف امریکہ کی روائتی غلامی۔ پاکستانی عوام کی اکثریت نے دوسرے اسلامی ممالک کی عوام کی طرح ہمیشہ امریکہ کی حاکمیت سے نفرت کی ہے۔ جب پاکستان کے کسی   سیاسی قائد نے امریکہ کی غلامی سے آزادی کا نعرہ لگایا امریکہ نے پاکستان میں اپنے

سید عتیق الحسن

حمایتیوں کے ذریعہ اسکی حکومت کو ختم کردیا۔ پاکستان کی ریاست کا طاقتور ستون پاکستان آرمی اور آئی ایس آئی ایجنسی ہے جو جنرل ایوب خان کے دور سے امریکی اتحاد میں شامل  ہے۔ایک طرف امریکہ دنیا میں بالخصوص چھو ٹے  ممالک میں جمہوری نظام نافظ کرنے کی بات کر تا ہے تو دوسری طرف انُ آمر طاقتوں کی سرپستی کرتا ہے جو جمہورت لاتی ہیں اور ختم کرتی ہیں۔  پھر ایسے ممالک جہاں امریکہ کا اپنا مفاد ہے جیسے مشرقِ وسطی کی ریاستیں جہاں موروثی بادشاہت ہے وہاں امریکہ انکا دفع کرتا ہے۔

پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت خان کو شہید کیا گیا۔ مشرقی پاکستان کو الگ کرکے بنگلادیش بنایا گیا۔ ایوب خان نے جمہوری حکومت کا خاتمہ کرکے پاکستان میں پہلی فوجی حکومت  قائم کی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی۔ ضیاالحق کو کئی جرنیلوں سمیت طیارے حادثہ میں ہلاک کیا گیا۔ نواز شریف اور بے نظیر حکومتوں کو مدت پوری ہونے سے پہلے ختم کیا گیا۔ جرنل پرویز مشرف کو استعفی دینے اور پاکستان  چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔انِ تمام واقعات کے پیچھے امریکہ کا بل واسطہ یا بلا واسطہ  ہاتھ رہا ہے۔ امریکہ پاکستان کی دفاعی ضروریات پوری کرتا رہا ہے مگر اس نے کبھی بھی کھل کر پوری طرح سے پاکستان کی مدد نہیں کی۔ ایف ۱۶ طیاروں کا محاہدہ کرکے  اور پیسے وصول  کئے مگر  طیارے دینے میں آنا کانی کی۔  ماضی میں پاکستانی  عوام سے یہ چیزیں خفیہ رکھی جاتی  رہی ہیں  اور صرف اتنا کچھ بتایا جاتا  رہا ہے  جس پر امریکہ کو اعتراض نہ ہو۔  آج دنیا بدل چکی ہے۔ آج ہر خبر، محاہدے اور انکا پس منظر دنیا میں عالمی میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعہ چند گھنٹوں میں پھیل جاتا ہے۔ اور یہی کچھ آج عمران خان کی حکومت کو امریکہ کے کہنے پرنام نہاد جمہوری طریقہ سے ہٹایا گیا ۔ پاکستانی فوج، ایجنسیز اور سیاسی بازیگروں کو یہ کہا گیا کہ عمران خان کی حکومت کو عدم اعتماد کی تحریک پاس کراکر ختم کیا جائے اور عمران خان پر مقدمات بناکر سیاست سے الگ کیا جائے۔ اب زمانہ بدل گیا ہے۔ امریکہ کے یہ احکامات آج عمران خان کے ہی ذریعہ نا صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا پر چند گھنٹوں میں عیاں ہوگئے۔   یہ کاروائی سوشل میڈیا کے ذریعہ نا صرف پاکستان بلکہ دنیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ امریکی انتظامیہ اور پاکستان کے مقتدار اداروں کو شاید اس کا اندازہ نہیں تھا۔ انِ کے ہوم ورک میں شاید  موجودہ دور کے سوشل میڈیا کی طاقت کا اندازہ نہیں تھا۔

پاکستان میں پالیمانی ارکان کو خریدنے کا گھنائونا کھیل پہلے بھی کھیلا جاتا رہا ہے مگر عام پاکستانیوں کو اسکا علم نہیں ہوتا تھا۔ پرنٹ میڈیا  محدود تھا۔ بہت ساری خبریں سنسر ہو جاتی تھیں ۔ پاکستانی عوام کو یہ تو علم ہوتا تھا کہ حکومت بنانے اور ہٹانے کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہوتا ہے مگر اس کے ثبوت عیاں نہیں ہوتے تھے۔ آج سوشل میڈیا نے ہر چیز  عوام   کے سامنے کھول دی  ہے۔

عمران خان کی حکومت کو ہٹانے کے لئے کسِ طرح سے امریکی سفارتکاروں نے پاکستان میں مہم چلائی، کس طرح سے پاکستان کےسیاستدانوں، جماعتوں اور پالیمانی ارکان کو خریدا گیا ۔ پاکستا نی سفارتکاروں کو کسِ طرح سے ڈکٹیشن دیا گیا۔سب کچھ سوشل میڈیا اور  پھرقومی اور عالمی میڈیا عوام کے سامنے لے آیا۔پاکستان کی ساٹھ فیصد سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ آج پاکستان کے شہروں سے لیکر ایک چھوٹے سے گائوں میں بھی عوام کے پاس موبائل فون ہے۔انِ سب پارلیمانی ارکان کو خریدنے ویڈیوز عوام  نے  دیکھیں جو دنیا بھر میں سوشل میڈیا اور میڈیا کے ذریعہ عیاں ہو گئیں۔

لحاظہ جب سابق وزیر اعظم عمران خان نے یہ سب کچھ عوام کے سامنے رکھ دیا تو پاکستان کی اکثریت نے اپنے غم و غصہ کا اظہار عمران خان کے ساتھ یکجہتی اور امریکہ مردہ باد کے  نعرے پورے پاکستان میں گونج نے لگے۔ عمران خان کے پیچھے جب پاکستان کی عوام کی اکثریت کھڑی ہو گئی تو عمران خان کی تحریک انصاف کے پارلیمانی ارکان نے عمران خان کے ساتھ پارلیمان سے استعفی دیدیا۔

آج پاکستان  کے قومی پارلیمان  میں صرف  امریکہ کے زر خرید غلام بیٹھے ہیں اور ایک ایسا فرد وزیر اعظم ہے جس پر دس سے زیادہ منی لانڈرنگ اور کرپشن کے مقدمات ہیں۔ یہ سب کچھ امریکہ کو پسند ہے کیونکہ امریکہ کی چھوٹے اور کمزور ریاستوں کو اپنے قبضے میں رکھنے کے یہ ہی ہتھکنڈے ہیں۔

ساری دنیا نے دیکھا کہ امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملکر یہ دعوی کیا کہ صدام حسین کے پاس مہلک ہتھیار ہیں جن کو امریکہ تباہ کریگا۔پھر   عراق پر چڑھائی کی گئی  اورصدام حسین کی حکومت کو ختم کرکیا گیا  ۔  عراق کی دس لاکھ فوج  کا خاتمہ کیا گیا۔ صدام حسین کو پھانسی دی  گئی اور عراقی فوج کے جرنیل کے قتل کئے گئے۔  پھر  پتہ  یہ چلا کہ عراق کے پاس تو کوئی مہلک ہتھیار تھے ہی نہیں مگر آج عراق پر امریک کی پسند کی حکومت ہے اور عراق امریکہ کا ایک غلام ملک ہے۔ یہی حال شام  اور کئی عرب  اور افریقی ریاستوں کا ہوا۔  آج امریکہ عراق اور شام سے کتنا تیل روزانہ کی بنیاد پر نکال رہا ہے کسی  کو  نہیں پتہ۔اسی طرح سے امریکہ نے پاکستان سمیت اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان کو تباہ و برباد کردیا۔ ایک لاکھ سے زیادہ افغانیوں  کو فوجی آپریشن کے ذریعہ ہلاک  کیا گیا ۔ عمران کے اقتدار میں آنے بعد ایک مرتبہ پھر  افغانستان میں آپریشن کرنے کے لئے پاکستان کو کہا گیا۔ اسکے جواب نے جب عمران خان نے صاف صاف انکار کیا تو اسکی حکومت ختم کرنے کی کاروائیاں شروع کر دی گئیں۔ عمران خان پاکستان کے روائتی سیاستدانوں کے مقابلے میں  منفرد انداز سے دیکھتا ہوں۔ عمران خان کا تعلق کسی سیاسی گھرانے سے نہیں، نا ہی کسی زمیندار اور قبائلی سردار گھرانے سے ہے۔  مگر   پولیٹکل سائنس میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے گریجویٹ ہے۔عمران خان نے اپنا مقام اور شہرت دنیا میں شاندار کرکٹ کھیل کر بنایا۔ مگر آج میں  عمران خان کی موجودہ شخصیت کو دو تنازل میں دیکھتا ہوں۔ ایک امت مسلمہ کے ترجمان کی حیثیت میں اور دوسرا پاکستان کے  غیر معمولی قائد کی حیثیت میں۔

عمران خان نے اقتدار میں آنے کے بعد کچھ ایسے کام عالمی سطح پر کئے ہیں جو اب تاریخ کا حصہ ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ عمران خان پاکستان کا ہی ابھرتا ہوا قائد نہیں ہے بلکہ وہ عالم اسلام کے افق ہر ایک ابھرتا ہوا نام ہے۔ عمران خان نے اسلامو فوبیہ کے خلاف دنیا میں آواز بلند کی اور اقوام متحدہ  کی جنرل اسمبلی  سے اسلامو فوبیہ کے خلاف قرا ر داد منظور کرائی۔ اب دنیا میں ہر سال ۱۵ مارچ کو اسلامو فوبیہ کے خلاف بیداری کا دنِ منایا جائیگا۔

 عمران خان نےحضورپاک محمد ﷺ کی شان میں  ہونے والے گستاخی کے واقعات کے خلاف عالمی سطح پر آواز بلند کی  ۔  حضور پاک محمد ﷺ کی توہین کے مسلہ کو پہلی مرتبہ عالمی اسلامی تعاون  تنظیم (او آئی سی) کے فورم پر اٹھایا۔  پاکستان میں رحمت الا ٓمین فورم کا انعقاد کیا۔ پہلی مرتبہ او آئی سی کے ایجنڈے میں کشمیر کے مسلہ کو فلسطین کے ساتھ اٹھایا گیا۔  عمران خان نے دہشتگردی کو اسلام کے ساتھ جوڑنے کے خلاف بین الاقوامی سطح پر آواز اٹھائی۔ عمران خان مسلم امہ کے لئے ایک عظیم قائد بن کر ابھر رہا  ہے  جو مغربی طاقتوں کو پسند نہیں ہے۔ مغربی طاقتیں چاہتی ہیں کہ عمران خان بھی دوسرے چھوٹے ملکوں کی طرح  امریکہ کا غلام بن کر پاکستان میں سیاست کرے۔

عمران خان کی شخصیت کا دوسرا پہلو  اسکی پاکستان میں غیر معمولی سطح پر  بڑھتی ہوئی مقبولیت ہے۔ آج عمران خان پاکستان کی ایک قومی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کا سربراہ ہونا ہی  نہیں بلکہ اسُ نے حالیہ دنوں میں پاکستان کی بائیس کروڑ عوام سے یہ منوا لیا ہے کہ وہ پاکستان کا ایک قومی قائد ہے۔  عمران خان نے بحیثیت پاکستانی سیاسی قائد کے کچھ ایسے غیر معمولی اقدام اٹھائے جس سے وہ نا صرف پاکستان بلکہ عالمی میڈیا کی زینت بن گیا۔

عمران خان نے عالمی مغربی میڈیا کو  باور کرایا کہ پاکستان اب کسی کی جنگ میں ملوث نہیں ہو گا چاہے وہ افغانستان ہو یا یوکرین۔ عمرا ن خان نے کہا پاکستان امن کے لئے ہر ملک کے ساتھ ہے مگر جنگ کے لئے کسی کا ساتھ نہیں دیگا۔ عمران خان پاکستان کا وہ پہلا لیڈر ہے جس  نے  اقتدار میں ہوتے ہوئے اپنی حکومت  کو تحلیل کیا اور اعلان کیا کہ پاکستان میں اگلے تین ماہ میں انتخابات کراکے دیکھا  جائے کہ عوام کسِ کو اقتدار میں رکھنا چاہتی ہے۔ عمران خان کے اسِ عمل نے پاکستان کی عوام پر یہ ثابت کردیا کہ وہ اقتدار دکا بھوکا نہیں ہے۔ اسکو وزیر اعظم کی کرسی سے پیار نہیں ہے بلکہ وہ عوام کے اعتماد کے ساتھ پاکستان کی قیادت کرنا چاہتا ہے۔ عمران خان کے اسِ عمل نے پاکستان کی اکثریتی عوام کے دلِ  خرید  لئے۔ جو لوگ عمران خان کی سیاسی اور حکومتی پالیسیوں سے خوش نہیں تھے انہوں نے بھی عمران خان کے اسِ فیصلے کو سراہا۔ دوسری جانب پاکستان کے اقتدار سے پچھلے چالیس سال سے چمٹا ہوا ٹولہ،  انکی جماعتیں، میڈیا، عدلیہ اور مقتدار اداروں میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔  سب نے اپنے اپنے اختیارات کا بھرپور ناجائز فائدہ اٹھا کر عمران خان کے خلاف مہم چلانا شروع کردیا۔  مگر یہ ادارے، سیاسی بازیگر اور کچھ میڈیا کے ان داتا یہ بھول گئے کہ عزت اور ذلت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ کو نہ جانے  کسی انسان کا  کونسا عمل اچھا لگ جائے اور  پھر اس بندے کو نوازنا شروع کردے اور وہ تمام اہلیت سے نواز دے جس کے ذریعہ وہ اسُ بندے سے کام لینا چاہتا ہے۔

آج عمران خان اقتدار میں نہیں اور نا ہی اس کی جماعت  قومی پارلیمان کا حصہ ہے  مگر جو لوگ اب اقتدار میں بیٹھے ہیں ان  پر ایک خوف طاری ہے۔یہ عناصر جب سے عمران خان اقتدار میں آیا  تھا  چاہتے تھے کہ عمران خان سے جان چھڑائی جائے اور اسکو اقتدار سے باہر پھینکا جائے ۔   عمران خان  آج اقتدار میں نہیں ہے مگر آج پاکستان کی اکثریت بزرگ، نوجوان، عورتیں اور بچے اسکے ساتھ ہیں۔ عمران خان کے ہر بڑے شہر میں  تاریخی کامیاب جلسے اس بات کا ثبوت ہیں۔ اب اقتدار میں بیٹھے لوگوں پر خوف طاری ہے، اعلی عدلیہ اور فوج کے جرنیلوں کے  خلاف سوشل میڈیا پر مہم جاری ہے۔ اللہ کے کام اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ہو سکتا ہے پاکستان  کو اللہ نے رائے راست پر لانا ہو اور جس مقصد  اور نظریہ کے تحت پاکستان بنایا تھا آج اللہ اپنی منصوبہ بندی کے تحت وہ پایہ تکمیل تک کرنا چاہتا ہو۔

سید عتیق الحسن، صحافی اور تجزیہ نگار

Recommended For You

About the Author: Tribune