!بات ہار کی نہیں ، رُسوائی کی ہے

:سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا

یہ سب جانتے  ہیں، پاکستان  اور بھارت کے مابین  کل  ہوئے کرکٹ عالمی کپ کے میچ سے پہلے بھی سب کو معلوم تھا کہ دونوں میں سےindia-vs-Pakistan-Re4L کسی ایک کو جیتنا  اور ایک کو ہارنا ہے۔ میچ میں اگر متحد ہوکر ٹیم ورک  اور دیانتداری سے سو فیصد جان لگا کر کوئی ٹیم ہارتی ہے تو اس ہار کو لوگ کھیل کا حصہ سمجھ کر پرجوشی سے قبول  کرتے ہیں۔ مگر بات یہ ہے کہ اگر کسی ٹیم ، اسکے کھلاڑیوں اور آفیشلز کا  چنائوذاتی پسند، ناانصافی اور بدعنوانی پر ہوگا تو اسُ ٹیم اور آفیشلز سے سوائے رسوائی، شرمندگی اور مایوسی کے کیا مل سکتا ہے! پاکستانی ٹیم نے کل کے میچ میں پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کو نا صرف مایوس کیا بلکہ انکے جذبات کو مجروح کیا ہے۔ بچوں ، نوجوانوں  اورعورتوں غرض کہ ہر پاکستانی نے پاکستان میں اور دنیا میں جہاں جہاں آباد ہیں پاکستان کے میچ کے لئے بے تہاشہ تیاریاں کیں ، پاکستان ٹیم کے  حوصلے کو بڑھانے کے لئے آسٹریلیا میں آباد پاکستانیوں بالخصوص آسٹریلیا میں پیدا ہوئی  پاکستانیوں کی نئی نسل نے سڈنی، میلبورن اور پرتھ سے مہنگے مہنگےجہاز کے ٹکٹ خرید کر مہنگے دام ہوٹل کے کمرے ایڈیلیڈ میں بک کئے، بہت سو ں سے بلیک سے مہنگے ٹکٹ خریدے،  پھر میچ  سے رات قبل ساری رات ایڈیلیڈ کی سڑکوں پر پاکستان کے جھنڈے لہراتے اور پاکستان زندہ باد کے نعرہ لگاتے پاکستانی ٹیم کے لئے جوش اور جذبہ سمیٹتے رہے ۔ مگر جس عمارت کی بنیاد جعلی  مٹیریل پر رکھی گئی ہو وہ نا تو قائم رہ سکتی ہے اور نا ہی لوگوں کورہنے کے لئے چھت، تحفظ  اور راحت فراہم کر سکتی ہے۔ پاکستان ٹیم کے کوچ سے لیکر دوسرے آفیشلز کی میدان  سے باہر کر حرکتیں آسٹریلیا میں بسنے والے مجھ سمیت بہت سے  پاکستانیوں پر عیاں  ہیں ۔آج جو ٹیم کی مینجمنٹ اور کوچنگ کاحصہ ہے انُ کی میدان سے باہر کی حرکتیں میں نے اسُ وقت دیکھی تھیں جب یہ بحیثت کھلاڑی ٹیم کا حصہ تھے۔ رات دیر  ہوٹل واپس آنا اور ممنوع  مصروفیات میں وقت گزارنا انِ لوگوں کے آسٹریلیا آنے کا مقصد ہوتا ہے۔بھارت سمیت دوسری ٹیموں کے کھلاڑی اور آفیشلز اپنے ہم وطن لوگوں کو نظر نہیں آتے ، فیلڈ سے پرکٹس ، آرام اور پھر کھیل پر توجہ ہوتی ہے۔ مگر پاکستانی کھلاڑی، کوچ اور مینیجر کا پاکستانیوں سے میل وملاپ ،دعوتیں اڑانا، تحفہ تحائف وصول کرنا اور انُ سرگرمیوں میں مصروف راتیں گزارنا جن کا ذکر میں اسِ مضمون میں نہیں کر سکتا۔

دراصل قصور انِ کھلاڑیوں اور انِ کے ساتھ سفر کر رہے آفیشلز کا نہیں کیونکہ ان کے جو ایجنڈے ہوتے ہیں یہ  وہ  پورے کر رہے ہوئے تھے، قصور وار بچارے وہ چند  کھلاڑی بھی بن جاتے ہیں جو انِ کے ساتھ ٹیم کا حصہ بن کر آئے ہوتے ہیں، یہ بے چارے   نا کردہ گناہوں کی سزا انِ پیشہ وروں کی وجہ سے بھگت رہے ہوتے ہیں۔

دوسری جانب پاکستانی عوام ہے۔ پاکستانی عوام کا قصور یہ ہے کہ وہ   جسِ طرح سے جانتے بوجھتے اُنہیں بدکردار، نااہل اور جعلی سیاستدانوں کو اپنا لیڈر مانتی ہے اور انکے پیچھے نعرہے لگاتے پھرتے ہیں ، اِسی طرح سے وہ انِ مایوسی پھیلانے اور شرمندگی  دلانے والے کھلاڑیوں کے لئے  گانے گاتی پھرتی ہے ، کہ تم ہارو یا جیتو ہمیں تم سے پیار ہے۔ لحاظہ ان سے اسی طرح پیار کرتے رہو اور شرمندگی کو کماتے رہو۔

Recommended For You

About the Author: Tribune