کراچی کے ضمنی انتخاب کی صدا

سید عیتق الحسن، سڈنی آسٹریلیاء

متحدہ قومی مومنٹ کے امیدوار 95644 ووٹ کے بڑے حدف کے ساتھ کراچی کے حلقہ 246 میں کامیاب ہوگئے جس پر الطاف حسین سمیت انکی کی جماعت کے تمام افراد مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ساتھ ہی  تحریک انصاف کے عمران اسمعیل   24821ووٹ لیکر یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ تحریک انصاف کے چاہنے والے 90 ذیرہ کے ارد گرد بھی بستے ہیں ۔ اور جماعت اسلامی کے  راشد نسیم صرف 9056 ووٹ حاصل کر سکے جو یہ ثابت کر رہا ہے کہ جماعت اسلامی ابھی تک اپنی کھوئی ہوئی Karachi 246 election campaignساکھ واپس نہیں لا سکی ہے اور   اب تو جماعت کا سامنا ایک نہیں دو جماعتوں سے ہے۔

کراچی کے اسِ ضمنی انتخاب کے نتائج کئی اعتبار سے کراچی کے عوام کی  موجودہ سیاسی بسیرت کا منظر پیش کر رہے ہیں۔  

  ایم کیو ایم اور اسِ حلقہ کی سیٹ کو خیر آباد کہنے والے نبیل گبول نے 170330 ووٹ  حاصل کئے تھے۔ کیونکہ یہ سیٹ ایم کیوایم کے منتخب نمائندہ نے چھوڑی تھی لحاظہ ایم کیو ایم کا دوبارہ جیتنا تو ایک منطقی نتیجہ بنتا تھا۔ پھر کیوں   اسِ  سیٹ   کو جیتنے کے لئے الطاف حسین اور انکی   ایم کیو ایم  کی پوری ٹیم    کو غیر معمولی جدو جہد کرنی پڑی ؟ اس کو جواب ایم کیو ایم کے خلاف تحریک انصاف کا نمائندہ کھڑا ہونا تھا۔ اگر تحریک انصاف یا جماعت اسلامی کے علاوہ کسی جماعت کا نمائندہ مثال کے طور پر پیپلز پارٹی نے کوئی نمائندہ کھڑا کیا ہوتا تو ایم کیو ایم اسُ کے خلاف انتخاب لڑنے کے بجائے انُ سے جوڑ توڑ کرکے مخالف نمائندہ کو بٹھانے میں کامیاب ہو جاتی   کیونکہ اس معاملے میں ایم کیو ایم کا ٹریک ریکارڈ موجود ہے۔  بارحال  تحریک انصاف چوبیس ہزار سے زیادہ ووٹ الطاف حسین کے گھر سے لینے میں کامیاب ہوگئی  جبکہ یہ ایک ضمنی انتخاب تھا لحاظہ عمران خان، عمران اسمعیل اور تحریک انصاف کے حماتی اسِ ہار کے باوجود بھی اپنی کارکردگی پر خوش ہونگے۔  رہی بات جماعت اسلامی کی تو یہ قیاس  آرائی کی جارہی تھی کہ وہ دوسرے نمبر پر رہے گی مگر دس ہزار سے کم ووٹ لیکر یہ بات ثابت سامنے آئی    کہ جماعت اسلامی اب عام انتخاب میں بھی شاید کوئی سیٹ نہ حاصل کر سکے۔

اب اگر جائزہ لیا جائے اسِ بات کا  کہ کیا وجہ ہے کہ متحدہ قومی مومنٹ نے ایک مرتبہ پھر ثابت کیا ہے کہ اس کا ووٹ بینک کراچی    میں موجود ہے تو متحدہ قومی  مومنٹ اور الطاف حسین کی اتنخابی مہم کو دیکھنا ہوگی۔ میڈیا میں جب بھی ایم کیو ایم  کے لیڈران سے سوال کیا گیا کہ آپ کی کارکردگی کیا رہی ہے جس کی بناہ پر لوگ آپ کو ووٹ دیں اور یہ کہ  ایم کیو ایم کے پاس ایسی کونسی چیز ہے کہ اسُ کے بدلے میں وہ عوام کے پاس جاکر ووٹ مانگیں گے تو جواب صرف ایک تھا کہ یہ حلقہ الطاف بھائی کا گھر ہے اور لوگ الطاف بھائی سے  لوگ پیار کرتے ہیں انکو اپنا روحانی باپ مانتے ہیں ۔ اور اگر ایم کیو ایم اور الطاف حسین کی تقاریر کا جائزہ لیا جائے تو صرف ایک چیز نظر آتی ہے کہ الطاف حسین اور متحدہ قومی مومنٹ نے یہ الیکشن مہاجر قومی مومنٹ بن کر لڑا   اور لوگوں سے ووٹ صرف اور صرف قومیت کی بنیاد پر مانگا  گیا۔

حلقہ میں جب لوگوں سے میڈیا  نے انٹرویوز لئے تو الطاف حسین  کے چاہنے والوں نے بھی یہ ہی کہا کہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے کچھ کام کیا ہو یا نہیں مگر ہے تو مہاجر۔

کیا جموریت اور حق رائے دہی کا مطلب ذات ،برادری اور قومیت کی بنیاد پر لوگوں کا ووٹ ڈالنا ہے؟ کیا ووٹ کا استعمال کسی ایک برادری یا قومیت کی طاقت کو ثابت کرنا ہوتا ہے یا پھر ایسے نمائندوں کو منتخب پارلیمنٹ یک پہنچانا ہوتا ہے جو ریاست کی باگ دوڑ ملک و قوم کے مفاد میں چلا سکیں؟

    اسِ ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کے رہنما عمران خان  نے صرف ایک ہی چیز کو انتخاب لڑنے کاموضوع بنایا اور وہ یہ کہ کراچی کے عوام باہر نکلیں خوف کے بُت کو توڑیں ،  کراچی سے نکل کر پاکستان  کی  سط پر  آگے آئیں وغیرہ وغیرہ  اور ساتھ ساتھ  وہ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجروں سے اپنے خاندان کو بھی ملاتے رہے اور حلقہ کی اکثریتی عوام کو یہ تا ثر دیتے رہے کہ وہ بھی  اپنی ماں کی طرف سے مہاجر ہیں۔ مگر  عمران خان اور انکی جماعت نے انُ مسائل پر بات نہیں کی جس کی وجہ سے ایم کیو ایم وجود میں آئی اور اردو بولنے والے الطاف حسین کے مرید بن گئے، اور یہ کہ جس کی وجہ سے الطاف حسین نے اردو بولنے والوں کو مہاجر کے نام پر اکٹھا کیا۔ عمران خان کو چاہئے تھا کہ وہ کوٹہ سسٹم اور سندھ میں ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں جاری نا انصافیوں پر اپنی جماعت کی پالیسی لوگوں کے سامنے لاتے۔  یہ ہی وہ وجہ تھی  کہ سندھ کے شہری علاقوں میں رہنے والے بالخصوص اردو زبان بولنے والے پاکستان کی قومی جماعتوں سے بددل ِ ہوئے تھے کیونکہ کسی جماعت نے بھی پاکستان پیپلز پارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے سندھ میں متعصابانہ نظام کے خلاف آواز نہیں اٹھائی ، کیونکہ وہ  انصاف کی بات کرنے سے زیادہ دھی علاقوں میں اپنا ووٹ بنک کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ الطاف حسین سندھ میں نافظ کیا گیا متعصبانہ نظام کے رائج ہونے سے جو کراچی، حیدرآباد اور شہری علاقوں کے لوگوں  کے  مسائل پیدا ہوئے تھے انکو  حل کرنے کا نام لیکر کر کراچی کے سیاسی اکھاڑے میں اُترے تھے۔ اگر عمران خان کھُل کر کوٹہ سسٹم کے خاتمہ کا اعلان کرتے اور کہتے کہ اگر وہ اور ان کی جماعت اقتدار میں آئے گی تو سب سے پہلے سندھ میں شہری اور دھی کی تفریق  اور  کوٹہ سسٹم ختم کرے گی ،  تمام ملازمتیں اور تقرریاں صرف اور صرف میرٹ پر ہونگی تو یقینا تحریک انصاف کو ملے گئے ووٹ کی تعداد  چوبیس ہزار سے کہیں زیادہ ہوتی ، اور یہ بھی ہو سکتا تھا کہ الطاف حسین  کا مہاجر کا نعرہ پھر   اپنے ووٹرز کو بیچنے کے لئے  کافی نہ ہوتا۔ اگر سندھ کے شہری علاقوں بالخصوص کراچی اور حیدرآباد کے ووٹ بینک کی تاریخ کو اُس وقت سے دیکھیں جب سے مہاجر قومی  مومنٹ وجود میں آئی  تو پتہ چلتا  ہےکہ یہاں سے جماعت اسلامی، جمعیت العلما اسلام اور دوسری قومی جماعتوں سے لوگ اسی لئے بددلِ ہوئے تھے کہ جب  پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ کا اقتدار حاصل کیا اور کوٹہ سسٹم سیمت سیاسی بنیاد پر سندھ میں سرکاری اداروں میں بھرتیاں شروع  کیں ، سندھ کے شہری علاقوں کی عوام بالخصوص اردو بولنے والوں نے دوسری سیاسی جماعت کی طرف دیکھا مگر کسی نے بھی کوٹہ سسٹم اور ناانصافیوں کے خلاف آواز نہیں اٹھائی کیونکہ یہ تمام بڑی جماعتیں  سندھ کے دہی علاقوں کے لوگوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے اور اب شاید عمران خان  کی بھی پالیسی میں یہ بات شامل ہو کہ اگر انہوں نے کوٹہ سسٹم کے  خاتمہ کی کُھل کر بات کی  تو وہ سندھ کے دھی علاقوں میں  اپنا ووٹ بینک قائم نہ کر سکیں گے، اور اگر اس میں کوئی حقیقت ہے تو پھر عمران خان کو اپنی جماعت کا نام ، تحریک انصاف،  کے بارے میں بھی سوچنا پڑے گا۔

 سندھ میں  قوم پرستی کی بنیاد تو  ذوالفقار علی بھٹو اور اسکی  پاکستان پیپلز پارٹی نے ڈالی تھی جب لوگوں کو زبان کی بنیاد پر تقسیم کیا  گیا۔  اور اگر پاکستان کی بات کی جائے تو جب کچھ سیاستدانوں نے پنجابی، سندھی، بلوچی اور پٹھان بن   کرعوام میں مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کی تو الطاف حسین نے بھی سندھ  کےاردو بولنے والوں کے مسائل کے نام پر مہاجر  قوم پرستی کا بیج بویا۔

لیکن سوال یہاں یہ ہے کہ  ذات، برادری، اورقومیت کی بیناد پر لوگوں کو تقسیم کرنا تو جاگیرداروں اور قبائلیوں کی حکمت عملی ہوتی  ہے۔ الطاف حسین نے ہمیشہ یہ نعرہ لگایا کہ وہ جاگیرداری، قبائلی اور لوگوں کی ذات برادری کی بنا پر تقسیم کے خلاف ہیں مگر دوسری طرف اردو بولنے والوں کو مہاجر کا نام دیکر اور ایک نئی قومیت کے نام  کو  ابھارا۔  کیا مہاجر بن کر سندھ کے اردو بولنے والوں کے معاشی، تعلیمی، روزگاری مسائل صوبائی یا مرکزی  ریاستی طاقتوں  سے منوالیئے  جائیں گے۔ پچھلے تین دھائیوں میں تو الطاف حسین اسِ میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں، ہزاروں لوگ انکی اسِ تحریک میں مارے بھی جا چکے ہیں۔ اور تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ الطاف حسین نے کبھی کوٹہ سسٹم یا بہاریوں کو بنگلادیش سے واپس لانے جیسے مسلے پر  مارنے یا مرجانے جیسا اسٹینڈ نہیں لیا بلکہ ان مسائل پر ساز باز کرکے زیادہ تر حکومت میں حصہ دار رہے۔ پچھلے ایک دھائی سے زیادہ ایم کیو ایم کا اپنا گورنر بھی رہا جس سے الطاف حسین اپنے حالیہ بیان میں لا تعلقی کا اعلان کر چکے ہیں۔ 

سندھ میں ناانصافیوں ، کرپشن اور سیاسی بنیادوں پر لوگوں کو مراعات دینے پر پاکستان کی بڑی جماعتوں کی طرف سے پردہ پوشی ہی وجہ ہے کہ  سندھ کے شہری علاقوں میں  اردو بولنے  والے  دِل سے کسی جماعت پر اعتماد نہیں کرتے اور جس کا خود بخود فائدہ   الطاف حسین  صاحب اور انکی  مہاجر  قومی مومنٹ کو ہوتا ہے۔ کیونکہ الطاف حسین کی سیاست صرف اور صرف لسانیت کے گرد گھومتی ہے۔اردو بولنے والوں کو مہاجر کے لقب سے نوازنے کے علاوہ الطاف حسین صاحب کے پاس کوئی اور ایسا غیر معمولی کارنامہ نہیں ہے جس کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ جب سے ایم کیو ایم کا وجود ہوا ہے سندھ کے اردو بولنے والوں کو  سیاسی، معاشی، تعلیم، روزگاری، یا کوئی اور انقلابی فائدہ ہوا ہو۔  آج زمینی حقیقت یہ ہے کہ ایم کیو ایم نے اپنے مرکز ی حلقہ میں الیکشن جیت کر یہ ثابت کیا ہے کہ زبان   اور مہاجر کے نام پر ایم کیو ایم نے پاکستان میں سب زیادہ طاقتور سیاست  کھیلی  ہے اور آج بھی عملی میدان میں لوگوں کے لئے کچھ نہ کرکے بھی وہ صرف مہاجر کے نام پر لوگوں کے دلوں میں رہتی ہے۔  آج کراچی کے اردو بولنے والوں کو صرف اور صرف اسِ بات پر فخر ہے کہ وہ مہاجر  ہیں   اور الطاف حسین انکا روحانی باپ ہے جس کا اظہار انہوں نے کھلُ کر ضمنی انتخاب میں کیا۔کراچی کے اردو بولنے والوں کے اسِ عمل سے انکے معاشی ، تعلیمی، انتظامی، اور روزگاری مسائل کتنے حل ہونگے اسِ  کا جواب  تواردو بولنے والے یقینا صرف اور صرف الطاف حسین صاحب سے ہی لیں گے؟  مگر پاکستان اور پاکستانی شناخت کی بات کی جائےتو آج یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کے سیاستدانوں اور مذہبی لیڈران نے پاکستان کی عوام کو پاکستانی بنانے میں اپنا کوئی کردار ادا نہیں کیا مگر پنجانی، مہاجر، سندھی، سرائیکی، بلوچی اور پٹھان بنانے میں اپنی  اہم کردار ادا کیا ہے۔اگر کراچی کے ضمنی انتخاب میں الطاف حسین اور انکی جماعت مہاجر کے عنصر کو ایک طرف رکھ کر انتخاب صرف اور صرف پچھلی کارکردگی کی بنیاد پر لڑتی تو اسکو کتنےووٹ ملتے؟ جن  کا  ضمیر  اگر صحح سلامت ہے تو  امید ہے اس کا ایمانداری سے جواب دیں گے؟ آج پاکستانیوں کے لئے یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ وہ حقیقی طور پر کتنے سچے پاکستانی ہیں؟ پہلے پاکستانی ہیں یا پنجابی، سندھی، بلوچی ، پٹھان یا مہاجر؟

 اگر آج نواز شریف، شہباز شہریف اور انکی جماعت پاکستان کا اقتدار اپنے ہاتھ میں رکھنے کے باوجود اور اپنے آپ کو پاکستان کی سب سےزیادہ حمایت یافتہ جماعت کہنے کے باوجود کراچی کے ضمنی انتخاب میں حصہ نہیں لیتی ہے تو کیوں؟

  کیوں سندھ کے اقتدار کی مالک پاکستان پیپلز پارٹی اور آصف علی زرداری نے  کراچی کے ضمنی انتخاب میں حصہ نہیں لیا؟ کیوں عوامی نیشنل پارٹی  نے اپنا امیدوار اسِ انتخاب میں نہیں ، ویسے تو شاہی سید  اپنی تقریروں میں دعوے کیا کرتے ہیں کہ خیبر پختوں خواہ کے بعد انکی جماعت کی دوسری بڑی اکثریت کراچی میں ہے؟  

 کیونکہ ان تمام سیاستدانوں نے اپنی جماعتوں  کے علاقےزبان، نسل اور فرقہ کے بنیاد پر بانٹیں ہوئے ہیں۔ کراچی کا ضمنی انتخاب بھی  دراصل الطاف حسین کے لئے اپنے علاقے کاکنٹرول قائم رکھنا تھا جو انہوں نے ایک مرتبہ پھر صرف اور صرف مہاجر کا کارڈ کھیل کر جیت لیا؟

زمینی حقائق یہ صدا دے رہے ہیں کہ   پاکستان  بالخصوص کراچی کی اکثریتی عوام  جو بجلی، پانی، گیس، آلودگی، مہنگائی اور ملازمتوں کا رونا روتی ہے  شاید یہ انِ سب چیزوں کی عدم دستیابی  سے زیادہ رنگ و نسل، زبان و علاقیت کی  سیاست سے لطف اندوز ہوتی ہے ۔

Recommended For You

About the Author: Tribune