سوئی ہوئی قوم کے جعلساز قائد

سید عتیق الحسن؛

بڑوں سے کہتے  سنا  ہےکہ سابق صدر فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے دور اقتدار میں چینی کی قیمت  میں صرف چار آنے اضافہ کیا گیا تھا تو عوام سڑکوں پر نکل آئے تھے اور صدر ایوب خان کو مجبور کر دیا گیا تھا کہ وہ اپنے فیصلے عوام کی فلاح و بہبود اور مرضی کے مطابق کریں۔  میں نے  اپنی کم عمری میں دیکھا کہ 1977 کے قومی انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو کا دور اقتدار تھا ، انتخابات میں بڑے پیمانے پر  سندھ اور پنجاب میں دھاندلیاں کی گئیں ،بھٹو نے الیکشن کو شفاف قرار دیا اور حزب اختلاف پر زور دیا کہ وہ انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرے، اسکے جواب میں عوام سڑکوں پر نکل آئے حزب اختلاف کی 9 جماعتوں نے مل کر ایک اتحاد بنایا جسے 9 ستاروں کا نام قومی اتحاد تحریک  کو دیا اور پھر عوام نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ایسی تحریک چلائی کہ بھٹو کی حکومت کا نہ صرف بوریا بستر گول ہوا   بلکہ ذوالفقار علی بھٹوکو ایک قتل کے مقدمہ میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ اگر عوام کا ضمیر زندہ ہو اور ملک  کا مفاد  انکے دلِوں میں اولین حیثیت رکھتا ہو تو پھر حکمران چاہے جتنے بھی جابر کیوں نہ ہوں عوام کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔

آج جب کہ ساری دنیا میں پاناما لیکس کے دستاویزات شائع ہو چکے ہیں اور انِ دستاویزات  کے افشاں ہونے پر  کئی ملکوں کے سربراہوں نے اپنے اقتدارmoney_laundering_scheme_big کی کرُسی  چھوڑ دی۔  پاناما  لیکس کی  دستاویزات الزامات نہیں بلکہ تحقیقاتی ثبوت ہیں۔ یہ ثبوت ہیں ان ُ شخصیات کی دولت کی غیر قانونی نقل و حرکت اور  بیرونِ ملک سرمایہ کاری کے بارے میں۔  لیکن وزیر اعظم پاکستان اور انکے وزیر وں نے ایسی ہٹ دھرمی اور میں نہ مانوں کا مظاہرہ کیا ہے کہ دنیا انِ شخصیات کی  اپنی ساکھ پر سوالیہ نشان کھڑا کر رہی ہے اور حیران ہے کہ یہ شخصیات کسِ طرح سے پاکستان کے سب سے بڑے ایوانوں تک پہنچ گئے۔ پاکستان کے وزیر اعظم اور انکے اقتدار  سے چمٹے  عزیز و اقارب یہ کہہ رہے ہیں کہ پاناما لیکس انکے خلاف ایک سازش ہے ، یہ جھوٹ کا پلندہ ہے، وغیرہ وغیرہ۔ خیر یہ   شخصیات اپنے دفاع  جو  بھی ترانہ گائیں  حیرانی یوں نہیں ہونی چائیے کہ  اگر انکا ضمیر پہلے سے ہی زندہ ہوتا اور پاکستان کے لئے دھڑکتا تو یہ منی لاڈرنگ جیسے گھنائونے جرم  کے مرتکب ہی  کیوں  ہوتے۔مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ پاکستان  کے عام آدمی کے  ضمیر  کو کیا ہوا کہ   وہ خاموش تماشائی بنا اپنے ٹیلویزن اسکرینوں پر خبروں کے مزے لے رہا  ہے۔ عوام کی یہ غیر دلچسپی اسِ بات کا ثبوت ہے کہ انِ جعلساز شخصیات   پاکستان میں اشرافیہ سے لیکر عام آدمی تک ایک بدعنوان نظام کر اتنا مضبوط کر دیا ہے کہ اب کرپشن اور جرائم پر لوگوں کو کوئی حیرانی نہیں ہوتی، کوئی غصہ نہیں آتا ، اور کوئی افسوس نہیں ہوتا۔ جمہوریت اور سیاست کے نام پر ان بدعنوان اشرافیہ نے  نہ صرف اپنے ضمیروں کو بیچ دیا   بلکہ پاکستان  میں  عوام آدمی کو بھی کرپشن کی گولیاں دیکر سلادیا ہے۔آج بڑے ہی دُکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کے اقتدار پر قابض اشرافیہ نے  اخلاقیات اور انسانیت کو  اپنے اقتدار اور پیسے کی  ہوِس  کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ آج یہ لوگ  اپنے جرائم  پردہ ڈالنے کے  لئے مزید  عوامی خزانے سے کروڑوں روپے خرچ کرکے اور بیماریوں کا بہانے کر کے  لندن  میں جمع ہیں ۔ یقینا یہ کرپشن کے ماہر لندن میں بھی اپنی دولت کے بل بوتے پر کچھ لوگوں کو خریدنے اور دستاویزی ثبوت ضائع کرنے کی پیشکش کر رہے ہونگے، اور واپس آکر یہ کہیں گے کہ دیکھا یہ سارا کھیل پاکستان میں جمہوریت اور ہمارے منصوبوں کو  ناکام  کرنے کے لئے کیا گیا تھا، اور یہ عام پاکستانی ہمیشہ کی طرح ایسے بھی کہانی کی اور قسط سمجھ پر بھول جائے گا۔  کہا جارہا ہے کہہ نواز شریف بیمار ہیں وہ اپنے علاج  کی  غرض سے باہر گئے ہیں، اس  سے  پہلے آصف علی زرداری، پرویز مشرف اور کئی  شخصیات  بیماری کے نام پر دوبئی اور برطانیہ میں قیام پذیر ہیں۔ اگر یہ لوگ واقعی ایسی  بیماریوں میں  مبتلا ہیں کہ جن کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں تو  اِن کے لئے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام یہ ہے کہ یہ لوگ پاکستان میں ایسے ہسپتال بھی نہ بنا سکے جن میں ان کا اپنا علاج ہو سکتا اور اگر یہ بیمار نہیں بلکہ بیماری کا بہانہ کرکے اپنے معاملات کو ٹھیک کرنے اور ایک دوسرے سے جوڑ توڑ کرنے باہر گئے ہیں تو پھر بھی  شرم سے ڈوب کر مرنے کا مقام ہے کہ یہ اپنے ملک میں بیٹھ کر اپنے معاملات طے نہیں کر سکتے تو پھر یہ پاکستان اور پاکستانی عوام کے لئے یہ کیا کریں گے۔

 لیکن بات پھر وہیں آجاتی ہے کیا پاکستان میں اب  انِ بدعنوان لوگوں کے خلاف سخت اور فوری ایکشن ہوگا یا پھر حسبِ روایت ایک اور انکوائری کمیشن  اور کچھ دنِ پاکستانی میڈیا کے لئے ہائی رینٹگ  خبریں  اور تبصروں کے مواقع اور پھر کسی نئی کا انتظارہوگا۔ لیکن جس طرح سے پاکستان قرضوں کے نیچے انِ جعلساز عناصر کی وجہ سے دبا  چلا جارہا ہے اگر یہ عناصر اسی طرح سے پاکستان کے اقتدار پر قابض رہے تو پاکستان ایک آزاد ریاست کے طور پر نہیں چل سکتا۔ پاکستان کی عوام اسِ بات کو سمجھ  لیں  کہ اگر وہ یہ سمجھتی کہ انِ   جعلساز  عناصر کے کرپشن کے انکشافات سے انُ کی روزمرہ زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑتا تو اُن کی بھول ہے۔ یہ کرپٹ عناصر  کرپشن سے اپنی دولت کے انبار تو لگا ہی رہے ہیں دوسری طرف پاکستان کو بیرونی قرضے کے نیچے دنِ بدن اسِ قدر دباتے چلے جا رہے ہیں  عنقریب ایک وقت آئے گا جب قرضے دینے والی بین الاقوامی طاقتیں پاکستان پر قابض ہونگی اور پھر نہ آدمی کی آزادی محفوظ رہے گی اور نہ ہی اسِ اشرافیہ کی۔ لحاظہ اللہ نے یہ شاید آخری موقع دیا ہے کہ  عوام اپنے گھروں سے نکلیں اور انِ بدعنوان حکمرانوں کو قرار واقعی سزا کے لئے ایک ایسی تحریک چلائیں کہ دنیا دیکھے کہ پاکستان کی عوام ایک زندہ قوم ہے اور اپنے وطن کی حفاظت کرنا جانتی ہے۔

Recommended For You

About the Author: Tribune