خان صاحب پی ڈی ایم کی بجائےالطاف حسین سے بات چیت کریں، پھر عوامی طاقت آپ کے ساتھ ہے

عمران خان نے پاکستان میں نظام کی تبدیلی کی غرض سے ایک نظریاتی وسیاسی جدوجہد شروع کی جس کے لئے پاکستان تحریکِ انصاف کی بنیاد ڈالی۔ عمران خان کے نظریہ تبدیلی  کو پاکستان کے ہر صوبہ کے نوجوانوں، عورتوں،اور بزرگوں نے لبیک کہا ۔ بالخصوص پچھلے پانچ سالوں میں تحریک انصاف پاکستان کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔نظریاتی سیاست میں اصولوں کی جنگ ہوتی ہے ۔ اگر اصولوں پر سودے بازی کر لی جائے تو پھر وہ نظریاتی  سیاست  کی بجائے سیاسی یا اقتدار کی سیاست بن جاتی ہے۔

مجھے یاد ہے اور میرا آرٹیکل موجود ہے جس میں میں نے عمران خان کو مشورہ دیا تھا کہ آپ کی جدوجہد نظام کی تبدیلی کے لئے ہے ناکہ اس کرپٹ نظام کا حصہ بن کر اور اسی نظام کے زیر سادہ حکومت میں آکر آپ اس نظام کو ختم کرنے کی بات کریں لحاظہ آپ کو اس نظام کے تحت ہونے والے انتخابات میں شریک نہیں ہونا چائیے بلکہ اپنی نظریا تی سیاست کو مزید مضبوط کریں مگر عمران خان صاحب نے ۲۰۱۸ کے انتخابات میں حصہ لیا اور پھر ایک اقلیتی حکومت ان جماعتوں کے ساتھ ملکر بنائی جو حکومت میں آنے کی سیاست کرتے ہیں۔ بارحال جو ہوا اب وہ واپس نہیں ہو سکتا ، اب کیا ہو سکتا ہے اور موجودہ حالات میں آگے آپ کی پالیسی کیا ہونی چائیے، اس وقت یہ آپکے لئے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔

بارحال عمران خان کی جنگ ملک پر قابض فسطائیت، آمریت اور بدعنوانیت میں لپٹے ہوئے مافیا سے ہے ۔ موجودہ جبر، ظلم،  اذیتوں، زیادتیوں ، قیدو بند اوربدترین قید و سلاسل  نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ملک پر قابض موجودہ گروہ کو کسی عالمی انسانی قوانین کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔آج عمران خان اور انکی جماعت کے پیروکاروں کا امتحان ہے۔ عمران خان کے جیالے اور متوالوں نے ہی نہیں عمران خان نے بھی شاید نہیں سوچا ہوگا کہ ملک پر قابض عسکری اور غیر عسکری عناصر اقتدار کے نشے میں اتنے غیر انسانی مظالم ڈھا سکتے ہیں۔ انِ سب حالات کے باوجود عمران خان اور انکی جماعت کے متوالوں اور رکھوالوں کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ اسِ کوفہ کی لڑائی میں امام حسین کے اصولوں پر عمل پیرا  ہیں  ناکہ یزیدیت کی فسطائیت کے  آگے سر نگو کرکے مثالحت کی روائتی سیاست کرتے ہیں۔

قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

یقیناً یہ عمران خان  کی  زندگی کی سب سے بڑی نظریاتی اور سیاسی آزمائش ہے ۔ آج عمران خان زندگی کے ایسے موڑ پر کھڑے ہیں کہ انُ کو فیصلہ کرنا ہے کہ انکے نزدیک اصولوں کی خاطر موت کو گلے لگانا بہتر ہے اور اپنے نظریاتی ساتھیوں اور پاکستانی قوم کو اصولوں پر کھڑا رکھنا  اور اپنی جان قربان کرنے کا سبق دینا ہے یا پھر انہیں مکار، جھوٹے، بدعنوان اور ملک دشمنوں کے ساتھ کوئی سیاسی سمجھوتہ کرنا ہے ۔

آج عمران خان کو روائتی اور مفاد پرست سیاسی ٹولہ، لفافہ صحافی اور لالچی نام نہاد دانشورمشورہ دے رہے ہیں کہ وہ حکومت اور فوج سے بات چیت کرکے معاملات طے کر لیں ۔ کچھ لو اور کچھ لو  کی بنیاد پر خود کو اور تحریک انصاف کو بچا لیں۔ میری رائے میں اگر عمران خان ایسا کرتے ہیں تو وہ نا صر ف اپنی نظریاتی سیاست کو دفن کر دیں گے  اور مستقبل میں انکا نام صرف ایک جذبانی سیاستدان کے طور یاد کیا جائے  گا نیز وہ عوام کی اکثریتی حمایت بھی کھو دیں گے۔

اب سوال یہ ہے کہ آخر عمران خان  کوموجودہ حالات میں کرنا کیا چائیے۔ عمران خان کو انکی جماعت کے اہم قائدین ایک کے بعد ایک چھوڑ کر جارہے ہیں جس کے پیچھے پاکستان پر قابض موجودہ آمر اور ظالم گروہ ہے۔ دوسری طرف عمران خان کی مقبولیت آج بھی پاکستان کی عوام میں نا صرف قائم ہے بلکہ بڑھ رہی ہے۔ اصل طاقت کا سرچشمہ کسی بھی معاشرہ میں عوام ہوتے ہیں اور عمران خان کے ساتھ یہ طاقت کا سرچشمہ موجود ہے۔ عمران خان تھوڑا صبر سے کام لیں۔ تحریک میں ٹہرائو لائیں، نئی صف بندی کریں اور دوبارہ میدان میں آنے کی تیاری کریں۔ ابھی تک جو کچھ بھی عمران خان صاحب اور تحریک انصاف کے  ساتھ ہو رہا ہے اسکو عمران خان ایک سبق آموز  سیاسی تجربہ کے طور پر لیں اورنئی حکمت عملی تیار کریں۔ آج بھی عمران خان کے ساتھ بے شمار نوجوان نظریاتی جیالے موجود ہیں جو تحریک انصاف کے اہم عہدے سنبھال سکتے ہیں۔عمران خان سیاسی سبق دینے میں ماہر ہیں، اپنے انِ نوجوانوں کو ذہنی طور پر مضبوط کریں۔ آنے والے انتخابات عمران خان صاحب آپکا حدف نہیں ہونا چائیے کیونکہ آپ کا مقصد نظام کی تبدیلی ہے ناکہ ملک کا اقتدار سنبھالنا ہے۔ جب وقت آئے گا پاکستان کا اقتدار اللہ آپ کی جھولی میں ڈال دیگا۔ آپ کو مزید حوصلہ اور اللہ پر مضبوط ایمان کے ساتھ کھڑے رہنا ہے۔

عمران خان صاحب آپ سیاسی حکمت عملی کے طور پر پاکستان کے انُ سیاسی شخصیات اور قائدین سے ملاقات کریں جو پاکستان کے اندر رہتے ہوئے نظریات کی سیاست کرتے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں۔ اسکے لئے اگرآپ کو الطاف حسین کے ساتھ بھی ہاتھ ملانا  پڑے تو  پیش رفت کریں۔ اس کام کے لئے اگر آپ کو لندن بھی جانا ہو تو جائیں۔ سندھ اور بلوچستان میں ایسے جییت نظریاتی سیاستدان موجود ہیں جن کا مقصد اپنے نظریات کی تکمیل ہے ناکہ کسی فوجی حکومت کی مدد سے بننے والی حکومت میں شامل ہونا۔ آپ انکے ساتھ بات چیت کریں اور کسی ایک نکتہ پر ان سے ہاتھ ملائیے۔اور نکتہ یہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان  کی  عسکری اور فسطائیت کی حکومت کے خلاف آواز اٹھائی جائے اور ملک میں سچی عوامی جمہوریت کے لئے مل کر جدو جہد کی جائے۔

اسکے علاوہ بلوچستان، خیبر پختون خواہ اور جنوبی پنجاب کے نظریاتی سیاستدانوں سے رابطہ قائم کریں جیسے کہ جمشید دستی صاحب جو ایک  نڈر اورشیر کا  دلِ رکھنے والےنظریاتی سیاستدان  ہیں ۔ اسی طرح سے فیصل رضا عابدی ، جاوید ہاشمی اور بہت سے نظریاتی، دلیر اور دبنگ  شخصیات موجود  ہیں  جن کے ساتھ ایک اتحاد بناکر دوبارہ موثر طریقہ سے جدوجہد سڑکوں پر لائی جا سکتی ہے۔اعتزاز احسن اور لطیف کھوسا صاحبان سے انکےپاس جاکر اسِ جدہ جہد میں شامل ہونے کی اپیل کریں۔

پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ  عمران خان  صاحب  آپ کے ساتھ نوے فیصد بیرونِ ملک پاکستانی  ۔ یہ غیر ملکی پاکستانی  آپ  کے لئے بھرپور جدوجہد ساری دنیا میں چلائیں گے۔

لحاظہ عمران خان صاحب آپ کو کسی طور بھی حکومت میں بیٹھا ہوا مافیا ، جن میں شریف فیملی، زارداری اور فضل الرحمن شامل ہیں سے بات چیت  نہیں کرنا چائیے۔ بلکہ اپنی تحریک اور جدو جہد کو مزید مضبوط کرنے کے لئے سکون کے ساتھ ایک لمبی جنگ کی حکمت عملی تیار کرنی چائیے۔

میری دانست میں آپ کو حکومت کو بات چیت کی دعوت نہیں دینی چائیے۔ کیا اب بھی آپ انِ جعلساز اور جھوٹے لوگوں کو سمجھ نہیں سکے۔ آپ کی طاقت محب وطن پاکستانی ہیں یہ پاکستان کے دشمن نہیں۔

سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا

28 May 2023

Recommended For You

About the Author: Tribune