اللہ کے ہر کام میں کوئی مصلحت ہوتی ہے، بے شک ہمیں ایک دنِ اسُی کے پاس لوٹ کرجانا ہے۔

سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیاٗ

بالالخصوص پچھلی نصف صدی  میں انسان نے  سائنس اور ٹیکنالوجی میں حیرت انگیز ترقی  کی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے انسان کے رہن سہن کا طریقہ بدل دیا ہے۔ آمد و رفت، تجارت، تعلیم  ،  صحافت غرض کے ہر شعبہ میں انسان کے کام کرنے کے طریقہ بدل گئے ہیں۔  تعلیمی قابلیت  کے معیار تبدیل ہو گئے ہیں۔  اخلاقی قدروں کے پیمانے بدل گئے ہیں۔ رہن سہن، ثقافت،  فن و ادب کے معیار تبدیل ہو گئے ہیں۔ انسانی رشتوں  کی قدریں بدل گئی ہیں۔ انسان کی موت سستی  اور زندگی  مہنگی ہو گئی ہے۔

انسانوں کے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کے طریقے بدل گئے ہیں۔  مواصلات،  ذرائع ابلاغ اورسفر کرنے کے طریقوں میں انسان نے اتنی  ترقی  کرلی ہے کہ اب دنیا  ایک ہی شہر کے کئی محلے لگتے ہیں۔ ایک ملک سے دورے  ملک سفر کرنا اب کوئی بڑی بات نہیں سمجھی جاتی۔ سوشل میڈیا نے دنیا کے ایک کونے میں بسنے والے انسانوں کو دوسرے کونے کے انسانوں کے قریب کھڑا کر دیا ہے۔ دنیا کے ایک خطہ  کے کسی ملک میں ایک غیر معمولی واقع کی خبر  پوری دنیا میں چند لمحوں میں وائرل ہو جاتی ہے۔

آج کسی بھی مذہب کو ماننے والا انسان اپنے مذہب ، ثقافت، زبان، ادب اور خاندانی تربیت سے دور نظر آتا ہے۔ آج کی نسل  خاندانی اقدار کو فضول  سمجھتی ہے۔ آج کا  نوجوان اپنے بزرگوں  پر پرانے خیالات کا الزام لگا کر اپنے معاملات سے دور رکھتا ہے۔ ماں باپ اپنے بچوں کے ہاتھوں مجبور نظر آتے ہیں۔ قریب بیٹھا ہوا گھر کا فرد اپنے گھر والوں سے زیادہ موبائل پر بات کرنے والوں کو قریب سمجھتا ہے۔ خاندان کے جو فیصلے پہلے بزرگ کرتے تھے آج نوجوان اس کو   دقیانوسی  طور طریقہ کہ کر اپنے فیصلے خود کرتا ہے۔

آج جہاں سائنس و ٹیکنالوجی، میڈیکل سائنس ، کمپیوٹراور  ذرائع ابلاغ  نے حیرت انگریز ترقی سے انسانوں کو بے انتہا فائدہ پہنچایا ہے اور ایک خطہ کے انسانوں کو دوسرے خطہ کے انسانوں  سے جوڑ  دیا ہے، وہیں آج ایک گائوں کے لوگ ایک دوسرے  کے لئے اجنبی ہو گئے ہیں۔  آج کی نوجوان نسل کے لئے انکے ذاتی معاملات  کی اہمیت خاندان  میں ہونے والے شادی بیاہ یا کسی فرد کی موت  کی خبر سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔  آج کی نسل پہلے اپنی ذاتی مصروفیات کو دیکھتے ہیں پھر اگر کوئی فالتو وقت نظر آتا ہے تو کسی کی شادی میں شریک ہوتے ہیں اور وہ بھی ایک مخصوص  اور تھوڑے وقت کے لئے۔ آج کی نسل کے لئے خاندان، رشتہ دار یا محلہ کے کسی بیمار کی تیمار داری سے زیادہ اپنی نوکری اور دوستوں کی پارٹیاں زیادہ ضروری ہیں۔

آج کسی مجبور کی مدد  کرنے میں بھی  دکھاوہ نظر آتا ہے۔ لوگ کسی کی  مدد کرتے ہیں یا کسی فلاحی پروگرام میں کوئی عطیہ دیتے ہیں تو سوشل میڈیا پر اپنی تصویروں کے انبار لگا دیتے ہیں۔ آج نئی نسل کے لئے وہ  فرد  اہم  ہے جس میں کوئی ذاتی مفاد یا  شہرت  نظر آتی  ہو۔

غرض کہ دنیا میں ہر انسان ایک ریس کا کھلاڑی نظر آتا ہے اور بس وہ ایک نا ختم والی دوڑ میں شریک   ہے اور اسِ سوچ سے دور نظر آتا ہے کہ ایک دن  اسے اس ریس کو چھوڑ کر  اسِ دنیا سے خالی ہاتھ کوچ کر جانا ہے ، اور جب جانے کا وقت ہوگا تو اسُ میں اس کی کوئی مرضی شامل نہیں ہوگی بلکہ اس مالک کا حکم ہوگا جس نے اسکو پیدا کیا ہے۔

آج چاہے دنیا کا طاقت ور ترین ملک امریکہ ہو،  برطانیہ ہو، چین  ہو یا کوئی اور ترقی یافتہ ملک جن کے پاس  دنیا کا اعلی سائنسی نظام ہے یا ایک عام غریب ملک  سب ایک  ۲۷ سے ۳۴ کلوبیسسِ مائیکرو وائرس سے پریشان  اور خوفزدہ  ہیں ۔ آج دنیا کا ہر انسان کرونا وائرس کے خوف میں مبتلا ہے اور لا چار  ہے۔ آج دنیا کے طاقتور ترین ملک کے پاس ایٹم بم ہیں، میزائیل ہیں ، تیز ترین لڑاکا طیارے ہیں مگر کچھ نہیں ہے تو کرونا وائرس کا علاج۔ بلکہ علاج تو درکنار ابھی تک یہ معلوم کرنے سے بھی قاصر ہیں کہ یہ وائرس آخر کس طرح سے وجود میں آیا ہے۔ آج اس وائرس کا علاج کسی کے پاس نہیں۔  بس اگر کچھ ہے تو صرف اس مالک کائینا ت سے دعا جس کے ہاتھ میں ہر انسان کی جان ہے۔

  آج مالک ِ کائینات نے ہمیں یہ پیغام دیدیا ہے کہ تم کتنی بھی ترقی کرلو ، اللہ کی طاقت اور تباہی سے انکار نہیں کر سکتے کیونکہ اسی نے اسِ کائینات  کو تخلیق کیا ہے اور انسان کو اتنی عقل دی ہے کہ وہ اپنے فائدہ اور آرام کے لئے سائینس اور ٹیکنالوجی  میں لا تعداد ترقی کر سکتا ہے ۔  لیکن اگر اسِ   سائنسی ترقی   کے گھمنڈ میں مالک ِ کائینات کے کاموں میں دخل اندازی کروگے تو مالکِ کائینات کے لئے اسِ دنیا کو ختم کرنے  میں چند لمحے بھی نہیں لگیں گے۔ سائنس دانوں نے امریکہ ، یورپ اور چین کی سا ئنسی  لیباٹریز میں انسانوں کو کلون کرنے اور ہم شکل انسان پیدا کرنے کے تجربہ شروع  کر رکھے ہیں ۔ اسِ چیز پر تجربے کئے جارہے ہیں کہ انسان کے جسم کو کسی مادہ میں تبدیل کرکے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جائے اور پھر اصل جسم میں دوبارہ تبدیل کر دیا جائے وغیرہ وغیرہ۔ مگر انسان یہ بھول جاتا ہے کہ جس مالک نے اس کائینات اور تمام انسانوں کو پیدا کیا ہے اس نے ہر چیز کی ایک حد مقرر کر رکھی ہے اور ایک حد تک چھوٹ دی ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا اللہ تعالی نے کئی مرتبہ ختم کی اور پھر پیدا کی ہے۔ جب جب انسان نے اللہ کی طاقت ، مرضی اور کرشموں کو چیلنج کرنا شروع کر دیا اللہ نے دنیا میں آفات ناذل کر دیں اور لاکھوں انسانوں کو چند دنوں میں جان لیوا بیماریوں میں مبتلا کر دیا۔

لحاظہ میری سمجھ یہ کہتی ہے کہ یہ کرونا وائرس تو اللہ کے جاہ جلال کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے۔ اگر آج بھی انسان نے اللہ کی وحدانیت اور طاقت کو تسلیم نہ کیا تو پھر اللہ کے لئے اسِ دنیا میں قیامت کو ناذل کرنا بس ایک حکم ہوگا کہ ہوجا اور ہو جائے گا۔

میری عقل یہ کہتی ہے کہ کرونا وائرس اللہ کی طرف سے ہمیں ایک ہدایت ہے کہ ہم سب کو لوٹ کر ایک دنِ اسی مالک کی طرف لوٹ جانا ہے جو ہمیں اسِ دنیا میں لیکر آیا تھا۔ لحاظہ  ہم سب کو اللہ کے حضور سر بسجود ہوکر اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چائیے ، اللہ کی وحدانییت اور طاقت کے آگے انکساری  اور گڑ گڑا کر دعا مانگنی چائیے کہ اللہ ہمیں اسِ کرونا وائرس کے وبائی مرض سے محفوظ فرمائے ۔ ہم سے جو غلطی ہوئی ہیں انکو معاف فرمائے اور اسِ دنیا سے کرونا وائرس کو ختم فرمائے۔ (آمین)

Recommended For You

About the Author: Tribune