تاریخ کے اوراق کیاکہ رہے ہیں۔۔۔۔

سید عتیق الحسن، سڈنی  

From history pages of 1977
From history pages of 1977

میرا اندازہ  ہے  کہ آج شوشل میڈیا پر بیٹھ کر انقلاب مارچ اور آزادی مارچ کا مزاق اڑانے والے بہت سارے ایسے لوگ ہونگے جو ۱۹۷۷ میں پیدا بھی نہیں ہوئے ہونگے اور اگر پیدا ہو گئے تھے  تو اپنے ماں باپ کی گودوں میں کھیل رہے ہونگے یا پھر اپنے بڑوں کا ہاتھ پکڑ کر اسکول جاتے ہونگے۔ خیرمجھے کسی کی عمر  سے  کیا لینا جب مجھے اپنی عمر چھپانے کا کوئی شوق نہیں، میں تو یہاں آپکے ساتھ تاریخ کے وہ اوراق کھولنا چاہتا ہوں جس کے بارے اگر آج یہ کہا  جائے کہ تاریخ اپنے آپ کو دوھرا رہی ہے تو غلط نہ ہوگیا۔  تو آئیے جھانکتے ہیں پاکستانی تاریخ کے اُن اوراق میں جہاں دفن ہے پاکستان  کی   تاریخ کی  کسی بھی حکومت کے خلاف ہونے والی سب سے لمبے دورانیے کی مومنٹ،جسے پاکستان قومی اتحاد کا نام دیا گیا تھا  اور جس کا انجام ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر جاکر ختم ہوا۔

ذوالفقار علی  بھٹوکی پاکستان پیپلز پارٹی کے اقتدار کے پانچ سال مکمل ہوئے  اور ۱۹۷۷ میں بھٹو حکومت نے قومی انتخابات کا انعقاد کیا۔ انتخابات کا نتیجہ آیا،  پاکستان پیپلز پارٹی کو بھاری اکثریت سے کامیاب قرار دیا گیا۔ کراچی اور حیدرآباد کے علاوہ   سندھ سے اور پنجاب کے بیشتر حلقوں سے پاکستان پیپلز پارٹی کے نمائندوں کو الیکشن کمیشن نے کامیاب قرار دیا۔ حزب  مخالف  کی تقریبا تمام جماعتوں نے انتخابات  کے کئی حلقوں کا نتیجہ ماننے سے انکار کر دیا۔ اندرونِ سندھ کی کئی نشستیں ایسی تھیں جہاں ووٹرلسٹ میں درج ووٹروں سے بھی زیادہ ووٹ بیلٹ بکس سے نکلے تھے۔ذوالفقار علی بھٹو سمیت پیپلز پارٹی کے تمام قائدین ،وزیروں اور مشیروں نے اختلاف رکھنے والی تمام جماعتوں کے کئی حلقوں کے انتخابی نتائج ماننے سے انکار کو مسترد کر دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی حکومت کے دوسری مدت کے اقتدار  کا اعلان کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ حزبِ مخالف ۹ بڑی جماعتوں نے بھٹو حکومت کے خلاف سلسلہ وار احتجاج کرنے کا اعلان کردیا۔ ۹ جماعتوں کے اس اتحاد کو نو ستاروں کا نام دیا گیا۔ تو ستاروں کا احتجاج رفتہ رفتہ عوام کو سڑکو ں پر لے آیا۔ ۹ ستاروں کی مانگ تھی کہ بیس کے لگ بھگ ایسے حلقہ ہیں جہاں دھاندلی ہوئی ہے وہاں دوبارہ انتخابات کرائے جائیں۔ بھٹو صاحب کے وزیروں، مشیروں اور جیالوں نے بھٹو صاحب کو کہا کہ آپ حوصلہ رکھیں یہ نو ستاروں کی مانگ ، ہڑتالوں ور لوگوں کو سڑکوں پر لانے سے کچھ نہیں ہوتا۔ مقابلے کے طور پر پیپلز پارٹی کے جیالوکو بھی پاور شو کرنے کے لئے سڑکوں پر لانے کی کوشش کی گئی مگر حکومت کے کارندے کامیاب نہ ہوسکے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مقام پر بھٹو صاحب متناظہ حلقوں پر دوبارہ انتخابات کرانے کے لئے آمادہ بھی ہونے لگے تھے مگر ان کے وزیروں، مشیروں اور جیالوں نے مشورہ دیا کے قومی اتحاد کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دورِ حکومت میں پولس فورس کے مقابل فیڈرل سیکورٹی فورس  (ایف ایس ایف )کے نام سے ایک اور فورس بنائی تھی جس میں زیادہ تر پیپلز پارٹی کے  جیالوں کو بھرتی کیا گیا تھا۔ ایف ایس ایف کی فورس کے ذریعہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے قومی اتحاد کے جلسے، جلسوں کو طاقت کے ذریعہ کچلنے کی  کوشش کی گئی۔ ہنگاموں میں مزید اضافہ ہوگیا۔ اب قومی اتحاد کا مطالبہ چند حلقوں میں دوبارہ انتخابات کا نہیں تھا بلکہ ملک میں دوبارہ انتخابات کرانا تھا۔ کئی مہینوں تک آئے دنِ  کی ملک گیر ہڑتالوں ، جلسے جلسوں اور تھوڑ پھوڑ سے ملک کو اربوں روپوں کا نقصان ہو رہا تھا ۔ پھر احتجاج اور ہڑتالوں کا سلسلہ اسِ حد تک بڑھ گیا کہ پاکستان کے تمام ائرپورٹ، بندرگاہ اور ٹرین اسٹیشن بھی بند کر دئیے گئے۔ ہر بڑے شہر میں حکومت کی ہزاروں املاک کو جلا کر راکھ کر دیا  گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو سیاستدان کے اندر ایک روائتی وڈیرہ  بسا ہوا تھا لحاظہ بھٹو نے ڈپلومیسی کی بجائےطاقت کے استعمال کو ترجیح دی۔ دوسری جانب پاکستان قومی اتحاد  اب سیاستدانوں کے ایوانوں سے نکل کر عام آدمی کے ڈرائینگ روم کی زینت بن چکی تھی پاکستان کے ہر شہر اور ہر قصبہ میں’ لاٹھی گولی کی سرکار نہیں چلے گی‘ کے نعرہ بلند تھے۔ بالآخر فوج کی جانب سے اسِ طرح کے اشارہ ملنے لگے کہ اب بس بہت ہوگیا بھٹو صاحب حالات کو کنٹرول کیجئے ۔ بھٹو نے اسِ کی پرواہ نہ کی اور پاکستانی قوم کے سامنے پاکستان ٹیلی ویزن پر آکر کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کمزور ہو سکتا ہے مگر وزیر اعظم کی کرسی بہت مضبوط ہے۔ اس تقریر کے بعد پورے ملک میں ایسے ہنگامے ہوئے کہ دنیا کے لئے مثال بن گئے پاکستانی فوج نے طے کر لیا کہ اب بھٹو صاحب کی حکومت کو لپیٹنا ہے۔ بھٹو صاحب نے بھانپ لیا اور قومی اتحاد  کے  قائدین کو مزاکرات  کے لئے گول میز کانفرنس پر بلا لیا۔ کہا جاتا ہے کہ بھٹو اب مجبور ہوکر  ذہنی طور پر دوبارہ انتخابات کرانے کے لئے تیار ہو گئے تھے مگر کہتے ہیں سیاست میں صحح وقت پر فیصلوں کی بہت اہمیت ہوتی ہےلحاظہ تیر کمان سے نکل چکا تھا اور بھٹو صاحب کے لئے بہت دیر ہو چکی تھی۔ ۵ جولائی۱۹۷۷ کا سورج بھٹو صاحب کے لئے زوال کا پیغام لایا۔ اس سے پہلے کہ بھٹو صاحب ملک میں دوبارہ انتخابات کا اعلان کرتے ۔ جرنل ضیاالحق نے بھٹو صاحب کے اقتدار کو لپیٹ دیا اور ملک میں  مارشل لا نافظ کر دی اور بھٹو صاحب کو کچھ عرصہ نظر بند کرکے چھوڑ دیا  مگر ذوالفقار علی بھٹو کے کارناموں  پر فائیلیں بہت زیادہ تھیں۔ انہی میں سے ایک مقدمہ مارچ ۱۹۷۴ میں احمد رضا قصوری کے والدنواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے یہ قتل کرایا تھا یا نہیں مگر ذوالفقار علی بھٹو کے نصیب میں پھانسی کا پھندا تھا۔  کہتے ہیں اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے اور اللہ کے گھر دیر ہے مگر  اندھیر نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دو  بیٹے شاہ نواز بھٹو اور مرتضی بھٹو تھے  دو بیٹیاں بے نظیر بھٹو  اور صنم بھٹو تھیں۔ شاہ نواز ایک پر اسرا موت  کے نتیجہ میں  پیرس  کے ایک فلیٹ میں مردہ حالت میں پایا گیا۔ مرتضی بھٹو کا قتل دنِ دھاڑے اس کی بہن  بے  نظیر  کے دورِ اقتدار میں ہوا۔ بے نظیر بھٹو کا قتل راولپنڈی میں ہزاروں کے جلوس میں ہوا جس کے قاتلوں کا آج تک پتہ نہیں چل سکا اور صنم بھٹوایک غیر سیاسی زندگی کہیں گزار رہی ہیں۔

آج یہ لمحہ فکریہ ہے ان حاکموں کے لئے جو شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ اپنی طاقت اور دولت کے بل بوتے پر  سب کچھ اپنے مفاد میں اور اپنے حساب سے کر سکتے ہیں اور جس کو چاہے اور جہاں چاہے لپیٹ سکتے ہیں مگر سب سے بڑی طاقت لپیٹنے کی وہ مالک دو جہاں ہے  جس نے ہر ایک کو جنم دیا ہے اور ہر ایک کی جان لینے والا ہے۔

Recommended For You

About the Author: Tribune

Comments are closed.