فت و ملوکیت اور شہادتِ حسین

سمیع اللہ ملکTwo million pilgrims mass in Karbala for Ashura 
سانحہ ¿ کربلا اور شہادت حسین تاریخ اسلامی کے اہم ترین واقعات میں سے ہے۔ صدر اول میں رونما ہونے والے اس سانحے کو اس کے صحیح تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ سیدنا امام حسین ابن علی رضی اللہ عنہما کا موقف اس لحاظ سے مبنی برحق تھا کہ انہوں نے ملوکیت کا راستہ روکنے اور احیائے خلافت کے لیے آواز بلند کی تھی۔ اسلام کو اس کی صحیح روح کے ساتھ سمجھا جائے تو اس امر میں ذرّہ برابر شک نہیں رہ جاتا کہ اسلام نے انسانیت کو ملوکیت کے بجائے خلافت کا نظام عطا کیا۔ اسلام کی روح آمرانہ فیصلوں کے مقابلے میں مشاورت کا نہ صرف تقاضا کرتی ہے بلکہ اسے اہلِ اسلام اور اسلامی ریاست کا بنیادی تشخص قرار دیتی ہے۔ نبی مہربان نے صحابہ کرامؓ کی تربیت اس انداز سے کی تھی کہ آمریت و ملوکیت کا کوئی تصور بھی ان کے ذہن میں نہیں آسکتا تھا۔ کئی لوگوں کے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ امام حسینؓ نے حکومت کے خلاف کیوں اتنا بڑا اقدام کیا جس کے نتیجے میں ان کو اپنی اور اپنے خاندان و اعیان کی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا۔ اس کا جواب معلوم کرنے کے لیے اسلام کے نظامِ خلافت کی روح اور طریق کار کو سمجھنا ضروری ہے۔

خلافت علیٰ منہاج النبوت
محمد مصطفےٰ تو اللہ کے نبی تھے۔ نبی انسانوں کا مقرر کردہ نہیں ہوتا، اسے اللہ تعالیٰ خود اس مقام پر فائز فرماتا ہے۔ آپ نے واضح طور پر فرما دیا تھا کہ آپ پر سلسلہ ¿ انبیا مکمل ہوچکا ہے، اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔ آپ کے ارشاد کے مطابق دورِ نبوت کے بعد خلافت علیٰ منہاج النبوت کا دور تھا۔ خلیفہ کا تقرر اس کی اہلیت، صلاحیت، صالحیت، علم اور تقویٰ کی بنیاد پر امت کو کرنا ہوتا ہے۔ آپ نے صحابہ کرامؓ کے جو مناقب بیان کیے، ان سے واضح طور پر یہ اشارہ تو ملتا تھا کہ جماعتِ صحابہ میں سب سے بلند تر مقام سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا ہے مگر آپ نے ایک خاص حکمت کے تحت واضح الفاظ میں اپنے بعد انہیں اپنا جانشین مقرر نہیں کیا تھا۔ وہ حکمت یہی تھی کہ آپ کی امت کے ذمے انتخاب خلیفہ کا جو عظیم کام ہے وہ باہمی مشاورت سے انجام پائے۔ چوںکہ آپ کے کئی اشارات سے صحابہؓ سمجھتے تھے کہ سیدنا ابو بکر صدیقؓ کے بارے میں آپ کی کیا سوچ تھی۔ اسی وجہ سے جماعتِ صحابہ میں بالاتفاق یہ رائے تھی کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ تمام اصحابِ رسول میں سے افضل ہیں۔ انہیں افضل البشر بعد الانبیاءکا شرف جو حاصل ہے، تو یہ حدیث پاک سے ثابت ہے۔    
آنحضور کے وصال کے بعد آپ کے جانشین کا تقرر ایک اہم اور فوری نوعیت کا مسئلہ تھا۔ اسی وجہ سے صحابہؓ نے کسی تاخیر کے بغیر فوری طور پر اس کو حل کرنے کی طرف توجہ دی۔ قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں صحابہؓ نے مشاورت سے آپ کے جانشین کا فیصلہ کیا اور پوری جماعتِ صحابہ کا اس پر اجماع ہوگیا کہ سیدنا ابوبکرؓ کے ہاتھ پر بیعت کی جائے۔ آپؓ کا تعلق نسبتاً ایک چھوٹے قبیلے بنو تیم سے تھا مگر بڑے قبائل سے تعلق رکھنے والے تمام صحابہؓ نے بالاتفاق آپؓ کی خلافت کو قبول کرتے ہوئے آپؓ کی بیعت کی۔ پھر عامة الناس نے بھی ان کبار صحابہؓ کی تقلید کی۔ تمام مستند تواریخ میں یہ واقعہ محفوظ ہے۔ امام ابن کثیر نے البدایة والنھایة میں اس واقعے کی پوری تفصیل محفوظ کر دی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے مذکورہ کتاب کی جلد

۵ ،صفحہ ۸۴۲۔

خلیفہ ¿ اول کی مشاورت
سیدنا ابوبکر صدیقؓ تقریباً اڑھائی سال خلافت کی ذمہ داری کو بطریقِ احسن نبھانے کے بعد جب دنیا سے رخصت ہونے لگے تو مرض الموت میں انہوں نے اہلِ شوریٰ کو طلب کیا۔ خلیفہ ¿ راشد نے ان لوگوں کے سامنے اپنے جانشین کے لیے نام تجویز کرنے کی بات رکھی۔ شوریٰ کے یہ سب ارکان بلند مرتبت صحابہؓ تھے۔ ان میں سیدنا عبد الرحمان بن عوف، سیدنا عمر بن خطاب، سیدنا عثمان بن عفان، سیدنا علی بن ابی طالب، سیدنا سعید بن زید، سیدنا اسید بن حضیر اور سیدنا ابو الاعور رضی اللہ عنہم کے نام آتے ہیں۔ اول الذکر پانچ صحابہ تو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور ان کا تعلق مہاجرین سے ہے جب کہ آخری دو صحابہ انصار میں سے ہیں اور ان کی بھی بڑی فضیلت آنحضور کی زبان سے بیان کی گئی ہے۔ عشرہ مبشرہ میں سے بعض دیگر صحابہ اس وقت مختلف مہمات پر ہونے کی وجہ سے مدینہ منورہ میں موجود نہیں تھے۔    
بعض روایات میں آتا ہے کہ اہل مشاورت نے سیدنا ابوبکرؓ سے پوچھا کہ ان کے ذہن میں کس کا نام ہے تو آپؓ نے سیدنا عمرؓ کا نام بتایا۔ ایک روایت کے مطابق آپؓ نے ایک تحریر بھی لکھوائی تھی، جس کے کاتب سیدنا عثمان بن عفانؓ تھے اور اس میں بھی سیدنا عمرؓ ہی کا نام تجویز کیا تھا۔ امام طبری نے اپنی مشہور کتاب تاریخ الامم والملوک میں لکھا ہے کہ تمام صحابہ نے نہ صرف اس تجویز سے اتفاق کیا بلکہ سیدنا علی بن ابی طالبؓ نے تو واضح الفاظ میں کہا کہ امت عمر بن خطابؓ کے سوا کسی اور شخص پر متفق نہیں ہوگی۔ یہ واقعہ امام ابن اثیر نے بھی لکھا ہے۔ (دیکھیے الکامل فی التاریخ ج۴، ص ۲۵-۱۵، اسد الغابة ج ۴، ص ۰۷۔) یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سیدنا ابو بکرؓ سے کہا گیا کہ عمر بن خطابؓ کی طبیعت اور مزاج میں قدرے سختی ہے تو آپؓ نے فرمایا کہ اس پر ذمہ داری کا بوجھ پڑے گا تو سختی نرمی میں بدل جائے گی اور یہ بات بالکل درست ثابت ہوئی۔
خلیفہ ¿ دوم کی مقررکردہ کمیٹی
سیدنا عمرؓ قبیلہ بنو عدی کے فرد تھے۔ انہیں ان کی اہلیت و صلاحیت کی بنیاد پر خلیفہ ¿ اول، ان کی مجلس شوریٰ اور پھر پوری امت نے بطور خلیفہ ¿ ثانی منتخب کیا۔ سیدنا عمرؓ اپنے دس سالہ دورِ خلافت میں نہایت قابلِ قدر کارنامے سرانجام دینے کے بعد ایک بدبخت پارسی ابو لولو فیروز کے قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوئے۔ انہیں اپنی شہادت بالکل سامنے نظر آئی تو انہوں نے مستقبل کے خلیفہ کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک چھے رکنی کمیٹی مقرر کی۔ یہ سب ارکان عشرہ مبشرہ میں سے تھے۔ ان میں سیدنا عبد الرحمان بن عوف، سیدنا سعد بن ابی وقاص، سیدنا عثمان بن عفان، سیدنا علی بن ابی طالب، سیدنا طلحہ بن عبید اللہ اور سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہم کے اسمائے گرامی ملتے ہیں۔ جب خلیفہ ¿ دوم کے سامنے یہ تجویز پیش کی گئی کہ اپنے بیٹے عبد اللہؓ کو بھی اس کمیٹی کا رکن بنا دیں تو انہوں نے صراحت کے ساتھ فرمایا کہ وہ اس کا اہل نہیں ہے۔ اسد الغابہ میں ہے: لیشھدکم عبد اللہ بن عمر ولیس لہ من الامر شی     ¿ µ    ۔ (عبداللہ بن عمر تمہارے ساتھ تو رہے گا مگر اس کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہ ہوگا    )
شوریٰ نے اس اہم موضوع پر اپنے اجلاس میں بحث و تمحیص کے بعد طے کیا کہ عبد الرحمان بن عوفؓ عوام الناس سے استصواب کرائیں اور پھر مجلس میں اپنی رپورٹ پیش کریں۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ مجلس میں سیدنا عثمانؓ اور سیدنا علیؓ دونوں کے بارے میں آرا برابر تھیں۔ اسی لیے عوام کے سامنے کوئی نام تجویز کرنے سے پہلے ان کی طرف رجوع ضروری سمجھا گیا۔ سیدنا عبد الرحمان بن عوفؓ نے تین دن رات انتہائی محنت و مشقت سے اس اہم اور نازک ترین ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کا حق ادا کیا۔ جن جن لوگوں تک وہ پہنچ سکتے تھے، ان کی رائے انہوں نے معلوم کی۔ گھروں میں بیٹھی پردہ نشین خواتین سے بھی رائے لی گئی۔ چراگاہوں میں جانوروں کی دیکھ بھال کرنے والے چرواہوں اور مدینہ کے آس پاس خیمہ زن مسافروں سے بھی ان کی رائے پوچھی گئی۔ تیسرے دن کے اختتام پر سیدنا عبد الرحمن ابن عوفؓ مجلس کے پاس آئے اور ان سب کی موجودگی میں مسجد نبوی کے اندر اعلان فرمایا کہ امت کی اکثریت نے عثمان بن عفانؓ کو یہ ذمہ داری اٹھانے کا مکلف بنایا ہے۔ یہ اعلان ہوتے ہی تمام لوگوں نے سیدنا عثمانؓ کے ہاتھ پر بیعت کی، حتیٰ کہ ہجوم کی وجہ سے ان تک پہنچنا بھی خاصا دشوار ہوگیا تھا۔ (تفصیلات کے لیے دیکھیے اسد الغابة ج۴، ص ۵۷، البدایة والنھایة، ج۷، ص ۶۴۱-

    ۵۴۱     )

شہادتِ عثمان اور مابعد
سیدنا عثمانؓ نے تقریباً بارہ سال خلافت کی۔ ان کی خلافت کے آخری دور میں کچھ فتنے سراٹھانے لگے۔ انہی فتنوں کے نتیجے میں وہ فساد رونما ہوا جس میں آپ کو مدینہ کے اندر شہید کر دیا گیا۔ خلیفہ ¿ سوم کی مظلومانہ شہادت کے بعد امت مسلمہ پر ایک بہت ہی مشکل اور کڑا وقت آگیا۔ صحابہ کرامؓ اس صورتِ حال سے سخت پریشان تھے۔ اس موقع پر مدینہ کے سب لوگوں نے سیدنا علی بن ابی طالبؓ سے درخواست کی کہ وہی اس نازک گھڑی میں امت کی قیادت کا فریضہ ادا کرسکتے ہیں۔ امام طبری کے بقول سیدنا علیؓ نے فرمایا کہ کسی دوسرے پر یہ ذمہ داری ڈالو، میں وزیر و مشیر کے طور پر خدمات سرانجام دیتا رہوں گا مگر لوگ کسی اور کے بارے میں سوچنے پر بھی تیار نہ تھے۔ شدید اصرار پر انہوں نے فرمایا کہ خلافت پوری امت کی امانت ہے۔ یہ خفیہ طریقے سے اور چند لوگوں کے درمیان طے نہیں پاسکتی۔ اس پر لوگوں نے انہیں کہا کہ وہ مسجد میں تشریف لائیں اور خود اپنی آنکھوں سے پورا منظر دیکھ لیں۔ جب وہ مسجد میں تشریف لائے تو جم غفیر والہانہ ان کی طرف لپکا اور سب نے بلا اختلاف و استثنا ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔

قیل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

Recommended For You

About the Author: Tribune