پاکستان، پی پی پی اور بلاول

سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیاء

محترمہ بے نظیر بھٹو کی پانچویں برسی کے موقع پرسیاسی اکابرین ، صحافت کے الم برداروں اور پاکستان کی عوام کو صدر مملک آصف علی زرداری سے زیادہ زرداری خاندان کے چشم و چراغ اور آصف زرداری و بے نظیر بھٹو کے فرزند بلاول بھٹو زرداری کی تقریر کا بے چینی سے انتظار تھا۔ بلا شبہ بلاول بھٹو زرداری نے اردو میں تقریر اور بہترین الفاظ اور تلفظ کا استعمال کرکے اہلِ زبان کو حیران کر دیا ۔ بلاول بھٹو زرداری کی پر اعتماد اور بے نظیر جیسے جذبات سے بھری آواز نے یقیناًپاکستان پیپلز پارٹی کے جیالے کو بہت متاثر کیا ہوگا۔
کیا بلاول زرداری پاکستان کی نئی نسل کی نمائیندگی پیپلز پارٹی کے پلیٹفارم سے کا میابی سے کر پائیں گے اور وہ ڈیلیور کر پائیں گے جس کی پاکستان کی نئی نسل کو اور موجودہ پاکستان کو ضرورت ہے؟یا پھر زرداری کے خاندان سے تعلق رکھتے ہوئے اور بھٹو خاندان کی روایات پر چلتے ہوئے اسیُ تاریخ اور انجام کو دوھرائیں گے جو ذوالفقار علی بھٹو ، مرتضی بھٹو اور بے نظیر بھٹوکی تاریخی انجام کا حصہ ہے۔

بلاول بھٹو زرداری کی تقریر سن کر اور دیکھ کر بلا شبہ کہا جا سکتا ہے کہ آصف علی زرداری نے بلاول پر بہت محنت کرکے زبان اور تقریر کے اچھے گن سکھائے ہیں۔یقیناًبلاول کے اردو کے استاد مبارکباد کے مستحق ہیں۔ مگر عملی سیاست کے لئے جن دوسرے عناصر کی ضرورت ہوتی ہے اس کا تو آگے چل کر سیاسی میدان میں ہی پتہ چلے گا۔ ہاں ایک بات جس کا آصف علی زرداری اپنی تقریروں میں بہت ذکر کرتے ہیں اور بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر ایک مرتبہ پھر دھرائی گئی وہ ہے ’تاریخ‘ ۔ زرداری صاحب ’تاریخ‘ کو ’تاریک‘ کہتے ہیں مگر یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے اہلِ زبان نہ ہونے کی وجہ سے انکے اسِ تلفظ کو نظر انداز کر دینا چائیے مگر تاریخی حقیقتوں کو کسِ طرح سے کوئی نظر انداز کر سکتا ہے۔ امید ہے زرداری صاحب بلاول کی اپنی سیاسی زندگی کے مفاد میں جب انہیں پاکستان کی سیاسی تاریخ کے بارے میں بتائیں گے تو وہ تمام سیاسی تعصبات سے پاک ہوکر تاریخ کا مکمل علم دیں گے، ناکہ صرف وہ کچھ اور وہی کچھ بتائیں گے اور ؂ تصویر کا وہی رخ دکھائیں جسے وہ سمجھتے ہیں کہ بلاول کو بتانا چائیے اور اگر زرداری صاحب نے ایسا کیا تو وہ بلاول کے ساتھ زیادتی کریں گے۔ 
آصف علی زرداری نے اپنی تقریر میں کہا کہ بلاول کی ابھی سیاسی تربیت ہونی ہے ۔امید کی جاتی ہے کہ آصف علی زرداری جب بلاول کی سیاسی تربیت کریں اور پاکستان کی سیاسی تاریخ جو بہت درد ناک اور سیاح ہے اس کا احوال بتائیں تو بلاول سے انُ تلخ حقیقتوں کو نہیں چھپائیں گے جن کا بلاول زرداری کو ہو سکتا ہے اس وقت علم ہو جب تیر بلاول کی کمان سے نکل جائے؛ مثال کے طور پر زرداری صاحب ذوالفقار علی بھٹو کی تاریخ کا بتاتے ہوئے یہ ضرور بتائیں گے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی کیرئیر کا آغاز کسِ کے دور میں اور کسِ کی مہربانیوں سے ہوا؟ قائد اعظم کی مسلم لیگ کے خلاف جو کنوینشن مسلم لیگ فیلڈ مارشل ایوب خان نے بنائی اس میں ذوالفقار علی بھٹو کا کردار کیا تھا؟ 1971 کا پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اور صاف ستھرے الیکشن کے نتیجے میں مشرقی اور مغربی پاکستان کی مجموعی  300

  مخصوص نشستوں کے علاوہ ، سیٹوں میں کسِ طرح مجیب الرحمن کی عوامی تحریک 160 سیٹیں لینے کے باوجود اقتدار میں نہ آسکی اور بنگلادیش کا نعرہ لگانے پر،  مجبور ہوئی اور دوسری طرف کسِ طرح سے ذوالفقار علی بھٹو پیپلز پارٹی کی 81 سیٹوں کے ساتھ مغربی پاکستان کے اقتدار کے مالک بنے۔ اور پھر کسِ طرح اپنے آپ کو جمہوریت کے الم بردار اور عوامی قائد کے طور پر دنیا میں متعارف کرایا گیا؟
آصف علی زرداری صاحب کو چائیے کہ وہ بلاول زرداری کو یہ ضرور بتائیں کہ ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلادیش کے قیام کے بعد جنرل یححی خان سے اقتدار لیکر پاکستان کے صدر اور نا صرف پاکستان بلکہ دنیا کے پہلے سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے 20 دسمبر 1971 کو پاکستان کی باگ دوڑ سنبھا لی ۔ زرداری صاحب کو بلاول کو تاریخ کا وہ باب بھی تفصیل سے بتانا چائیے جب 1977 میں پیپلز پارٹی کے منعقدہ پاکستان میں ہونے والے الیکشن میں تاریخی دھاندلی کے نتیجے میں کسِ طرح سے تاریخ ساز قومی تحریک چلی جس کا انجام جنرل ضیا ء الحق کا اقتتدار پر قبضہ ا ور ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے جرم میں پھانسی کی سزا ہوئی۔
آصف علی زرداری کو بلاول زرداری کو یہ بھی بتانا چائیے کہ ان کے اپنے صوبہ سندھ میں سندھی اور اردو بولنے والے شہریوں کے درمیان تفریق کا بیج کسِ نے بویا؟ یہ سندھی لسانی بلِ 1972 کیا تھا، یہ کوٹہ سسٹم کا نفاذ کیوں کیا گیا اور اس سے آج کتنا فائدہ سندھ کی عوام کو ہوا ہے۔ سندھ کے لوگوں کو حقیقی معنوں میں ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر زرداری تک کیا ملا ہے۔ سندھ کتنا خوشحال ہوا ہے۔ اور آج یہ سندھ میں لسانی تعصب، تقسیم کی سیاست کی بنیاد کہاں اور کیسے رکھی گئی۔
آصف علی زرداری کو تعصب سے پاک ہوکر بلاول بھٹو کو یہ بتانا چائیے کہ بے نظیر بھٹو کی حکومت میں زرداری صاحب کے پاس کون سا محکمہ تھا۔ جب 10 اکتوبر1990 کو زرداری صاحب کو پولس نے گرفتار کیا تو کسِ جرم میں گرفتار کیا؟1995-96 کے دوران بے نظیر حکومت میں سرمایہ کاری کی وزارت کے دوران کیا کیا پروجیکٹ لئے گئے ؟ یہ فرانس اور لندن میں زرداری کے اکاؤنٹس کا سلسلہ آخر ہے کیا؟ لوگوں نے کیوں مسٹر 10 پرسنٹ کا لقب دیا؟ اور پھر بے نظیر کی حکومت کنِ وجوہات کی بناپر گئی؟زرداری خاندان کا وارث ہونے کے ناطے بلاول کو یہ تو ویسے بھی بتانا پڑے گا کہ باہر کے ممالک میں کہاں کہاں کسِ کسِ اکاونٹ میں کتنی رقم ہے اور کیا یہ سب زمینداری کے نتیجہ میں حاصل ہوئی ہے یا پھر سیاست کا پھل؟
آصف علی زرداری کو بلاول زردای کو ان حقیقتوں کو بھی واضح کر نا چائیے کہ آخر بلاول کے ماموں مرتضی بھٹو کا قتل کراچی کی شاہراہ پر 20 ستمبر1996 کوکسِ نے کرایا ، اس وقت کس کی حکومت تھی، اور ان کے قاتلوں کو کیوں نہیں پکڑا گیا ۔ اور پھر بلاول کے دوسرے ماموں شاہنواز بھٹو کی فرانس میں صرف 27 سال کی عمر میں 18 جولائی 1985 کو پراسرار موت کیسے ہوئی۔زرداری نے اپنے پانچ سالہ موجودہ دور حکومت میں اپنے دوسالوں کی موت کے بارے میں کیوں بات نہیں کی۔بات نکلے گی تو دور تلک جائے گی۔
بلاول بھٹوزرداری اس وقت بہت چھوٹا تھا لحاظہ اس کو شاید یاد نہ ہو مگر آصف علی زرداری کو ضرور بلاول کو بتانا چائیے کہ بے نظیر بھٹو کو پاکستان سے نکالا گیا یا پاکستان خود چھوڑا ؟ اور پھر زرداری صاحب نے کسِ سے محاہدہ کرکے پاکستان چھوڑا؟ باہر رہتے ہوئے دبئی اور امریکہ میں کنِ کنِ عالمی طاقتوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ زرداری صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ ان کا یہ کارنامہ ہے کہ انہوں نے پاکستان اور پاکستان کی عوام کو پرویز مشرف جیسے طاقتور جنرل سے جان چھڑائی۔ زرداری صاحب آپ تو تاریخ پر بہت ایمان رکھتے ہیں تو آپ کسِ طرح بھول سکتے ہیں اور پھر یہ بہت پرانی بات بھی نہیں ہے صرف پانچ سال پہلے کی باتیں ہیں! پھر بھی آپ کو شاید یاد نہیں کہ آپ نے اور بے نظیر بھٹو نے اسی جنرل سے دبئی میں ملاقاتیں کیں۔ کیا آپ نے بلاول بھٹو کو بتایا کہ پرویز مشرف سے کیا کیا وعدہ کئے گئے اور کنِ کنِ کو پورا کیا گیا؟ کیا آپ بلاول زرداری کو بتائیں گے کہ یہ NRO کیا تھا اور اس پر کسِ کسِ نے محاہدہ کیا اور پھر توڑا بھی۔کیا آپ نے بلاول کو بتایا کہ امریکہ کی ریاست ورجینیا میں آپ کی اور بے نظیر صاحبہ کی کنِ کنِ سے ملاقاتیں ہوتی رہیں اور کیا کیا وعدہ کئے گئے ؟
بے نظیر بھٹو کی برسی بلا شبہ بڑی شان و شوکت سے منائی گئی،برسی پر زرداری کے چہرہ پر بڑی مسکراہت تھی۔پیپلز پارٹی کے بر سرِ اقتدار تمام وزراء اور پارٹی لیڈران موجود تھے۔ زرداری صاحب نے ، نئے اور سابق وزیر اعظم نے بھٹو ازم اور بے نظیر کے فلسفہ کی ترجمانی کرنے کی باتیں کی مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ بے نظیر کے قاتلوں کو گرفتار کرکے ان کی برسی کے موقع پر بے نظیر کی روح کو سکون میسر کی جاتا ہے۔ جذباتی تقریریں کرنی اور عملی محبت کا مظاہرہ مختلف چیزیں ہیں۔
پاکستان میں جتنا حق ایک عام اور خاص آدمی کا سیاست کرنے کا ہے اتنا بلاول بھٹو زرداری کا بھی ہے۔ جہاں بلاول کی رگوں میں زرداری کا خون ہے وہیں بے نظیر کا بھی ہے۔ بلاول بھٹو کو اگر 21 صدی میں پاکستان کی نئی نسل کی قیادت کر نی ہے تو یہ قبروں، شہیدوں اور مرنے والوں کے نام پر سیاست کو خیر آباد کہنا ہوگا ۔ لوگوں کی ضرورتیں انہوں نے پوری نہیں کرنی جو اب تاریخ کا حصہ ہیں۔ پاکستان کی معیشیت کو انہوں نے ٹھیک نہیں کرنا جو اب بڑے بڑے مزاروں کی زینت بن چکے ہیں۔ تاریخ اور جذبات سے نکل کو حقیقت میں آنا ہوگا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ پاکستان معاشی، سیاسی اور انتظامی طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ پاکستان دنیا میں اکیلا نظر آتا ہے۔ پاکستان کو دہشتگردوں کے ہاتھوں میں دھکیل دیا گیا ہے۔ پاکستان کی عوام کے پاس نہ روزگار ہے ، نہ پانی، نہ بجلی، نہ گیس اور نہ پیٹرول۔ بڑے بڑے ادارہ تباہ ہو چکے ہیں اور لوگ پاکستان سے سرمایہ اور فیکٹریاں بنگلادیش لیکر جارہے ہیں جو کبھی مشرقی پاکستان تھا۔ اگر انِ حقیقتوں کا بلاول زرداری مقابلہ کر سکتا ہے اور پرانی روائتی سیاست کو خیرآباد ہ کہ کر پاکستان پیپلز پارٹی کو عام آدمی کے فائدہ کی جماعت بنا سکتا ہے اور اگر بلاول زرداری پیپلز پارٹی کو جاگیردارانہ، وڈیرانہ اور پیری مریدی کی سیاست سے پاک کرکے عام کارکن کی پیپلز پارٹی بنا سکتا ہے ، پاکستان کے لئے بہترین عملی اور جامہ ایجنڈہ پاکستان کی سالمیت اور عوام کی بہتری کے لئے دے سکتا ہے تو یقیناًپاکستان کی عوام جو بہت فراغ دلِ ہے دوسروں کی بلاول بھٹو زرداری کو بھی قبول کرلے ورنہ اب اسلامی دنیا کی سیاست بدل رہی ہے اور یقیناًاس کا رخ اب پاکستان کی طرف ہے۔

Recommended For You

About the Author: Tribune