جہاں سیاسی شعور نہ ہو وہاں انقلاب نہیں بربادی آتی ہے

 سید عتیق الحسن؛

Pakistan_social issuesسیاست ، جمہوریت اور آزادی رائے معاشرہ میں معاشرتی شعور   بیدار کرتے ہیں۔ جن معاشروں میں سیاست نہ ہو، جمہوریت نہ ہو اور عوام کو آزادی رائے کا حق حاصل نہ ہو اسُ معاشرہ میں نہ تو انصاف جنم  لیتا ہے اور نہ ہی بنیادی انسانی حقوق لوگوں کو  میسر ہوتے ہیں۔آج دنیا کے جن معاشروں میں  سیاسی و جمہوری نظام حقیقی معنوں میں نافظ ہے وہاں عوام کو بنیادی انسانی حقوق بھی حاصل ہیں، قانون کی بالادستی بھی ہے، حاکم اور رعایا کے لئے قانون برابر ہے، عوام کو آزادی رائے کا حق حاصل ہے اور حکمران عوام کی عدالت میں جواب دے ہیں۔

 دنیا کا عظیم اور اعلی مذہب اسلام نے سیاست، جمہوریت، مساوات، عدل، قانون کی بالادستی اور آزادی رائے  کا درس دیا اور ان پر عمل پیرا ہوکر ایک مہذہب معاشرہ کی تشکیل کا راستہ دکھایا۔   آخری نبی محمد ﷺ اور خلفہ راشدین نےعملی طور پر مساوات ، عدل و انصاف اور بنیادی انسانی حقوق کی عظیم مثالیں قائم کیں جن پر چل آج مغربی دنیا نے ایک خوش حال ، طاقتور اور عظیم ریاستیں قائم کر لی ہیں مگر اسلام کے پیروکار مسلمان  آج دنیا میں ذلیل اسِ لئے ہو رہے ہیں کہ نہ تو  وہ بدقسمتی  سےدنیا   کی  کسی بھی ریاست میں  اسلام کی اصل روح کے مطابق  اسلام نافظ کر سکے اور نہ ہی اسلام کی  تعلیمات  کو سمجھ سکے۔ اور اگر بات پاکستان کی کریں تو اب میرے جیسے مصنف کو یہ سوچنا پڑتا ہے کہ بات کہاں سے شروع کی جائے اور کسِ کسِ چیز کا رونا رویا جائے۔ اگر لوگوں کو اپنی تاریخ جاننے اور پڑھنے کا شوق نہیں تو اسِ میں قصور کسِ کا ہے۔ اگر لوگ تاریخی حقائق   سیاسی لگائو  کی روشنی میں جانچیں اور  ماضی میں  ہوئے المناک واقعات کو بھی تعصب کی  نظر سے دیکھیں تو پھر ایسے لوگوں سے یہ امید رکھنا کہ ایک دنِ یہ اپنے حق کے لئے کھڑے ہونگے اور ایک دنِ یہ سچے کو سچا اور جھوٹے کو جھوٹا کہیں گے    بہت بڑی غلط فہمی  ہے۔ پاکستان میں آج جو سیاسی طبقہ حکومت کر رہا ہے  اور جو سیاسی قائدین پاکستان کے صوبوں اور مرکز میں اقتدار کے ایوانوں پر قبضہ کرکے بیٹھے ہیں ان میں سے زیادہ تروہ ہیں جو فوج کے دورِ اقتدار میں دو طرفہ مفادات  کی بدولت  سیاست کے میدان کے کھلاڑی بنے اسِ میں ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر نواز شریف سب ایک ہی حمام میں ننگے نہا چکے ہیں۔ پھر  کچھ وہ ہیں جن کے باپ دادا کو انگریزوں سے وفاداریوں کے طفیل زمینیں عطا ہوئیں   اور پھر وہ جاگیردار اور قبائلی سردار کہلائے ،کچھ وہ ہیں  جن کے بڑے  ماضی میں ملک توڑنے کی سازشوں کا حصہ بنے رہے، کچھ وہ ہیں  جن پر سنگین جرائم کے پرچے کٹے ہوئے ہیں، کچھ وہ ہیں جو جعلی  ڈگریوں کی بدولت رکن ِ پارلیمنٹ بنے بیٹھے  ہیں،  کچھ وہ ہیں جو حالات و واقعات کے طفیل زبان، فرقہ اور علاقے کی سیاست کرکے آج سیاسی ، مذہبی اور تحریکی قائد کہلاتے ہیں۔

مگر پاکستان کی عوام  کی اکثریت ہے کہ وہ انِ ہی لوگوں کو اپنا قائد ، رہنما، رہبر اور مسیحا مانتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ لوگ آج بھی نواز شریف، الطاف حسین، آصف علی زرداری  اور ان جیسے سیاسی پنڈتوں کو ہی اپنا قائد مانتے ہیں اور ان  کے جلسے اور جلوسوں میں ان پر اپنی محبت اور والہانہ لگائو کا اظہار کرتے نہیں تکھتے جبکہ یہ سب کئی کئی مرتبہ اور کئی دھائیوں سے کامیابی سے اپنی سیاسی دکانیں لگائے بیٹھیں ہیں ۔ کیا وجہ ہے کہ انِ  سیاسی پنڈتوں نے  سوائے قوم کو ان کے مسائل بتانے اور ان مسائل  پر رونا رونے کے سوا کچھ نہیں دیا مگر انکے پیروکار ہیں کہ ان کی تعریفیں کرنے اور انکے ہر عمل کا دفاع کرنے کو اپنے سیاسی ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں۔

پاکستان کےبانی قائد اعظم محمد علی جناح نے  پاکستان کے لئے اپنی مجموعی سیاس زندگی  کا جتنا عرصہ پاکستان کی جدوجہد کے لئے صرف کیا اس سے زیادہ   عرصہ یہ سیاسی پنڈت پاکستان کے اقتدار پر قابض رہے ہیں ۔ انِ سیاسی پنڈتوں کی من پانی اور اقتدار کی ہوس کی بدولت پاکستان دو لخت ہوا، مگر آج تاریخ  اپنے اقتدار کی خاطر توڑ مروڑ کے پیش کیا جاتا ہے، جو شخص پاکستان کے دو ٹکڑنے کرنے میں ایک کردار تھا اس کو قائد عوام اور شہید کہا جاتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ نواز شریف جس نے ضیاالحق کی نرسری سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا آج جمہوری نظام کو قائم رکھنے کا الم بردار کہلایا جا رہا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ دنیا میں مسٹر ٹین پرسنٹ کہلانے والا اور بے نظیر کے دور اقتدار میں اربوں روپیہ کا غبن کرنے والا پاکستان کا صدر بن گیا اور آج پاکستان کی سیاست کا ان داتا مانا جارہا ہے ، کیا وجہ ہے الطاف حسین جو پچھلے بیس سال سے زیادہ عرصہ سے لندن میں قیام پذیر ہے اور جس نے کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں کے اردو بولنے والوں کے لئے سوائے مسائل اور حقوق کا رونا رونے کے سوا کچھ نہیں دیا آج پاکستان کی سیاست کا دانشور کہلاتا ہے۔ کیا وجہ ہے وہ مولوی اور انکی جماعتیں جنہوں نے سوائے نفرتوں   کےبیج بونے اور تقسیم کی سیاست کھیلنے کے سوا پاکستان کے عوام کو کچھ نہیں دیا آج بھی لاکھوں  پاکستانی  انکی ایک آواز پر جمع ہوجاتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ بلوچستان اورخیبر پختون خواہ کے وہ سردار جو جدی پشتی پاکستان کے نظریہ اور سالمیت کے خلاف ہیں انتخابات میں جیت کر ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں اور جس قوم کا وہ استحصال کرتے ہیں وہی انکے پیر چھوتے ہیں۔ کیا وجہ ہے سندھ اور پنجاب کے جاگیر دار جو اپنی زمینوں پر کام کرنے والوں کے ساتھ ہی زیادتیوں کا بازار گرم رکھتے ہیں مگر وہی  لوگ ان کو ووٹ دیکر ایوانوں میں بھیجتے ہیں ۔

دوسری جانب  کیا وجہ ہے کہ وہ لوگ جو پاکستان سے  محبت کرتے ہیں ، پاکستان کی سالمیت اور بقا کے لئے پاکستا ن گلہ سڑا اور کرپٹ نظام تبدیل کرنا چاہتے ہیں پاکستان کی عوام انہی کا مزاق اڑاتے ہیں، ان کی  کردار کشی کرتے ہیں اور انکے خلاف سیاسی مہم کا حصہ بنتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے پاکستان کے انِ نام نہاد سیاسی قائدین نے سلسلہ وار ایک نظام کو جنم دیا ہے جو منافقت، جھوٹ ، مطلب پرستی پر مبنی ہے۔ انِ سیاسی پنڈتوں نے  ایک ایسا معاشرتی جرم کیاہے جس کی بدولت محبت وطن پاکستانی قوم سے قومی شعور اور تشخص چھین لیا ہے۔ آج عام پاکستانی کے نزدیک وہ ہی اس کا من پسند لیڈر ہے جو اس کے علاقے کا ہے  یا اسکی برادری کا ہے، کیا اس کا ہم زبان ہے، یا اسکے فرقہ کا ہے یا پھر اسکے شہر یا صوبے کا ہے۔ آج ایک عام آدمی کسی سیاسی قائد کو قائد ماننے سے پہلے یہ نہیں سوچتا کہ چاہے یہ قائد میری ذات کے لئے ٹھیک ہو یا نہ ہو مگر ملک و قوم کے لئے بہتر ہے۔ چاہے یہ قائد میرےصوبے ، شہر، برادری، زبان ، اور فرقہ کا نہ سہی  مگر میرے ملک اور پوری قوم کے لئے تو بہتر ہے۔

ایسے حالات و واقعات کسی قوم کے اسُ وقت ہوتے ہیں جب وہ قوم نہیں ایک ہجوم میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ قومی سوچ کی جگہ ذاتی مفاد لےلیتا ہے۔  منافقت سوچنے کا انداز بن جاتی ہے ۔ جھوٹ اور چور بازاری بام عروج پر پہنچ جاتی ہے، بڑے سے بڑا جرم روز مرہ کا معمول بن جاتا ہے۔اور قوم کے لٹیرے قوم کے قائد بن جاتے ہیں۔ بدقسمتی آج پاکستان انہی حالات کانمونہ پیش کر رہا ہے۔  

پچھلے ایک ماہ سے جاری پاکستان کے دارالخلافہ اسلام آباد میں پاکستان کے بد عنوان  اور استحصالی نظام کے خلاف  ڈاکٹر علامہ طاہر القادری اور عمران خان کی قیادت میں احتجاج  اور اس کی حمایت اور مخالفت کے منظر نامہ نے پاکستان کے معاشرتی نظام اور عوام سوچ کو برہینہ کر دیا ہے۔  نہ تو میں عمران کی  تحریک انصاف پی ٹی آئی کا کارکن ہوں اور نہ طاہر القادری صاحب کی عوامی تحریک کا کارکن۔ مگر میں صرف یہ دیکھتا ہوں کہ یہ دو لیڈران  جو کچھ کہ رہے ہیں ، جن چیزوں کا رونا رو رہے ہیں، جن سیاسی جرائم کی نشاندہی کر رہے ہیں، اور جس بدعنوان نظام کو تبدیل کرنے کی بات کررہے ہیں وہ زمینی حقائق ہیں۔ اگر پاکستان کو قائم رہنا ہے تو پاکستان میں جاری و ساری دھوکہ دہی اور جال سازی کے نظام کو تبدیل کرنا ہوگا۔ پاکستان سے انِ تمام سیاسی مافیہ کو ختم کر نا ہوگا۔   اگر پاکستان میں کوئی ادارہ اسِ نازک دور میں پاکستان میں تبدیلی لا سکتا تھا تو وہ پاکستانی فوج ہے، مگر اب پاکستانی فوج پچھلے  ایک ماہ سے اسلام آبا د میں جاری دھرنے پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور پاکستان کے قومی ایوان کے باہر فوجی اہل کار کھڑے کرکے ایوان کے اندر جاری اجلاس کی محافظ بنی ہوئ ہے تو میرے جیسے پاکستان کا درد رکھنے والوں کے اندر مزید شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں  جو بہت جلد منظر عام پر بھی آنے لگیں گے۔

Recommended For You

About the Author: Tribune