عمران خان صاحب !دعا ہے میری کمزور سطریں آپ کے نیک ارادوں کومزید تقویت دیں گی

میں اسے آپ کے نام خط کہوں، مراسلہ کہوں یا ایک درخواست   مگر میرے روتے ہوئے دلِ کی آواز آنکھوں میں  آنسو بن کر بہہ رہی ہے جب میں یہ تحریریں قلم بند کر رہا ہوں۔ اپنی نو

سید عتیق الحسن

عمری سے آج تک قلم کو اپنی آواز بنانے کی صلاحیت اللہ تعالی نے مجھے بخشی  ہے۔میں نے پچھلے چالیس  برسوں  میں سینکڑوں   سماجی، معاشرتی، سیاسی،  فلاحی  اور قومی مسائل  پر  اپنے خیالات اور تجزیے قلم بند کئے ہیں۔ میں نے  سب سے زیادہ اپنی نو عمری سے ہی پاکستان میں جاری ناانصافیوں، بدعنوانیوں، زیادتیوں ، مذہب اور  فرقہ واریت کے نام  پرپاکستانیوں  کی تقسیم اور  لسانی  بنیاد پر جاری  تعصبی  نظام  پر اپنے مشاہدے، تجربے اور معلومات کی روشنی میں داستانیں قلم بند کی ہیں۔ اسِ کی وجہ میری رگوں میں دوڑنے والا وہ خون ہے جو مجھے میرے ماں باپ اور خاندان سے ورثہ میں ملا ہے، جنہوں نے پاکستا ن بننے سے پہلے پاکستان کی تحریک میں ہندوستان میں  ہندوئوں کے درمیان رہتے ہوئے پاکستان کا نعرہ لگایا پھر قائد اعظم محمد علی جناح کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے پاکستان کے لئے خاندان کے بہت سے افراد کی قربانیاں دیکر، اپنی صدیوں پرانی ثقافت، روایات، رشتہ داریاں، تعلقات ، گھرباراور اثاثے چھوڑ کر ایک انجانی زمین  کی طرف کوچ کیا جس کے متعلق  وہ لوگ صرف یہ جانتے تھے کہ اسُ سر زمیں میں جا رہے ہیں جس کا نام  پاکستان ہے، یعنی پاک زمین، جس  کے لئے انہوں نے قربانیاں دیں  اور پاکستان کا  خواب دیکھا  ۔ ایسا پاکستان جس میں عوام کو  مذہبی آزادی ہوگی، نظریہ پاکستان کو اسلام  کےذریں اصولوں کی بنیاد پر  نافظ کیا جائے گا  اور   پاکستان  عالم ِاسلام کا قلعہ ہوگا۔  میرا  خاندان   اور جیسا سنا ہے کہ  آپ کی والدہ کا خاندان بھی اُن لاکھوں مہاجرین میں شامل تھا جنہوں نے ہندوستان سے پاکستان  ہجرت کی۔  انُ مہاجرین نے کسی صوبے یا شہر کی جانب ہجرت نہیں کی تھی بلکہ پاکستان کی جانب ہجرت کی تھی ، لاکھوں مہاجرین کو تو یہ بھی  معلوم  نہیں تھا کہ جس پاکستان میں وہ ہجرت کرکے جارہے ہیں وہاں کون لوگ بستے ہیں،  وہاں کا معاشرہ کیسا ہے، لوگوں  کا رہن سہن کیسا ہے، انکی زبان کیاہے، ثقافت کیا ہے  اور رسم و رواج کیا  ہیں  وغیرہ وغیر  بس پتہ تھا تو صرف یہ کہ وہ مسلمان ملک میں اپنے مسلمان بھائی بہنوں کے پاس جارہے ہیں  جہاں وہ آزادی کے ساتھ  نظریہ پاکستان کی روشنی میں ایک آزاد اسلامی ریاست کے شہری کہلائیں گے۔ جن کے لئے مشرقی پاکستان کی طرف ہجرت کرنا ممکن تھا وہ مشرقی پاکستان ہجرت کر گئے اور جن کے لئے مغربی پاکستان ہجرت کرنا ممکن تھا وہ مغربی پاکستان ہجرت کرکے ہمیشہ کے لئے پاکستان  کے شہری بن گئے ۔

  لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں   ، مستقل جدوجہد اور بے مثال  تحریک  سے  چودہ اگست ۱۹۴۷ کو پاکستان ،    مغربی اور مشرقی پاکستان کی شکل میں اس دنیا کے نقشہ پر مارضِ وجود میں  آگیا ۔  پاکستان کے مسلمانوں نے سکُھ کا سانس لیا۔ دنِ رات کی محنت اور لگن کے ساتھ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے دئیے گئے  ذریں اصولوں پر ایک نئی زندگی بحیثیت پاکستانی  آزاد مملکت میں بسر کرنی شروع کردی۔ میرا خاندان حیدرآباد سندھ میں ہجرت کرکے مستقل آباد ہو گیا۔ مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر شانہ بشانہ محنت اور لگن سے شہر آباد کیا۔ اور یہی تاریخ  کراچی سمیت مغربی اور مشرقی پاکستان کے ہر علاقے کی تھی ۔ پاکستان تیزی سے اپنی منزل کی طرف گامزن تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح  نظریہ  اور قرار دادِ مقاصدِ پاکستان  کے تحت  پاکستانیوں کو پاکستان کی سمت  متعین کرکے ایک سال میں ہی رضا الہی سے اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ اسکے بعد بانی پاکستان  قائد اعظم کے دائیں بازو اور پہلے وزیر اعظم  خان لیاقت علی خان کو ایک سازش  کے ذریعہ  سی آئی اے نے کرائے  کے قاتلوں کے ذریعہ  شہید کردیا گیا کیونکہ انہوں نے امریکہ کی غلامی قبول نہیں کی اور کہا کہ ہم امریکہ کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات قائم رکھنا چاہتے ہیں ، روس اور یورپ کے ساتھ بھی ایسے ہی تعلقات چاہتے ہیں۔ قائد ملت لیاقت علی خان شہیدکے بعد پاکستان یتیم ہو گیا۔ جو بانی پاکستان کے ساتھی قائدین تھے انہوں نے جمہوریت نافظ کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان کی نو مولود اسمبلی میں مشرقی پاکستان کے ارکان کی تعداد  مغربی پاکستان کے ارکان  سے زیادہ تھی۔اسی لئے لیاقت علی خان شہید کے بعد زیادہ تر جو وزیر اعظم بنے ان کا تعلق یا تو مشرقی پاکستان سےتھا یا پھر مہاجرین میں سے تھا۔ مشرقی پاکستان کے قائدین کی اپنی عوام کے لئے کچھ مانگیں تھی جن کو پورا نہیں کیا جارہا تھا ،     آئے دنِ اسمبلی میں طوفان برپا ہوتا تھا اور وزیر اعظم پر عد م اعتماد لایا جاتا   اور نیا وزیر اعظم    منتخب ہوتا تھا مگر  جمہوری نظام اپنے پیروں پر کھڑا ہو رہا تھا جو ایک دنِ شفافیت سے مضبوط ہونا تھا۔ مگر ایسا نہیں ہو سکا ۔ عمران خان صاحب آپ پاکستان کی اقتدار کی تاریخ   مجھ سے زیادہ جانتے ہیں  لحاظہ میں ہر بدلتے ہوئے سیاسی حالات کے پس منظر میں نہیں جائوں گا۔ مگر حقیقت یہ ہے پاکستان  کے اقتدار اور جمہوری نظام پر  ۱۹۵۸ میں  ایک فوجی جرنیل ایوب خان نے قبضہ کر لیا  اور یہ قبضہ آج تک قبائلی سرداروں، وڈیروں، چودھریوں، بدعنوان افسروں کی شراکت سے جاری ہے۔

عمران خان صاحب ۱۹۵۸ سے لیکر آج تک صرف آپ وہ واحد سیاستدان ہیں جو فوجیوں کی نرسری سے نہیں آئے ورنہ ہر سیاستدان کو فوجی جرنیلوں نے پیدا کیا۔ پاکستان کوفوجیوں نے بل واسطہ یا  بلا واسطہ  اپنے تیار کردہ سیاسی پنڈتوں  کے ذریعہ پاکستان کو چلایا۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے،  عوامی لیگ ۱۹۷۰ کے عام انتخابات میں   تین سو کے ایوان میں ۱۴۰ نسشتوں والی  تھی جس کے قائد  مجیب الرحمن  کو  اس  وقت کے مار شل لا ایڈمنسٹریڑ  جنرل  یححی خان نے اقتدار منتقل نہیں کیا  بلکہ ایک اور سابقہ فوجی آمر جنرل ایوب خان  کی نرسی میں پیدا ہونے والے  سیاسی پنڈت  ذوالفقار علی بھٹو  جس کی۸۱ نشستیں رکھنے والی نئی نویلی پاکستان پیپلز پارٹی  کو اقتدار  سونپ دیا گیا۔ مشرقی پاکستان الگ ہو گیا مغربی پاکستان کی عوام تماشا دیکھتی رہ گئی۔  ہونا تو یہ چائیے تھا کہ ملک میں دوبارہ نئے انتخابات کرائے جاتے کیونکہ پاکستان کا ایک حصہ (مشرقی پاکستان) الگ ہو چکا تھا جن کی پارلیمان میں زیادہ اکثریت تھی مگر ایسا نہیں کیا گیا  اور مغربی پاکستان کے بچے کچے پارلیمان کو اقتداد سونپ دیا گیا اور ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان کا وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ میرے مطابق وہ پارلیمان غیر آئینی تھا اور اسکے تحت بنائے جانے والا ۱۹۷۳ کا آئین بھی غیر آئینی تھا جو آج بھی قائم  ہے۔اس کے بعد پاکستان کے ساتھ جو ہوا آپ اپنی تقاریر میں بیان کرتے رہتے  ہیں۔ اسِ وقت پاکستان میں نہ  حقیقی عدل و انصاف ہے نہ ہی حقیقی قانون نافظ کرنے والے ادارے، ملک میں ایک لوٹ مار کا سلسلہ ہے۔ فوج نےپاکستان کے اقتدار میں اپنا اثر و اسوخ قائم رکھنے کے لئے آج  سزا یافتہ مجروموں  کو پاکستان کا اقتدار سونپ دیا ہے اور آپ کی جائز جمہوری حکومت کو بے دخل کر دیا ہے، کیا اسِ پاکستان کے لئے ہمارے آباو اجداد نے قربانیاں دی تھیں؟

عمران خان صاحب یہ چیزیں میں اپنے بیشتر مضامین میں بیان کرتا رہتا ہوں۔ آپ پاکستان میں عدل و انصاف کا مشن لیکر سیاست میں آئے ہیں، مشکلات تو آئیں گی ۔ پچھلے ستر سال کی بدعنوانیاں یوں آسانی سے ختم نہیں ہونگی ۔ آج قوم آپ کے ساتھ ہے۔ بچے، بوڑھے ، نوجوان اور بزرگ آپ کے ساتھ ہیں کیونکہ وہ آپ پر یقین رکھتے ہیں کہ آپ پاکستان کی سلامتی کے ضامن ہیں۔ آپ کو مصلحتوں سے باہر آنا پڑیگا۔ آپ اب بھی پاکستان کی فوجی قیادت پر انگلیاں نہیں اٹھانا چاہتے ۔ مگر میرا سوال یہ ہے کہ اگر فوجی قیادت آپکے ساتھ کھڑی ہوتی تو کیا آپ کو ناجائز طریقے سے اقتدار سے نکالا جاتا؟  آپ اپنے منہ سے اسِ کا اعتراف کریں یا نہ کریں پاکستانی  باشعورقوم سب جانتی ہے۔جب پاکستان کی اکثریت آپ کے ساتھ ہے، مرنے مارنے پر تیار ہے تو پھر وقت آگیا ہے کہ آپ سچ کہنے میں کسی کا لحاظ نہ کریں۔ آپ کی طاقت آپ کے ساتھ چلنے والی پاکستانی عوام ہے۔ آج پاکستانی قوم پاکستان کی بقا کر خاطر آپ کے لئے مرنے مارنے پر تیار ہے۔ بیرونِ ملک لاکھوں پاکستانی بے چینی سے آپ کی احتجاجی  کال کا انتظار کر رہے ہیں۔

عمران خان صاحب، میرا آپ کو مشورہ ہے کہ آپ نے جو نا تجربہ کاری میں اپنے چار  سال سے کم دورِ اقتدار میں غلطیاں کی انکو اب نا دوھرائیے گا۔ کیونکہ شاید آپ کے بعد پاکستان کو رائے راست پر لانے والا کوئی نہ ہو اور پاکستان کے دشمنوں کا ایجنڈا پائے تکمیل کو پہنچے اور ملک ایک مرتبہ پھر ٹو ٹ جائے۔

عمران خان صاحب، آپ کو علم ہے پاکستان میں سیاسی  مہم کا آغاز ہمیشہ کراچی سے شروع ہوا ہے۔ کراچی اور سندھ کے شہری عوام  بالخصوص مہاجروں کی نسلیں صرف پاکستان کو دائم و قائم دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ انُ کی بقا صرف پاکستان کی بقا سے جڑی ہے۔ کراچی کی عوام نے ایم کیو ایم کو چھوڑ کر آپ کا ساتھ صرف اسِ لئے دیا کہ آپ نے پاکستان کی یکجہتی کی بات کی۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب سارا پاکستان ایوب خان کے گیت گا رہا تھا تو کراچی اور حیدرآباد کا مہاجر طبقہ  فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑا تھا ، اور  کراچی  کے تاریخی جلسہ نے ایک مرتبہ پھر یہ بتا دیا ہے کہ وہ  آپ  کے ساتھ کھڑے ہیں اور آپ کی کال کا انتظار کر رہے ہیں ۔ آپ کی کال پر آپ دیکھئے کراچی اور سندھ کی عوام ان ِ مجرموں کی حکومت اور کارندوں کا کیا حال کرتی ہے۔میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ اپنی احتجاج کی تاریخ کے اعلان سے پہلے کراچی جائیں اور دو تین دنِ کراچی اور سندھ میں لگائیں،لوگ آپ کے منتظر ہیں۔ کراچی کی عوام نے آپ کو پاکستان کے ہر شہر سے زیادہ سیٹیں دیں مگر آپ نے اپنے دورہ اقتدار میں کراچی کی عوام کا وہ خیال نہ رکھا جس  کی وہ توقع کر رہے تھے  مگر کراچی کے عوام با شعور ہیں اور آپ کی مجبوری سمجھتے ہیں لحاظہ کراچی اور سندھ کی عوام  آج بھی آپ  کے ساتھ کھٹرے ہیں۔ میں آپ سے ایک مرتبہ پھر اپیل کرتا ہوں کہ پاکستان کی آزادی کی تحریک جو آپ شروع کرنے جارہے ہیں اس کا آغاز کراچی سے  ایک اور عظیم جلسہ کے ساتھ کریں ۔ (وَمَا عَلَيْنَآ إِلاَّ البلاغ المبين)۔

سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا

Recommended For You

About the Author: Tribune