مرسوں مرسوں سندھ نا دیسوںٗ کا منظر نامہ

بقلم سید عتیق الحسن

پاکستان  پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے نومولود چئیر مین بلاول زرداری بھٹو نے آج کل ایک سندھی قومیت پر نظم کا مصرعہ ْمرسوں مرسوں سندھ نا دیسوںٗ سیکھ لیا ہے یا پھر ہوسکتا ہے ان کے لئے کوئی انکے ٹیوٹر پر بار بار چسپاں کر دیتا ہو۔ اس مصرعہ کے اردو میں معنی 

سندھ کے اصل قدیم باشندے جو آج بھی ہرچیز سے محروم ہیں

ہیں، مر جائیں گے مگر سندھ نہیں دینگے۔ اب سندھ کسِ کو دینا ہے اور کسِ نے لینا ہے یہ تو ایک سیاسی بحث ہے مگر میری ایک پُر خلوص تجویز بلاول زرداری کے لئے یہ ہے  کہ بیٹا   ’مرسوں مرسوں سندھ نا دیسوں‘  کے  پہلے تو تم کو  معنی اور اس کا  پس منظر سمجھنا چائیے جس کے لئے تمھیں  سندھی زبان سیکھنی چائیے؛ پھر اپنی توانائی ضائع ہونے سے بچنے کے لئے اردو  سیکھنی چائیے، پھر  اپنے خاندان کے بارے میں جاننے کے لئے اپنی نانی  کے خاندان کی زبان  فارسی  کا مطالعہ کرنا چایئے، اور اپنے دادا حاکم علی زرداری کی زبان بلوچی سیکھنی چائیے، اور پھر کچھ سال پاکستان میں لگانے چائیے کیونکہ تمھاری زیادہ پرورش دوبئی اور لندن میں ہوئی ہے تاکہ پاکستان کی سیاست کے دائو پیچ سیکھ لو؛ بارحال کچھ  مختصراً  منظر نامہ  پیشِ خدمت ہے۔

سندھ دھرتی کے لئے جان دینے کا دعوی کرنے والوں  اور ’مرسوں مرسوں سندھ نا دیسوں‘  کا نعرہ لگانے والوں کے  دو سیاسی فرقے ہیں، ایک پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سندھی  قوم پرست اور دوسرےغلام مرتضی سید (مرحوم ) جو  جی ایم سید کے نام سے جانے  جاتے ہیں، کے نقش قدم پر چلنے والے وہ سندھی   سیاستدان ہیں جنہوں نے جی ایم سید کے بعد جئے سندھ  کا نعرہ لگا کر جی ایم سید کی سندھ  عوامی محاذ  سے کی کوک سے کئی جماعتوں کو جنم دیا اور سندھ کی آزادی یا حقوق کے نام پر اپنی اپنی سیاسی اور شخصی دکان چمکا رہے ہیں۔ سندھ کے یہ قوم پرست باقاعدگی سے اندورنِ سندھ کے تعلیمی اداروں میں ہر سال  یوم پاکستان اور آزادیِ پاکستان کے موقعوں پر پاکستان کا جھنڈا جلاتے ہیں، پاک فوج کو برا بھلا کہتے ہیں، اورہر سال  بین الاوقوامی سندھی کانفرنس میں سندھ کو آزاد کرنے کی تحریک کی قسمیں پچھلے  سالوں سے  کھا رہے ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو میرے اسِ مضمون کو پورا کرنے کے لئے میں نے سنی سانئی باتوں کو قلم بند نہیں کیا ہے بلکہ حیدرآباد سندھ میں ہوش سنبھالنے سے جوانی تک  دیکھا ہے۔ پھر کسی ایک کو  لیجئے؛کسِ کو نہیں معلوم کہ موجودہ قومی عوامی تحریک کے کرتادھرتا ایاز پلیجو کے والد محترم رسول بخش پلیجو پاکستان اور اردو بولنے کے متعلق کتنی کچھ خرافات ریکارڈ کرا چکے ہیں۔دلِ میں کفر اور مکاری ہو تو پھر اسلام کی تبلیغ کیسے کی جاسکتی ہے۔

 یہ حقیقت ہے کہ جی ایم  سید   ، رسول بخش پلیجو  ،  ذوالفقار علی بھٹو  سے لیکر کسی بھی سندھ کے بڑے سیاسی لیڈر اور وڈیرے کو  لے لیجئے ان سب کے باپ دادا کسی نہ کسی وقت میں سندھ میں آکر آباد ہوئے ہیں، کوئی پنجاب سے، کوئی بلوچستان سے، کوئی سرحد، کوئی ترکی سے، کوئی عرب سے تو کوئی افغانستان اور ایران سے آکر سندھ میں آباد ہوئے تھے۔ اگرمیں  انِ سب’ مرسوں مرسوں سندھ نا دیسوں‘ کے نعرہ لگانے والوں کے خاندانوں کا  شجرہ بیان کروں تو ایک کتاب شائع  ہو سکتی ہے۔ بار حال اگر تاریخ کے پننوں کا مطالعہ کریں تو سندھ کے اصل یا قدیم باشندے جو ہزاروں سال سےسندھ میں  آباد تھے وہ  ہندو قومیں  ہیں  جنہیں یہ سندھ کے قوم پرست کوہلی یا بھیل کہتے ہیں سندھی نہیں کہتے۔یہ بالکل اسی طرح سے ہے جیسے  آسٹریلیا میں یہاں کے اصل اور قدیم باشندوں کو  ابارجینیز  کہا جاتا  ہے اور  جس طرح سےامریکہ میں وہاں کی زمین کے  اصل وارثوں کو  ریڈ انڈین کہا جاتا ہے۔  سندھ سے پیا ر جتانے والے سیاستدانوں  کے سیاسی سفر کا جائزہ لیں تو   حقیقت سامنے آتی  ہے  کہ اِنہوں نے  سندھیوں  اور  سندھ حقوق کے نام پر صرف اپنی سیاست چکائی اور اسکو اقتدار حاصل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھا ہے۔

دوسرے طبقہ ہے سندھ کی وہ قوم پرست جماعتیں اور ان کے قائدین جو یا تو نظریہ پاکستان پر  یقین ہی نہیں رکھتے یا پھر اس میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ رسول بخش پلیجو جیسے لیڈران جو اردو بولنے والوں کو پناہ گیر ،چور اور ڈاکوکہہ کر مخاطب کرتےرہے  ہیں اور نفرتیں پھیلاتے رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی وجہ سے ان کو سیاسی میدان نہیں مل سکا اور ان کی اپنا کوئی سیاسی بینک سندھ کے کسی  علاقے میں قائم نہیں ہو سکا۔

ذوالفقار علی بھٹونے اپنی سیاست کا آغاز ایک فوجی آمرجنرل  ایوب خان کی فوجی حکومت میں وزارت لیکر کیا، ایوب خان جو خود پٹھان تھے انُ کو موصوف ڈیڈی کہتے تھے۔جب ایوب خان کو چھوڑ کر بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی بنائی تو ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ سندھ کے بڑے بڑے وڈیرے اور سیاسی قائدین پییلز پارٹی میں شامل ہوگئے بعشمول ذوالفقار علی بھٹو کے چچا زاد بھائی ممتاز علی بھٹو کے ۔ممتاز علی بھٹو کو پہلے سندھ کا گورنر اور پھر وزیر اعلی بنایا۔ مگر جب ذوالفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد خان کے قتل کے کیس میں ضیا الحق کے دور میں پھانسی دی گئی  اورپھر جب پاکستان  پیپلز پارٹی کے لیڈران پر ضیاالحق نے گھیرا تنگ کیا تو  بجائے اس کے کہ یہ ضیاالحق اور اسکی فوجی حکومت کے خلاف آخر دم تک تحریک چلاتے ان میں سے کئی تو ملک سے فرار ہوگئے، کچھ روپوش ہوگئے اور کچھ ضیارالحق کی حکومت میں شامل ہوگئے۔ اگر تھوڑی بہت ذوالفقارعلی بھٹو کے لئے تحریک چلائی  گئی تو وہ پی پی پی کے عام کارکن  اور جیالے تھے جنہوں نے لمبی لمبی  جیلیں  کاٹیں۔ ممتاز علی بھٹو نے سندھ نیشنل فرنٹ کے نام سے  پنجاب کے خلاف  ایک نئی جماعت بنائی اور سندھ اور بلوچستان کے عوام کو پنجاب کے خلاف اور پاک فوج کے خلاف کھڑا کرنے کی بھرپور مہم چلائی۔ اور آج موصوف نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شامل ہیں۔

غلام مصطفی جتوئی جس کو ذوالفقار علی بھٹو نے سندھ کا وزیر اعلی بنایا اور جس کےزمانے میں سندھی زبان کا لسانی بل سے لیکر دھی اور شہری کوٹہ سسٹم سندھ میں نافظ کیا گیا۔ سندھ میں اردو اور سندھی کا نام لیکر سندھ کے عام لوگوں کو تقسیم کیا گیا   اور  سندھی عوام سے ہمدردی کے نام پر اپنے اقتدار کو جاری و ساری رکھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد پاکستان میں مومنٹ فار ڈیموکرسی(ایم آر ڈی)  کی تحریک شروع کی گئی جس کے دوران  غلام مصطفی جتوئی کے بیٹے نے نواب شاہ میں ایک فوجی گاڑی پر فارئرنگ کی جس کے نیتجے میں کئی فوجی  شہید ہوگئے۔ غلام مصطفی جتوئی نے اپنے بیٹے کو چھڑانے کے لئے ضیاالحق سے ڈیل کی۔ اپنی الگ سیاسی جماعت نیشنل  پیپلز پارٹی بنائی اور پیپلز پارٹی کے بہت سے جیالے جتوئی کی پارٹی میں شامل ہوگئے۔ یہ ہیں سندھ دھرتی اور پاکستان سے پیار کرنے والوں کے سیاسی کارنامے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ میں اب بھی ایسی کئی سندھی  سیاسی شخصیات ہیں جنہوں نے عملی طور پر سندھ میں تمام طبقوں اور زبانیں بولنے والوں کے درمیان بھائی چارہ قائم رکھنے کے لئے بڑے پرخلوص ہو کر کام کرنے کی کوششیں کیں مگر انکو انِ مفاد پرست وڈیروں نے آگے نہیں آنے دیا کبھی مرسوں مرسوں سندھ نا دیسوں، جئے سندھ صدا جئے،  جیسے نعرے لگا کر  اور کبھی سندھ کے حقوق کا نعرہ لگا کر ۔ سندھ کے دھی علاقوں میں جہاں کم پڑھے لکھے محنتی کسان اور ہاری  آباد ہیں اور جن کو یہ اپنا غلام سمجھتے ہیں اور انکا مستقل استحصال   کبھی  قرضے دینے کی صورت میں، انکے بچے بچیوں کی شادیوں کا خرچ اٹھانے کے لالچ میں ، یا پھر انکے بچوں کو شہروں میں نوکریاں دلانے کے لالچ میں کر رہے ہیں۔ انتخابات کے دوران ان کو گاڑیوں میں بھر کر لایا جاتا ہے اور اپنی  مرضی کے مطابق ان سے بیلٹ پیپرز پر ٹھپکے لگوائے جاتے ہیں، جس کی بنیادپر عوامی نمائندے بن کر اسمبلیوں میں جاکر اپنی پسند کے قوانین بنائے جاتے ہیں۔ بقول پاکستان پیپلز پارٹی  کے سندھ کے لیڈران کے کہ کوٹہ سسٹم اس لئے نافظ کیا گیا تاکہ سندھ کے  دہی علاقوں کے حالات اور وہاں کے لوگوں کا معیارِ زندگی بہتر بنایا جا سکے، مگر حقیقت یہ ہے کہ کوٹہ سسٹم کے ذریعہ دھی علاقوں کی ترقی کےنام پر  زیادہ بجٹ مختص اسِ لئے کیا جاتا ہے تاکہ یہ وڈیرے اس پیسہ  سے اپنے مذموم مقاصد پورے کر سکیں۔

دراصل سندھ کا سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو رہا ہے۔ پچھلے ساٹھ سالوں میں سندھ کی آبادی خصوصیات یکسر تبدیل ہوچکی ہے۔ پچھلے تقریبا پندرہ سالوں سے پاکستان میں مردم شماری نہیں گی گئی بشمول صوبہ سندھ کے۔کراچی میں اردو اور سندھی بولنے والوں کے علاوہ ایک بڑا طبقہ پشتو اور پنجابی بولنے والوں کا آباد ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں اردو بولنے والے جو سندھ میں پیدا ہوئے ہیں 60 فیصد سے زیادہ آباد ہیں۔ یہ تمام طبقات سندھ کے بڑے بڑے وڈیروں کے کنٹرول میں نہیں ہے جس سے سب سے بڑا خطرہ سندھ کے وڈیرے خاندانوں کو ہے جو کہ اپنے جاگیرداری نظام کی وجہ سے سندھ کے اقتدار کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ سندھ کی دہی اور شہری تقسیم سندھ کے وڈیروں کے فائدہے میں ہے ۔ سندھ کے سیاسی منظر نامہ کا ایک رخُ تو یہ ہے کہ الطاف حسین یا ایم کیو ایم  سندھ میں بل واسطہ یا بلا واسطہ علیحدہ صوبے کا مطالبہ کررہے ہیں کیونکہ وہ اپنے آپ کو اردو بولنے والوں کی واحد نمائندہ جماعت ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور اردو بولنے والوں کا یہ مطالیہ مانتے ہیں مگر دوسرا  رخُ یہ ہےکہ سندھ کی تقسیم سندھ کے بڑے وڈیروں کے مفاد میں ہے کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو سندھ کی نئی نسل چاہے ان کا تعلق کسی زبان سے کیون نا ہو وہ ایک نا ایک دنِ جاگیری نظام کے خلاف کھڑے ہوجائے ہیں۔ لحاظہ  ْمرسوں مرسوں سندھ نا دیسوں ٗ  درحقیقت سندھ کے وڈیروں کا ہے جو یہ کہ رہے ہیں کہ مر جائیں گے لیکن سندھ کو سندھ کے عام آدمی کے حوالے نہیں کریں گے۔

لحاظہ سندھ کے سیاسی پس منظر میں مرسوں مرسوں سندھ نا دیسوں یہ اسِ وقت ایک ایسا نعرہ ہے جو سندھ کی تمام سیاسی قوتوں کے مفاد میں ہے۔ 

Recommended For You

About the Author: Tribune

Comments are closed.