تعلیم اور اخلاق جس قوم کی پہچان تھی وہ آج کہاں کھڑی ہے

سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیاء

ہمارے محلہ میں ایک کسٹم انسپیکٹر رہا کرتے تھے جو سرکار ی عہدہ کے لحاظ سے  ایک عام ملازم کی حیثیت ہوتی  ہےمگر انسپیکٹر صاحب اور انکی کی فیملی کے ٹھاٹ باٹ  شاہانہ تھے۔ انسپیکٹر صاحب کے  بیٹے  تقریبا میری  ہم عمر تھے ۔ قیمتی لباس، موٹر سائیکل، اچھا کھانا اور پیسے  اڑانا ان کا مشغلہ تھا۔    انسپیکٹر صاحب کے بچے اپنی ذات سے  اچھے تھے مگر میرے والد جو ایک استاد اور سماجی کارکن تھےمجھے ہمیشہ انسپیکٹر صاحب کے بچوں کے ساتھ کھیلنے سے منع کرتے جس کی وجہ اسُ وقت مجھے عجیب لگتی تھی۔   والد صاحب  فرماتے  تھے  کہ اسِ طرح کی ملازمتیں کرنے والوں کے گھروں میں رشوت کی کمائی آتی ہے جو وہ اپنے بچوں کو کھلاتے ہیں اور میں یہ نہیں چاہتا کہ تم اُن بچوں کے ساتھ دوستی رکھو جن کو رشوت کی کمائی  سے پروان چڑھایا جاتا ہو۔ کیونکہ جب حرام کی کمائ سے بچوں کی پرورش کی جائے گی تو یہ بچے  بڑے ہوکر ہمارے معاشرے  میں بد عنوانی کو فروغ دینگے۔ آج جب میں اپنے والد مرحوم اور اسُ زمانے کے بڑوں کی  ذہنیت کےبارے میں سوچتا ہوں اور پھر آج جو کچھ  میں اردو بولنے والے طبقہ کو کراچی اور حیدرآباد میں دیکھتا ہوں تو رونا آتا ہے۔ کس سلسلے وار طریقہ سے پاکستان کے سب سے پڑھے لکھے طبقہ کو تباہ کیا گیا ہے۔  کیا کوئ بیس یا تیس سال پہلے تصور کرسکتا تھا کہ کراچی کے فیڈرل بی   ایریاجیسے علاقے جہاں پڑھے لکھے اور نوکری پیشہ لوگ آکر آباد ہوئے تھےآج وہاں پاکستان کی آرمی کو علاقے کی ناکہ بندی کرکے  اصلحہ اور مجرموں کو منظر عام پر لانا پڑا  گا۔ حقیقت جیسی بھی ہو اور پس منظر جو بھی ہو لیکن کیا اس حقیقت سے الطاف حسین یا انکے ساتھی  سچا   ئ کے  ساتھ یہ کہ سکتے ہیں کہ کیا کبھی انُ کے بڑوں نے یہ سوچا ہوگا کہ اُن کے  گلی محلوں  کو دہشتگردی کی پناہ گاہیں اور بچوں کو دہشتگرد اور گینسٹرز کہا جائے گا۔ جو بات میں پچھلے بیس سال سے کہتا رہا ہوں کہ ایک سازش کے ذریعہ پاکستان کے پڑھے لکھے طبقہ کو ایسے سیاسی جال میں پھنسایا جارہا ہے  جس کا مقصد  حقوق کے نام پر انکو تیسرےدرجہ کا شہری   بنانے کی مہم  جوہی  ہے۔ اردو بولنے والوں کا صرف اور صرف مسلہ اعلی تعلیمی اداروں میں بغیر سفارش اور میرٹ پر داخلہ اور سرکاری اداروں میں  میرٹ پر نوکریاں تھا۔ اعلی تعلیمی اداروں میں داخلوں اور سرکاری اداروں میں نوکریاں تو درکنار اب تو اگر کوٹہ سسٹم ختم بھی کر دیا جائے  اور میرٹ کا نظام  نافظ  ہوبھی ہوجائے تو  کراچی اور حیدرآباد کے نوجوانوں کو  اب میرٹ اور قابلیت پر    شاید    نہ داخلے مل سکیں  اور نا ہی اعلی سرکاری نوکریاں کیونکہ   پچھلے بیس سالوں میں انکے ہاتھوں سے کتابیں لیکر اسلحہ پکڑا دیا گیا ہے۔ الطاف حسین صاحب چند دن ِ قبل حسب معمول اپنے فون کے لمبے دورانیے کے خطاب میں فرماتے ہیں  کہ  مجرموں کو چھپنے کے لئے نائن ذیرہ کی ہی پناہ گاہ مِلی تھی اتنی بڑی دنیا پڑی ہے  کہیں  بھی چلے جاتے میں بھی تو پچیس سال سے باہر پڑا ہوں۔ اب اسِ انداز بیاں اور سوچ پر کیا کچھ نہ کہا جائے۔

جو لوگ  اپنے   اثاثے، زمینیں،اور صدیوں پرانے رشتے ہندوستان میں چھوڑ کرقیام پاکستان کے وقت  پاکستان ہجرت کرکے آئے  اور کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں میں  آباد ہوئے۔ انکی نسل اس طرح تباہ اور برباد ہوگی یہ کبھی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔

ہم اپنے بڑوں سے نظریں نیچی کرکے بات کرتے تھے، بزرگوں کی بات اگر بری  لگ    بھی جائے تو  پلٹ کر جواب نہیں  دیا کرتے تھے، دوستوں کے ساتھ کھڑے ہوں اور اگر کوئی بڑا  پاس  سے گزر رہا ہو تو احترام میں خاموش  ہو جایا کرتے تھے اور پھر ادب سے  سلام کیا کرتے تھے۔ سیاست یا  کسی  اور مسلہ پر گفتگو جاری ہو تو بڑوں کی عمر کا خیال کرتے ہوئے اخلاق  کا دامن نہیں چھوڑتے تھے۔ ماں باپ سب کچھ نظر انداز کر سکتے تھے مگر بدتمزی اور اخلاق سے گری ہوئی بات برداشت نہیں  کیاکرتے تھے۔ آج اسی طبقہ کا قائد سینکڑوں مائوں اور بہنوں کی موجودگی میں وہ زبان  اور لفظ استعمال کر تا ہے جو اگر میں اپنے ماں باپ کے سامنے استعمال کرتا تو میرے ماں باپ مجھے کبھی معاف نہیں کرتے۔

  اردو بولنے والی نفیس، شریف النفس، اور تعلیم یافتہ طبقہ کے ساتھ پچھلے تیس سالوں میں ایسا کھیل  کھیلا گیا ہے کہ آج جن کے باپ دادا کا اثاثہ تہذیب، خاندانی روایات، اخلاقیات  اور تعلیم ہوتا تھا انکی نئی نسل کے پاس صرف یہ ہی چیزیں ناپید ہیں  ۔ تعلیم جس قوم کا زیور تھا  آج انکی نسل کے نام نہاد رہنما انُ کو یہ تعلیم دیتے ہیں کہ اگر تم کو کوئ چیز بچا سکتی ہے تو وہ  اسلحہ ہے۔ آج اکثریت میں اردو بولنے والے طبقہ کے پاس نہایت ہی دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہےکہ نا تعلیم ہے ، نا اخلاقیات، ہتھیا راٹھا کر چلنے کو سیاست اور تحریک کہا جاتا ہے۔ کس مقصد کی  تحریک ہے کچھ پتہ نہیں ۔ باپ دادا کی کیا قربانیاں تھیں کچھ معلوم نہیں مگر قائد کی سالگرہ کب ہے نہیں بھولتے اور افسوس کے ساتھ  ماردھاڑ، ٹکرائو، بداخلاقی اور   جہالت کے سارے سازوسامان موجود  ہیں ۔ جن  کے  ماں باپ کی جیبوں میں قلم ہوتا تھا انکی اولادوں کے نیفوں میں پستولیں لگی ہوتی ہیں ۔

دوسروں کی بات تو  دور کی بات    ہےآج میں کراچی اور حیدرآباد میں  اپنے ہی  خاندان کے نوجوانوں اور اس نسل کو دیکھتا ہوں تو ۱۹۸۰ کی دھائی میں پیدا ہوئی ، انکا لب و لہجہ، تعلیمی معیار ، بات چیت کا انداز اور پہننے اوڑھنے کا طریقہ،  انکے اپنے مستقبل کے معاملات جب ان سے سنتا ہوں اور  انکی سیاسی پسند اور نا پسند کو دیکھتا ہوں تو  افسوس  بھی ہوتا ہے اور شرمندگی بھی ۔   ایک زمانہ تھا کہ کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں میں آباد اردو بولنےوالوں   کو باقی طبقات  عزت کی نگا ہ سےدیکھا کرتے تھے اور اپنے بچوں کو اردو سکھاتے اور اپنے گھروں   میں اردو میں بات کرنا  پسند کرکیا کرتے  تھے۔

قیام پاکستان کے بعد ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے جنہیں مہاجر  یا اردو اسپیکنگ کہا جاتا ہے اپنے  مستقبل  اور معاشی حالات بہتر بنانے کے لئےتعلیم ، ملازمت اور کاروبار میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔دیکھتے ہی دیکھتے کراچی ، حیدرآباد ، سکھر سمیت سندھ کے شہری علاقوں میں اردو بولنے والوں کی کاروبار پر گرفت مضبوط ہوتی گئی اور سندھ کے زیادہ تر کاروبار پر اپنی محنت   اور لگن سے چھا گئے۔ تعلیم   اور ہر شعبہ زندگی میں یہ لوگ نظر آنے لگے، سرکاری اور اعلی پرائیوٹ کمپینوں بنکوں، ائر لائن، بندرگاہ وغیرہ میں  بھی اردو بولنے والے اعلی عہدوں پر پہنچنے لگے۔ کراچی اور حیدرآباد  دانشورں ادیبوں، شاعروں، نقادوں، فنکاروں  کے شہر کہلاتے تھے۔ انِ دونوں شہروں میں سب سے زیادہ ادبی محلفیں، مشاعرے، مشائق کی محلفیں،ٹھیٹر غرض کہ یہ  دو شہر پاکستان  کی   تہذیب و تمدن کا گہوارہ بن گئے تھے۔کراچی روشنیوں کا شہر انِ ہی اردو بولنے والوں کی مرہونِ منت تھا۔حیدرآباد نےبڑے بڑے نقاد، شاعر اور فنکار پیدا کئے۔ حیدرآباد پاکستان کا تیسرا بڑا شہر ہونے کی طرف  رواں دواں  تھا۔

اردو بولنے والوں کو باقی ماندہ قوموں کی طرح وڈیرے  اور جاگیردار لگام ڈالنا چاہتے تھے۔جنوری ۱۹۶۵ میں اُس  وقت کےفوجی سربراہ    فیلڈ  مارشل جنرل ایوب خان نے صرف ایک ماہ کے نوٹس پرجب پاکستان میں انتخابات کرنے کا اعلان کیا اور  ایوب خان کی بنائی ہوئی کنوینشن مسلم لیگ  کا سیاسی اتحاد قائم ہوا  تو پاکستان  کے  یہ جاگیردار ، وڈیرے  اور قبایلی طاقتیں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی کی ہمشیرہ مادرِ ملت محترمہ  فاطمہ کے خلاف ایوب خان کے ساتھ کھڑی ہو گیئں۔  کراچی میں ایوب خان کے بیٹے گوہر ایوب نے  انتخابی  مہم کی باگ دوڑ سنبھالی۔ کراچی کے اردو بولنے والوں  کی اکثریت  نے  بھرپور طریقہ سے محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی۔ مگر جب انتخابات کے نتیجہ کا اعلان ہوا تو فاطمہ جناح کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ انتخابات میں ایوب خان کے کارندوں جن میں ایوب خان کا بیٹا گوہر ایوب پیش پیش تھا نے اپنی مرضی کا نتیجہ تیار کیا۔ اس ِ طرح سے پاکستان میں جمہوریت کے نام پر عوامی  استحال کا آغاز ہوا اور انتخابات میں دھاندلی کی بنیاد  ڈال  دی گئی۔ بارحال  ایوب خان کے بیٹے گوہر ایوب خان نے جیت کی خوشی میں کراچی میں ریلی کا انعقاد کیا۔اسِ ریلی میں زیادہ تر پشتون بولنے والے پٹھان شامل تھے۔ اسِ ریلی کے دوران  اور اس کے بعداس قسم کے واقعات رونما ہوئے کہ کراچی شہر میں مہاجر پٹھان کے نسلی فسادات  برپا ہوئے جس میں تیس کے قریب لوگ مارے گئے ۔ صدر ایوب خان نے کراچی کے اردو بولنے والوں کو مخاطب کرکے کہا کہ مہاجروں اب تمھارے آگے صرف سمندر ہے ۔ ایوب  خان کے اسِ جملے نے   جلتی پر تیل کا کام کیا اور مہاجر اور پٹھانوں کے درمیان اور نفرتیں بڑھانے کی کوشش کی گئی مگرپھر اُس وقت کے سول سوسائٹی اور محب وطن پاکستانی سامنے آئے اور دونوں  طبقات کو  ٹھنڈا کیا گیا اور  حالات معمول پرلائے  گئے۔

 پھر ۱۹۷۰ کی دھائی شروع ہوئی۔ ایوب خان کی سیاسی  کوک  سے  جنم لینے والے  ذوالفقار علی بھٹو نے سندھ میں اپنی نئی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو مضبوط کرنے کے لئے سندھ میں  لسانی  عنصر استعمال کیا  اور سندھ میں شہری اور دیہی کی تقسیم کی بنیاد ڈالی  جو دراصل اردو اور سندھی بولنے والوں کے درمیان سیاسی تقسیم  اور سندھی بولنے والوں کو پاکستان پیپلز پارٹی  کی  طرف زبان کے نام پر  مائل  کرنا تھا تاکہ سندھ کے وڈیرے زمینداری کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ سیاسی طور پر بھی سندھی بولنے والوں کو غلام بنا کر رکھیں  اور اسکا الزام اردو بولنے والوں پرڈالیں۔پلان یہ تھا  کہ اردو بولنے والوں پر تعلیم اور ملازمتوں کے دروازے بند کئے جائیں اور ساتھی یہ تاثر دیا جائے کہ جو کچھ کیا جارہا ہے وہ سندھی بولنے والوں کے مفاد لئے کیا جارہا ہے۔ بارحال شہری اور دیہی تقسیم سے اردو بولنے والوں پر اعلی تعلیمی اداروں میں داخلوں اور سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ نافظ کر دیا گیا۔

 آج چالیس سال گزر گئے سندھ میں کوٹہ سسٹم  اب  بھی جاری ہے۔ اردو بولنے والوں کےساتھ ناانصافیوں کے خلاف  کئ  سرگرم  مقامی سیاستدانوں    نے الطاف حسین سے پہلے بھی  کراچی اور حیدرآباد میں آوازیں اٹھائیں مگرالطاف حسین نے اردو بولنے والوں کی احساسِ محرومی اور ناانصافیوں کومہاجر اسٹودینٹس فیڈریشن  اورپھر  مہاجر قومی مومنٹ  کے پلیٹفارم سے اٹھایا، کیونکہ مطالبات جائز اور اردو بولنے والوں کی دلِ کی آواز تھے اور اکثریت میں اردو بولنے والے کوٹہ سسٹم کا شکار ہو چکے تھے لحاظہ سندھ کے اردو بولنے والے جو اس پہلے سیاسی طور پر جماعت اسلامی، جمیت الاسلام اور پاکستان مسلم لیگ سے منسلک تھے الطاف حسین کی مہاجر قومی مومنٹ کے پیچھے ہو لئے۔ الطاف حسین کو سندھ کے اردو بولنےوالوں نے اپنا مسیحا مان لیا اور اپنی جان ومال الطاف حسین پر   نچھاور کر دی۔ الطاف حسین دیکھتے ہی دیکھتے سندھ کی ایک طاقتور سیاسی شخصیت بن کر ابھرے۔ الطاف حسین سے مہاجر قومی مومنٹ کا عوامی تعارف بالکل اسی طرح کرایا، جس طرح اس سے پہلے جی ایم سید  نے  سندھو دیش تحریک  کا کیا تھا۔  اصلحہ کی نمائش، آگے پیچھے کلاشنکوف کے ساتھ نوجوان گارڈ اور ایک دہشت کا سا سمان پیدا کرنا۔ الطاف حسین نے کیا حاصل کیا اور آج اردو بولنے والا طبقہ کہا ں سے کہاں پہنچ گیا ہے یہ ہر اردو بولنے والا اگر اپنی فیملی کو ہی دیکھ لے تو جواب مل ِ جائے گا۔ مگر یہ ایک بدترین بیس سالہ کہانی ہے جو شروع تو بہت ہی جائِز اور وقت کی آواز تھی مگر انجام اردو بولنے والوں کی ایک پوری نسل کی نسل کشیِ، فاقہ کشی اور کردار کشیِ پر مبنی ہے۔ بارحال الطاف حسین  نے مہاجر قومی مومنٹ کو اردو بولنے والوں کی جماعت بنا کر  پیش کیا  ۔ کیونکہ  الطاف حسین نے اسِے شروع ہی ایک طلبہ تنظیم کے طور پر کیا تھا لحاظہ اردو بولنے والوں کی نوجوان نسل الطاف حسین کے پیچھے   چل دی جو آج اب اپنے بچوں کے مستقبل پر پریشان ہیں۔  لیکن یہ  بے چارے تو  الطاف حسین کے پیچھے اسِ لئے  ہوئےتھے کہ الطاف حسین سندھ کے تعلیمی اداروں اور سرکاری ملازمتوں میں  جو بھٹو نے کوٹہ سسٹم نافظ کیا ہے اس کو ختم کرائے گا۔ الطاف حسین نے اسِ نوجوان نسل کو ایسے نعرہ دئیے جو صرف اور صرف جذباتی تھے مثال کےطور پر ، منزل نہیں رہنما چائیے، جو الطاف کا غدار ہے موت کا حق دار ہے ، پانچویں قومیت مہاجر  قومیت وغیرہ  وغیرہ۔ غور طلب بات   اُس وقت  مسلہ  سندھ سے کوٹہ سسٹم ختم کرنےاور ایک مخصوص طبقہ  کے ساتھ تعصب کو ختم کرنا تھا  مگر الطاف حسین نے تمام نئی نسل  کے سامنے  اپنے آپ کو سیاسی پیشوا منوانے کے پیچھے لگا  لیا۔ پھر یہ کہا گیا کہ عورتیں گھر کا سامان بیچیں اور اصلحہ خریدیں۔ جس نسل کا زیور  تعلیم ، اخلاق اور تہذیب تھا انکے ہاتھوں میں اصلحہ، زبان پر جذباتی نعرہ دے دئیے گئے ۔ آج ایم کیو ایم کو بنے تیس سال سے زیادہ عرصہ گزرگیا  نہ تو کوٹہ سسٹم ختم ہوا  اور نا ہی ناانصافیاں ختم کرائی گئیں بلکہ ایک پوری نسل خانہ جنگی جیسے حالات میں پیدا ہوئی اور اب جوان ہو چکی اسِ نسل کو صرف یہ تعلیم دی گئی  ہےکہ اردو بولنےوالوں کا صرف ایک ہی ان داتا ہے جس کا نام الطاف حسین ہے، اردو بولنے والوں کی ایک ہی سیاسی جماعت ہے جس کا نام ایم کیو ایم ہے اور یہی لیڈر اور اسکی جماعت اردو بولنے والوں کو انکی منزل تک پہنچا سکتی ہے۔

  آج الطاف حسین خود اپنی زندگی کی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے اور اسکی جماعت اپنی بقا کے لیے ہر چور  ، بد عنوان اور بدکردار شخص اور جماعت سے ہاتھ ملا رہی ہے۔ آج ہر ایم کیو ایم کی سب سے زیادہ حلیف جماعت کوئ ہے تو وہ پاکستان پیپلز پارٹی ہے جس نے اردو اور سندھی بولنے والوں کے درمیان تقسیم کی بنیاد ڈالی۔ لحاظہ یہ سندھ میں پچھلے چالیس سال سے کیا سازش کی جارہی ہے ہر اردو بولنے کو جذبات سے باہر آکر سوچنا ہوگا۔

آج  اردو بولنے والوں کے پاس ایک لیڈر الطاف حسین اور اسکی  جماعت تو موجود ہے مگر منزل کوئی نہیں، کیا حاصل کرنا ہے ، کسِ چیز کی تحریک ہے، کتنے لوگ اور مروانے پڑیں گے  تو کیا حاصل ہوگا کچھ پتہ نہیں کیونکہ  انہیں  منزل چائیے ہی نہیں  الطاف حسین چائیے جو پچھے بیس سال سے زیادہ عرصہ سے برطانیہ کی شہریت حاصل کرکے برطانیہ میں بیٹھا ہے اور جس کا پاکستان آنے کا دور دور تک کوئی ارادہ بھی نہیں لگتا۔

میرا تعلق خود اردو بولنے والے طبقہ سے ہے  کیا میرے باپ دادا نے پاکستان کے لئے قربانیاں اس      لئے دی  تھیں کہ آج  انکی  نسل تہذیب،  اخلاقیات اور تعلیم  سے محروم ہوجائے، نوکریاں حاصل کرنے کے لائق نہ رہے، دہشگردی اور بھتہ خوری کو اپنا پیشہ بنالے۔ بڑے چھوٹے کا لحاظ چھوڑ دے۔ میں ذاتی طور پر خود کوٹہ سسٹم کا شکار ہو چکا ہوں کیونکہ جب

 ذوالفقاد علی بھٹو کی  پیپلز پارٹی کہ پہلی حکومت نے کوٹہ سسٹم نافظ کیا اور سندھ کو دہی اور شہری میں تقسیم کیا  تومیں  نے اسی دور میں کالج میں تعلیم حاصل کر رہا تھا   اور کوٹہ سسٹم کی وجہ سے انجرینگ کالج میں داخلہ سے محروم ہوگیا  تھاکیونکہ میرا ڈومیسائل حیدرآباد شہر کا تھا مگر میں  نے محنت سے پڑھا۔پہلے بی سی آنرز فزکس میں  سندھ یونیورسٹی سے اپنی فیکلٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی پھر کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں فیکلٹی میں دوسری پوزیشن حاصلی کی اور بائیس سال کی عمر میں سترا گریڈ کی نوکری سے اپنے پروفیشنل کیرر کا آغاز کیا اور دو سال بعد ہی اٹھار گریڈ میں ترقی ہوگی مگر ساتھ ساتھ کوٹہ سسٹم جیسی لعنت کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھاتا رہا۔ اگر اردو بولنے والوں کا کوئی صحح ہتھیار تھا توو ہ اعلی تعلیم تھی جو بدقسمتی سے الطاف حسین خود بھی حاصل  نہ کر سکا اور اپنے مریدوں کو بھی نہ کرنے دی۔

ایوب خان نے شاید صحح ہی کہا تھا کہ مہاجروں اگر تم نے ہوش سے کام نہ لیا تو تمھارے آگے اب صرف سمندر ہے کیونکہ اب تم یا مھاری پاکستان میں پیدا ہونے والی نسل واپس ہندوستان نہیں جا سکتی۔

Recommended For You

About the Author: Tribune