پاکستانی کمیونٹی کو درپیش مسائل میڈیا میں اجاُگر ہونے کے بعدسفارتکاروں کا ردعمل

پاکستانی کمیونٹی سے حمایت میں پیٹیشن تیار، سفارتخانہ کی کارکردگی کے چرچے

ٹریبیون انٹرنیشنل آسٹریلیاء

پاکستانی کمیونٹی کو سڈنی میں موجود کونسل خانہ اور کیمبرہ میں واقع سفارتخانہ سے درپیش مشکلات کی خبریں میڈیا میں آنے کے بعد سڈنی میں تعینات کونسل جنرل آجکل اپنے اور سفارتخانہ کے بچاؤ اور محکمہ خارجہ میں اپنے دفاع کے لئے حکمتِ عملی کے طور پر ایک کمیونٹی پیٹیشن تیار کروارنے میں مصروف عمل ہیں ۔ کونسل جنرل یہ پیٹیشن اپنے رفقہ کارکے ذر یعہ تیار کروارہے ہیں۔ اسِ پیٹیشن کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوششِ کی جارہی ہے کہ پاکستانی کمیونٹی کے افراد سڈنی میں موجود کونسل خانہ کی کارکردگی بالالخصوص کونسل جنرل کی سرگرمیوں سے بہت مطمئین ہیں۔ دوسری طرف کونسل خانہ اور سفارتخانہ نے بطور کارکردگی کچھ ذاتی شوشل نیٹ ورک اور اثر و اسوخ کی بنا ء پر کمیونٹی ویب سائٹس کا سہارا لیتے ہوئے اپنے اداروں کی کارکردگی کے چرچے شروع کر دیئے ہیں۔
کمیونٹی پیٹیشن پر پاکستانی کمیونٹی کے افراد سے فرداً فرداً رابطہ قائم کرکے یہ کہا جا رہا ہے کہ کمیونٹی کو مضبوط اور اکٹھا کرنے کے لئے پاکستانی کمیونٹی کی طرف سے ایک پیٹشین تیار کی جارہی ہے لحاظہ اسِ پر دستخط کردیں۔ ادارۂ ٹریبیون نے کمیونٹی میں سرگرم چند ان لوگوں سے رابطہ کیا جنہوں نے اسِ کمیونٹی پیٹیشن پر دستخط کئے ہیں تو یہ بات سامنے آئی کہ ان لوگوں سے دستخط کرواتے وقت ان کو اسِ پیٹیشن کی وہ اصل حقیقت نہیں بتائی گئی تھی جو اب منظر عام پر آرہی ہے ۔ اسِ پیٹیشن کے ردعمل کے طور پر کمیونٹی کے کچھ لوگوں نے اسِ پیٹشن کے خلاف بھی ایک کمیونٹی پیٹیشن تیار کرنی شروع کر دی ہے۔ لحاظہ کونسل جنرل اور انکے رفقہ کار کے اسِ عمل سے پاکستانی کمیونٹی میں انتشار اور تقسیم کو فروغ مل رہا ہے۔
ادارۂ ٹریبون اسِ بات پر فخر محسوس کرتا ہے کہ ادارۂ کے اعلی اور بین الاقوامی شہرت یافتہ صحافیوں نے ٹریبون انٹرنیشنل اخبار اور وائس آف ٹریبون ریڈیو پروگرام کے ذریعہ پچھلے 15 سالوں میں اپنی صحافتی ذمہ اریوں کو نبھاتے ہوئے ہمیشہ صرف اور صرف کمیونٹی اور عوامی مفاد کوسامنے رکھتے ہوئے کمیونٹی مسائل کو اپنی صحافت کا موضوع بنایا ہے۔وائس آف ٹریببیون کے سننے والوں کو علم ہے کہ ابھی چند ہفتہ قبل بھی ہم نے پاکستان کے محکمہ خارجہ کے ترجمانِ اعلی اور بیوروکریٹس جناب معظم احمد خان صاحب سے بیرونِ ملک سفارتخانوں سے منسلک کارکردگی پر انٹرویو کیا تھا جوکہ ٹریبیون کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ ٹر یبیون انٹرنیشنل کی اسِ عوامی و صحافتی ذمہ داریوں کے نتیجہ میں ماضی میں بھی انِ مسائل کو جب جب میڈیا میں لایا گیا تو ذمہ دار سرکاری افسران اور سفارتکاروں کے رویہ اور کام میں بدلاؤ دیکھا گیا۔ مگر افسوس اسِ بات کا ہے کہ جب بھی ادارۂ ٹریبیون نے لوگوں کو درپیش سفارتخانہ سے جڑے مسائل اپنے میڈیا میں اٹھائے ہیں بجائے اس کے کہ ان مسائل اور کمیونٹی کو درپیش مشکلات کو مثبت انداز سے لیا جاتا اور تعمیری انداز سے اس پر دھیان دیا جاتا اٹھائے گئے مسائل پر کمیونٹی میں غلط تاثر دیا گیا اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کئی کہ یہ سب کچھ ٹریبیون انٹرنیشنل کے کسی فرد کی ذاتی رنجش یا ناراضگی کا ردعمل ہے۔ ادارۂ ٹریبیون کے مدیر اعلی کی کردار کشی کرنے کی کوشش کی گئی م، متعصبانہ اقدام اٹھائے گئے، اور اس طرح کی سرگرمیاں کی گئیں جن سے کمیونٹی میں گروپ بندی اور سیاست بازی بڑھے ۔ بارحال یہ پاکستانی بیوروکرسی کی پرانی روایات ہیں چا ہے یہ پاکستان میں کام کر رہے ہوں یا باہر۔
جیساکہ ٹریبیون کی پچھلے 15 سال کی کارکردگی رہی ہے کہ ادارۂ نے اعلی صحافتی اقدار کو اپناتے ہوئے صحافت میں عوام اور صرف عوام کے مفاد میں مسائل کو میڈیا کی خبروں کا حصہ بنایا ہے۔ ادارۂ ٹریبیون یا اس کے کسی صحافی کی کسی سرکاری افسر بشمول کونسل جنرل یا ہائی کمنشنر سے نہ کوئی ذاتی دوستی ہے، نہ کوئی رنجش، نہ کوئی ذاتی کام ہے اور نہ ہی اور ذاتی مقصد ۔ ٹریبیون اخبار کے قارائین اور وائس آف ٹریبیون ریڈیو کے سننے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ادارۂ نے کبھی بھی کوئی خبر ذاتی رنجش یا ناراضگی کے سبب اپنی صحافت کا حصہ بنایاہو کیونکہ یہ عمل صحافت کے اعلی اصولوں کی نفی کرتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب جب سفارتکاروں نے کوئی پاکستان یا کمیونٹی کے لئے اچھا کام کیا ، یا پیغام دیا ٹریبیون نے اپنی شہ سرخیوں کا حصہ بنایا ہے۔ یہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ جب بھی کوئی نیا ہائی کمشنر نے آسٹریلیا میں اپنا منصب سنبھالا ہے ٹریبیون نے انکے مقاصد کو عوام تک لانے کے لئے مفصل انٹرویوز شائع کئے ہیں۔ لحاظہ ادارۂ ٹریبیون کا کام ہے حالات اور واقعات تک عوام کو پہنچانااور عوام کے مشکلات میں انکی آوازبننا۔

بقول حبیب جالب؛

اور سب بھول گئے حرفِ صداقت لکھنا

اور سب بھول گئے حرفِ صداقت لکھنا

رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا

لاکھ کہتے رہے ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا

ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا

نہ صلے کی نہ ستائش کی تمنا ہم کو

حق میں لوگوں کے ہماری تو ہے عادت لکھنا

ہم نے جو بھول کے بھی شہ کا قصیدہ نہ لکھا

شاید آیا اسی خوبی کی بدولت لکھنا

اس سے بڑھ کر مری تحسین بھلا کیا ہو گی

پڑھ کے ناخوش ہیں مرا صاحبِ ثروت لکھنا

دہر کے غم سے ہوا ربط تو ہم بھول گئے

سروقامت کو جوانی کو قیا مت لکھنا

کچھ بھی کہتے ہیں کہیں شہ کے مصاحب جالبؔ

رنگ رکھنا یہی اپنا اسی صورت لکھنا

Recommended For You

About the Author: Tribune