مسلہ صرف کراچی کا نہیں پاکستان کے استحکام کا ہے

سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیاء

Pakistan-flagتعصب اور تفریق  کوہر مُہذب معاشرہ میں سب سے زیادہ بریُ نظر  سے دیکھا جاتا ہے۔ پھر اسلام  کے بنیاد ی اصول تو مساوات ، انصاف اورعدل کا درس   تو سارے عالم  کے لئے  ہیں ۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان میں صوبائیت ،  لسانیت اور ناانصافیوں کی وجہ سے ہی مشرقی پاکستان علیحدہ ہوا۔  اگر پاکستانی عوام پاکستانیت کو اپنی شناخت سے نکال دیں تو پھر اسُ مقصد کا خاتمہ ہو جاتا ہے جس کی بنیاد پر پاکستان وجود میں آیا تھا۔حقیقت  یہ بھی ہے کہ سندھ، پنجاب،بلوچستان اور سرحد میں چند سیاسی عناصر نے صوبائیت اور لسانیت کی سیاست شروع سے ہی جاری رکھی  اور  دوسری جانِب جو بھی سول یا فوجی حکمران  آئے انہوں نے یا تو ایسے عناصر کو نظر انداز کیا یا پھر انُ سے اپنے مفادات حاصل کرنے کے لئے سیاسی جوڑ توڑ کی۔

یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ  سندھی  قوم پرست عناصر نے سندھ کے تعلیمی اداروں میں سندھی قوم پرست طلبا تنظیموں کو فروغ دیا اور اردو بولنے والوں کو مکڑ، پناہ گیر اور مہاجر کے نام سے پکارا  ، انکا جسمانی اور دماغی  ٹارچر کیا  جسِ سے  سندھ کے  اردو بولنے والوں کے دِلوں میں نفرتوں اور بدلے کی آگ نے جنم لیا۔   یہ بھی حقیقت  ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی  پیپلز پارٹی کی  حکومت نے  سب سے پہلے سندھی زبان  کا کارڈ استعمال کر کے سندھ کو لسانی سطح پر آئینی طریقہ سے دو حصوں میں تقسیم کیا۔  پاکستان کا   1973  کا  آئین جس کو ذوالفقار علی بھٹو کا سب سے بڑا کارنامہ کہا جاتا ہے اسُ میں ذوالفقار علی بھٹو نے  کوٹہ سسٹم کو پاکستان کے آئین قانون کا حصہ بنایا اور پاکستان کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے اسُ آئین پر فراغ دلی سے دستخط کئے جو  اسلام  کے مساوات کے سنہری اصول کی   منافی تھی۔ اسِ کے بعد  سندھ کے شہری علاقوں میں آباد اردو بولنے والوں کے لئے تعلیم اور روزگار کے دروازے بند کئے  تو الطاف حسین اور اُس دور  کے بیشتر نوجوان سیاسی ذہنوں    نےرد عمل کے طور پر ‘پانچویں قومیت مہاجر ‘ کا نعرہ لگایا۔

 اور حقیقت تو یہ بھی   ہے جس سے  شاید 80 کی دھائی یا اسکے بعد پیدا ہونے والا کراچی اور حیدرآباد کا نوجوان بے خبر ہو کہ مہاجر یا مہاجرستان کا نعرہ   سب سے پہلے الطاف حسین نے   نہیں لگایا تھا بلکہ یہ نعرہ سب سے پہلے 60 کی دھائی میں  اسُ وقت لگا جب ایوب خان کے کراچی کے معاملے پر اشتعیال انگریز بیانات اور اسکے بیٹے گوہر ایوب کی طرف سے مہاجروں  کو کہا  گیا کہ ‘مہاجروں تمھارے لئے اب صرف آگے سمندر’ ہے۔الطاف حسین اس وقت کسی اسکول یا کالج کے طالبعلم ہونگے جب  کراچی میں ظہور الحسن بھوپالی، جامعہ کراچی کے پروفیسر الطاف حسین اور حیدرآباد میں نواب مظفر  جیسی شخصیات نے  مہاجر  کے حقوق کا نعرہ لگایااور  پھر کچھ  عرصہ میں ہی انہیں یہ احساس ہوگیا کہ اسِ نعرہ کااصل فائدہ سندھ کے قوم پرست اور  نظریہ پاکستان کےدشمنوں کو ہے جو سندھ کے مقامی لوگوں کو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجر  سندھ کی دولت، کاروبار، تعلیم، ثقافت وغیرہ سب پر قبضہ کر رہے ہیں۔ مہاجروں کے انُ قائدین  کو یہ احساس ہو گیا  کہ مہاجروں اور انکی پاکستان میں پیدا ہونے والی نسل کے لئے  یہ نعرہ انکو  بے وطن بنادے گا اور   نیز یہ کہ صرف اور صرف اسِ نعرہ کا سندھی قوم پرستوں اور پاکستان پیپلز پارٹی کو ہو  گا  لحاظہ انِ شخصیات نے مہاجر کے نام پر سیاست چھوڑ کر مرکزی سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کی، مگر کسی سیاسی جماعت نے بھی کوٹہ سسٹم کے خلاف کوئ آواز بلند نہیں کی۔

  اسکے بعد  الطاف حسین  اور جامعہ کراچی کے کئی طلبا نے مہاجر اسٹوڈینٹس کی بنیاد رکھی۔  میں اس چیز کا ذکر بار بار اپنے مضامین نے اسِ لئے کرتا ہوں کہ میں اُس  دور   میں طلبا تنظیموں میں حصہ لیا کرتا تھا اور کوٹہ سسٹم کے خلاف حیدرآباد میں  چلنے والی مقامی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتا تھا۔  اسیِ حوالے سے کئی مرتبہ الطاف حسین اور اس دور کے  جامعہ کراچی کے طلباء  کے ساتھ لمبی لمبی   نششتیں   حیدرآباد میں ہوا کرتی تھیں لحاظہ میں اورمیرے   طالبعلمی  دور کے بہت سے طلباء  الطاف حسین کے خیالات اور منصوبوں کے بارے میں جو کچھ جانتے     ہیں    وہ   80 کی دھائی اور اسکے بعد پیدا ہونے والا نوجوان نہیں جانتا اور نا ہی انکو  تاریخی حقیقتوں کو غیر جانبداری سے بتایا جاتا ہے۔ الطاف حسین کی سیاسی سوچ کا محور  کوٹہ سسٹم کے خاتمہ سے زیادہ کراچی میں  پنجابیوں   اور پٹھانوں کی بڑھتی ہوئ آبادی اور کاروبار میں غلبہ تھا۔ مگر اس وقت  ہمارا مقصد سندھ سے کوٹہ سسٹم کا خاتمہ تھا جس میں ہمارے ساتھ اردو کے ساتھ ساتھ سندھ کے شہری علاقوں میں آباد پنجابی، سرائیکی سمیت دوسری زبانوں کے طلبا بھی تھے۔ ہم مختلف طلبا تنظیموں جس میں جمیعت ، این ایس ایف، پی ایس  ایف وغیرہ شامل تھیں سےنکل کر حیدرآباد کی سطح پر طلبا ایکشن کمیٹی کے تحت کوٹہ سسٹم اور سندھ کے تعلیمی اداروں میں سندھی قوم پرستوں اور انتہا پسندوں کی جانب سے غیر سندھی طلبا کو زد و کوب کرنے کے خلاف تحریک چلا رہے تھے۔لحاظہ الطاف حسین کی سیاسی سوچ کو اسُ وقت حیدرآباد میں طلبا کی حد تک کوئی خاطر خواہ حمایت حاصل نہیں ہو سکی تھی۔آج تقریبا چالیس سال بعد زمینی حقائق یہ ثابت کر رہے کہ الطاف حسین کی پالیسی نے صرف اور صرف اردو بولنے والوں کے مسائل میں اضافہ کیا ہے۔ کیونکہ نا تو الطاف حسین کا فلسفہ یا تحریک کوٹہ سسٹم ختم کر سکی اور نا ہی اردو بولنے والوں کو سیاسی ، معاشی، تعلیمی بلکہ کسی بھی میدان میں کوئ استحکام مل ِ سکا۔ دوسری جانب   آج کی زمینی حقیقت یہ بھی ہے کہ آج سندھ کے قانون نافظ کرنے  والے اداروں سمیت تمام اہم اداروں اور انتظامیہ میں سندھ کی دوسری بڑی آباد ی یعنی اردو بولنے والوں کی تعداد ایسی ہی ہے جیسی آٹے میں نمک۔

مگر کیا اسِ تمام ناانصافیوں اور متعصب نظام سے نمٹنے کا طریقہ کاراور اپنی حالت اپنے طور بدلنے کا طریقہ کار یہ ہی ہے جو  الطاف حسین نے کراچی کے عوام کو دیا ہے؟ یہ آج ایک درد ناک سوال بن گیا ہے؟ اور سب سے زیادہ تکلیف اور ذہنی پریشانی میرے جیسے انُ افراد کو ہے جوچالیس سال سے یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سندھ کے  اردو بولنے والوں کو مہاجر بنا کر رکھنے کا مشن دراصل سندھی قوم پرستوں اور پیپلز پارٹی کا ایجنڈا تھا جو الطاف حسین صاحب بیچتے رہے ہیں۔

آج  کراچی کی عوام کے لئے اور پاکستان کی سلامتی کے لئے لمحہ فکریہ ہے؟

میں  اب مزید اس  ِ بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ الطاف حسین نے کیا کیا اور کیا نہیں کیا، کیا غلط ہے اور کیا صحح، کیونکہ آج کے جدید دور میں ہر ذی شعور آدمی اگر غیر جانب دار ہوکر  زمینوں حقیقتوں کو جذبات کے رنگوں میں بہہ بغیر جائیزہ لے کر دیکھے تو اللہ تعالی  نےاتنی صلاحیت  ہر اردو بولنے والے کو  عطا  کی ہے کہ سمجھ میں آسکتا ہے  کون غلط ہے کون صحح، کون اپنے مفاد اور بقا کی جنگ لڑ رہا  ہے اور کون عوام کو اپنے مفاد اور بقا کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ مگر ایجنڈہ پسِ پردہ  کوئی اور ہو تو پھر یقینا جواب کے پیچھے بھی پسِ پردہ بات کچھ اور ہی ہو گی۔

رات کو پاک فوج کے خلاف بات کرنا اور صبح معافی مانگ لینا اسِ سے کسِ کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے، دنیا کے کسِ  قوم پرست قائد  نے اسِ طرح   کا برتائو کرتا ہے؟

آج کل جو بھی پاکستانی میڈیا پر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے کارکنوں کے بارے میں دکھایا جارہا ہے، اسِ میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا جھوٹ اسِ بحث سے شاید کسی کو کچھ حاصل نہ ہو مگر انِ تمام منظر عام پر آنے والی داستانوں جن میں بالخصوص بھارت کی را ایجنسی سے تعلق سمیت سنگین جرائم  میں ملوث ہونے کے الزامات کے بعد آج ایک سوال تو مجھ سمیت ہر ذی شعور سندھ  کا اردو بولنے والاالطاف حسین  سے ضرور کرنا چاہتا ہے کہ الطاف حسین اور انکی جماعت اپنے کارکن سے کسِ چیز کے بارے میں حلف لیا کرتے تھے، اور یہ کہ حلف یافتہ کارکن کا کیا مطلب ہوتا ہے اور انُ کی  اور دوسروں کی ذمہ داریوں میں کیا فرق ہے؟ کونسا ایسا پاکستان کا مشن ہے جس کے لئے نوجوانوں سے قران پر ہاتھ  کر وعدے لئے گئے تھے؟

آج یہ سوال تو ہر سندھ سے تعلق رکھنے والا  شخص ضرور کریگا اور الطاف حسین کو جواب دینا ہوگا کہ پاکستان کے نام پر ہندوستان   سے ہجرت کرکے آنے والوں کی موجودہ نسلوں کو اگر اپنا مستقبل سنوارنا ہے، تعلیم،  ادب، ہنر ، سائنس ، کاروبار  وغیرہ میں اپنی کھوئ ہوئ شناخت کو  بحال کرنا ہے تو کیا یہ سب اسی طرح سے حاصل ہو سکتا  ہے جس طرح سے الطاف حسین نے لوگوں کو سبق پڑھایاہے؟

کیا الطاف حسین کی تحریک کا مقصد نظریہ پاکستان جس کی بنیاد اردو بولنے والوں نے اپنے خون سے اور بزرگوں کے صدیوں پرانےرشتوں کو خیر آباد کرکے ڈالی تھی الطاف حسین اسکو دفن کرکے کراچی کو مشرقی پاکستان کی طرح علیحدہ ریاست بنانے کا اعلان ایک خاص وقت اور موقع پر اعلان کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں؟

ہر ذی شعور سندھ سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں کو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ الطاف حسین کبھی سندھی ٹوپی اور اجرک پہن کر سندھ میں اجرک کا دنِ مناتے ہیں اور اپنی ٹوٹی پھوٹی سندھی زبان میں اپنے آپ کو سندھ کابیٹا کہتے ہیں اور کبھی کراچی کو الگ صوبہ بنانے کی بات کرتے ہیں، کہیں یہ صرف اور صرف ایک خاص وقت کے انتظار میں وقت گزارنے کا حربہ تو نہیں؟

کبھی فوج اور فوجی ایجنسیوں کو دھمکی اور کبھی فوج کے بارے میں شرمناک باتیں یہ کسِ تحریک اور مقصد حاصل کرنے کا  پیش خیمہ ہیں؟

ہوسکتا ہے انِ سب تلخ سوالوں کے بعد بھی   الطاف حسین  کے بہت سارے  چاہنے والوں کا  یہ ہی  جواب ہو  کہ الطاف حسین کا بتایا ہوا راستہ ہی اردو بولنے والوں جن کو مہاجر کہا جارہا ہے  کے مسائل حل کریگا اور  چین و سکون کی زندگی عطا کریگا۔ کیونکہ ممکن ہے  جو کچھ انُ کو الطاف حسین نے بند کمروں میں حلف لیکر بتایا ہو وہ اپنے ٹیلیفونک تقاریر سے مختلف ہو۔لیکن سوال تو یہ کہ کیا کوئی دنیا کی تحریک اسِ دوہرے معیار کے ساتھ کسی بھی لیڈر یا اسکے پیروکاروں نے چلائی ہے؟

دوسری جانب پاکستان کے سول اور فوجی حکمرانوں کو بھی یہ بات سمجھ لینی چائیےکہ اگر انہوں نے  الطاف حسین کی اشتعال انگزیز سیاست کو  ناکام  بنانا  ہے تو بلا تاخیر کراچی سمیت سندھ کے شہروں علاقوں کی احساسِ محرومی کو ختم کرنا ہوگا۔اور پاکستان کے سب سے با شعور اور محبِ وطن طبقہ  جو کراچی ، حیدرآباد اور سندھ کے شہری علاقوں میں اکثریت میں آباد ہے انکو انصاف، عدل اور انکا بنیادی حق برابری اور مساوات کی بنیاد پر دینا ہوگا۔  کوٹہ سسٹم جیسی لعنت کو فی الفور ختم کرنا ہوگا۔ سندھ کی سرکار میں  چار دھائیوں سےجاری اقربہ پروری، تعصب اورلسانی بندیادوں پر بھرتیوں کو  بند  کرنا ہوگا۔ کراچی شہر کے لئے فوری طور پر ترقیاتی پیکیج کا اعلان کرنا ہوگا۔ کراچی شہر کے انتظامی نظام کو سیاسی بھرتیوں سے پا ک کرنا ہوگا۔ حیدرآباد شہر جو لاواثوں کا شہر بن گیا ہے ، جس کو الطاف حسین نے بھی  صرف اپنے مینڈٹ کے  لئے استعمال کیا ہے اور پیپلز پارٹی نے لسانی کارڈ کے طور پر  کیش کیا ہےپر توجہ دینی  ہوگی۔ حیدرآباد شہر کی عوام کے مسائل بھی ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے ہونگے۔

جس معاشرہ میں بھی ناانصافیوں  اور تفرقوں  کا  نظام  جنم لیتا ہے   وہاں شیخ مجیب الرحمن، جی ایم سید اور الطاف حسین جیسے لوگ  پیدا ہو تے ہیں اور ایسی شخصیات پھر ضمانت بن جاتے ہیںِ ریاست کے عدم  استحکام کا۔

لحاظہ پاکستان کے حکمران اگر کراچی سمیت پورے سندھ میں استحکام چاہتے ہیں تو صرف الطاف حسین یا ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کرنے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ ضرورت اسِ بات کی ہے کہ سندھ میں بلا تفریق تمام ایسے سیاسی اور قوم پرست عناصر جو پاکستانیت کو چھوڑ کر علاقیت، صوبائیت، لسانیت یا فرقہ واریت کا پرچار کر رہے ہیں ان سب پر پابندی  لگائے اور ساتھ ساتھ بالخصوص دو کروڑ کے شہر کراچی کے لئے ہنگامی بنیادوں پر خصوصی پیکیج کا اعلان کرے  ۔نیز یہ کہ سندھ سے کوٹہ سسٹم سمیت تمام بدعنوان  نظام کے خاتمہ کا اعلان  کیا جائے۔

Recommended For You

About the Author: Tribune